• news

حکومت کچھ نہیں کرنا چاہتی تو بتا دے‘ کیا نیب‘ نیپرا کے کام عدالت کرے گی: جسٹس جواد

اسلام آباد(نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ میں ڈسٹرکٹ سانگھڑ کے علاقے میں آئل کمپنیوں کی جانب سے ترقیاتی کام نہ کرنے کے حوالے سے ازخود نوٹس کیس کی سماعت میں عدالت نے ڈی جی پٹرولیم کنسوریشم سے جغرافیائی لحاظ سے آئل کمپنیوں کے لیے بنائے گئے 50 بلاکس کی تفصیلات اور نقشے کی کاپیاں طلب کر لئے۔ سماعت 24 مارچ تک ملتوی کر دی گئی ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیے کہ گڈ گورننس قائم کرنا عدالت کا نہیں انتظامیہ کا کام ہے اگر کوئی عدالتی حکم پر عمل نہیں کرتا تو اس کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہوگی، رکاوٹیں ڈالنے والوں کے نام بتائے جائیں یہ انتہائی حساس معاملہ ہے ہر محکمے کو اپنا کا م خود کرنا چاہیے، اگر حکومت کچھ نہیں کرنا چاہتی تو ہمیں بتا دے کیا اب عدالت نیب، نیپرا، ڈی جی پی سی کے کام خود کرے گی؟ آلودگی کے باعث مقامی لوگ مر رہے ہیں۔ وزارت پٹرولیم کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ فنڈز کے لیے آئل کمپنیوں کو خط لکھے ہیں متعلقہ امور ڈسی او کے ذریعے طے ہوتے ہیں ان سے کہا گیا ہے وہ رپورٹس دیں کہ کون سی کمپنی کون کون سے روٹس استعمال کر رہی ہے زیادہ تر سڑکوں کا مسئلہ ہے انہوں نے چھ ماہ میں رپورٹس دینے کا کہا ہے، ڈی جی پٹرولیم کنسوریشم نے بتایا کہ6 ملین ڈالرز کے فنڈز ملے ہیں صوبائی نمائندوں اور سیکرٹریوں کے ساتھ میٹنگ کر رہے ہیں چاہتے ہیں پیسہ درست جگہ لگایا جائے ہر علاقے کے لیے فنڈز کی حد مقرر کر دی گئی ہے۔ درخواست گزار روشن نے بتایا کہ ان کے علاقے میں ایک کلومیٹر روڈ بھی نہیں بنا اور نہ ہی کوئی بنیادی مرکز صحت بنا ہے ہم نے ایک آئل کمپنی کو سکول کے لیے عمارت اور زمین دی انہوں نے چند دن سکول چلایا پھر بند کر دیا گیا۔گھوٹگی میں بتیس گائوں ہیں ان میں سے صرف نو فیصد افراد کو روزگار ملا ہے وہ بھی صرف سیاسی بنیادوں پر ملا ہے۔ وکیل نے کہا کہ آئل کمپنیوں سے معاہدے کے وقت طے پایا کی پانچ کلومیٹر کے علاقے میں گیس کنکشن دیے جائیں گے جس کے آدھے اخراجات کمپنی دے گی اب کمپنی تو پیسے دیتی ہے مگر حکومت اپنے حصے کے پیسے نہیں دے رہی۔ جس پر جسٹس جواد نے ریمارکس دیے کہ تیل کمپنیوں سے سہولیات لینا متعلقہ اضلاع کے لوگوں کا حق ہے ۔ ایسے کام کے پی کے، بلوچستان، سندھ ہر جگہ ہونے چاہئیں۔ 50 ایسے اضلاع ہیں جہاں پٹرولیم کمپنیاں کام کر رہی ہیں مگر حالات بد سے بدتر ہو گئے، متعلقہ علاقوں میں روزگار کی ذمے داری آئل کمپنیوں پر ہے جو وہ پوری نہیں کر رہیں۔ 

ای پیپر-دی نیشن