کتابیں گھر کی طرح ہوتی ہیں
پنجاب یونیورسٹی میں کتاب میلہ دلیر اور دانشور وائس چانسلر مجاہد کامران نے لگایا۔ وہاں نوجوان طلبہ و طالبات اور خواتین و حضرات کو دیکھ کر مجھے حوصلہ ہوا کہ ہمارے ہاں کتاب دوستی ختم نہیں ہوئی۔ انقلاب کی آرزو رکھنے والے کتاب اور خواب سے محبت رکھتے ہیں۔ میں نے وہاں کہا تھا کہ کتابیں گھروں کی طرح ہوتی ہیں ان میں رہنا چاہئے۔ ڈاکٹر مجاہد کامران کتابوں کی تقریب پذیرائی میں اکثر میرا یہ جملہ دہراتے ہیں ’’مجھے کتابیں اور کتابی چہرے اچھے لگتے ہیں۔‘‘ آج میں نے چاہا کہ کتابوں کی بات ہو ۔ مجھے تحفے میں بہت کتابیں ملتی ہیں۔ میں کبھی کبھی ان کا ذکر اپنے کالم میں کرتا ہوں۔
سب سے پہلے نوائے وقت کے دوستوں کی لکھی ہوئی کتابوں کے لئے بات ہو جائے مگر اس کے علاوہ کتاب لکھنے والا ہر آدمی میرا دوست ہوتا ہے۔ کولیگ اور ہمراز بھی۔ اسے ہم زلف بھی کہا جا سکتا ہے کہ کتاب سے بڑھ کر محبوب کون ہے۔ کتاب سے محبت کرنے والے ایک گہرے رشتے میں منسلک ہوتے ہیں جو ہم زلف ہونے سے بھی بڑا ہے۔
علی نواز شاہ جواں ہمت ہے اور جوان بھی ہے بلکہ بہت جوان ہے۔ اس زمانے میں ناول لکھنے کا راستہ منتخب کرنا ادبی بہادری ہے کہ سب نے افسانہ پڑھنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ ناول کو دیکھ لینا بھی بہت بڑی ادبی سرگرمی ہے۔ علی نواز شاہ نے کئی ناول لکھے ہیں۔ میں نے اسے معذور بچوں کے حوالے سے ناول لکھنے کی تجویز دی۔ اس نے تھوڑے عرصے میں 200صفحات سے زیادہ ناول لکھ کے مجھے حیران کر دیا۔ میں یہ ناول پڑھ کے اور بھی حیران ہوا۔ اس کے ساتھ پریشانی بھی ہوئی۔ ہمارے ہاں انسانوں کی قدر نہیں ہے۔ معذوروں کو کون پوچھتا ہے۔ آج کل ہر طرف دل میں پریشانیاں ہی پریشانیاں ہیں۔ حیران ہونے کا موقع بدحال اور بے حال زندگی میں کوئی نہیں ہے۔ بے حال ہونا خوشحال ہونے سے بھی اچھا ہے مگر اس میں بھی پریشانی نے شامل ہو کے زندگی کو شرمندگی بنا دیا ہے۔ ناول کا نام پتلے رکھا گیا ہے جو بہت حسب حال ہے۔ ہم سب پتلیاں ہیں۔ ڈور کہیں سے ہلائی جا رہی ہے۔ ہم بات بات پہ کہتے ہیں کہ یہ کام کرنے سے معذور ہوں۔ یہ اپنی مجبوری کا کھلم کھلا اعتراف ہے۔ مجبور لوگ معذور آدمی سے زیادہ معذور ہوتے ہیں۔ ناول کے لئے ’’پتلے‘‘ کا نام بے شمار اور بے بہا شاعر فرحت عباس شاہ نے رکھا ہے۔
ایک مختلف اور موثر کتاب ممتاز قانون دان اور وکیل سید محمودالحسن گیلانی نے لکھی ہے۔ عدالت میں پیش آنے والے واقعات کو بہت بہادری اور خوش اسلوبی سے خوبصورت کہانیاں بنایا گیا ہے۔ محمود ایک بہترین براڈ کاسٹر بھی ہے اور ہائی کورٹ میں ایک معروف ایڈووکیٹ ہے۔ اپنے دفتر میں اور لاہور ہائیکورٹ بار میں ادبی تقریبات کراتا رہتا ہے۔ پچھلے دنوں خوبصورت شاعرہ اور نوائے وقت کی کالم نگار واحد خاتون مزاح نگار عارفہ صبح خان کے اعزاز میں زبردست تقریب کرائی گئی ہے۔ میں نے اس کی کتاب ’’تلوار اور ترازو‘‘ کے لئے تفصیل سے کتاب میں لکھا ہے۔ اس کتاب کا نام بامعنی اور مختلف ہے۔ اس کے لئے ڈاکٹر صغریٰ صدف لکھتی ہیں ’’ان کہانیوں میں عدالت میں خوار اور سرخرو ہونے والے ہر طبقے کی عکاسی موجود ہے۔
مشتری نگہت کی کتاب ’’میری ماں‘‘ مجھے نوائے وقت کے کولیگ شریف کیانی نے عطا کی ہے۔ مشتری نگہت نے بڑی سادگی اور آسودگی سے اپنی ماں کنیز فاطمہ کے لئے پوری کتاب لکھ دی ہے۔ وہ امریکہ میں رہتی ہیں۔ اجنبی ماحول میں بھی اپنے لوگ انہیں یاد رہتے ہیں۔ کتاب سے پتہ چلتا ہے کہ محترمہ کنیز فاطمہ واقعی ایک سچی ماں تھی۔ ماں جھوٹی نہیں ہوتی ہے۔ وہ بچوں کے لئے جھوٹ بھی بولے تو فطرت اسے سچ بنا دیتی ہے۔ ماں اپنی بچیوں کی سہیلی اور اپنے بچوں کی دوست ہوتی ہے۔
مائے نی میں کنوں آکھاں درد وچھوڑے دا حال
میرے آقا و مولا رحمت اللعالمین رسول کریم حضرت محمدؐ نے فرمایا ’’ماں کے قدموں تلے جنت ہے‘‘ میں کئی بار لکھ چکا ہوں کے حضورؐ نے تخصیص نہیں فرمائی۔ ماں جوان ہو یا بوڑھی ہو۔ مسلم ہو یا غیر مسلم ہو۔ ماں کی خدمت کرنا بھی جنت میں رہنا ہے۔ ماں سانجھی ہوتی ہے۔ اس کی محبت سچی ہوتی ہے۔ مامتا کو محبت کہا جا سکتا ہے۔ محبت کو مامتا نہیں کہا جا سکتا۔ عورت عظیم ہے کہ وہ ماں ہے۔ مشتری نگہت بھی ماں ہے۔ ہر آدمی کی ماں ایسی ہی ہوتی ہے جیسے کنیز فاطمہ تھی۔
سب سے قیمتی تحفہ نوائے وقت کے کالم نگار پروفیسر ڈاکٹر ایم اے صوفی کی دو کتابیں ہیں۔ کتاب سے بڑا تحفہ کوئی نہیں۔ محبوب شاعرہ مرحومہ پروین شاکر نے اپنے پہلے شعری مجموعہ کا نام ’’خوشبو‘‘ رکھا ہے۔ خوشبو سے بڑھ کر کیا تحفہ ہو سکتا ہے۔ میرے حضورؐ خوشبو کا تحفہ خوش ہو کے قبول کرتے تھے۔ اب کتاب بھی محبت اور خوشبو کی طرح ایک تحفہ بن گیا ہے۔ اس کے بعد ڈاکٹر صغریٰ صدف کے شعری مجموعے کا نام ’’وعدہ‘‘ اور ناز فاطمہ کا ’’ہمیشہ‘‘ مجھے بڑا اچھا لگا ہے۔ وعدہ بھی خوشبو کی طرح ہوتا ہے جو ہمیشہ دل میں زندہ رہتا ہے۔
محترم ڈاکٹر ایم اے صوفی کی کتاب کا نام بہت طویل ہے: ’’صوبہ سرحد کی پاکستان میں شمولیت اور قائداعظم کے ساتھی۔‘‘ کتاب میں اصل بات جس بہادری اور وضاحت سے صوفی صاحب نے لکھی ہے اس کے لئے کتاب کا نام یہی ہونا چاہئے تھا۔ وہ صوبہ سرحد سے تعلق رکھتے ہیں اور اس علاقے کو قائداعظم کی محبت کے پس منظر میں دیکھتے ہیں۔ صوبے کا نام خیبر پختون خواہ رکھ دیا گیا ہے۔ جسے نوائے وقت میں خیبر پی کے لکھا جاتا ہے۔ یہ نام اٹھارویں ترمیم کا شاخسانہ ہے۔ اس ترمیم کے تحت تیسری بار وزیراعظم بننے کی شرط بھی واپس لے لی گئی تھی۔ جو کام باچا خان اور ولی خان نہ کر سکے وہ اسفند یار ولی نے کر دکھایا۔ اس نے خود کہا کہ یہ مہربانی ہم پہ ’’صدر‘‘ زرداری نے کی ہے۔ ’’اسے نواز شریف کا احسان بھی یاد رکھنا چاہئے۔ ان کے دستخطوں کے بعد یہ ترمیم منظور ہوئی۔
ڈاکٹر صوفی نے تاریخی حقیقتیں لکھ دی ہیں کہ صوبہ سرحد کو پاکستان کا حصہ باچا خان کی ہٹ دھرمی کے باوجود کتنی جرات اور قربانی سے بنایا گیا۔ اور باچا خان کو پاکستان کے اندر قبر بھی نصیب نہ ہوئی۔ آج عوامی نیشنل پارٹی کے لوگ پاکستان کی پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں اور پاکستان کے خلاف زہر اگلتے ہیں۔ پاکستان کے لئے زندگی کی طرح جان سے زیادہ ضروری ’’کالا باغ‘‘ کی زبانی کلامی مخالفت کرتے ہیں۔ کوئی حکمران جرات کر کے کالا باغ ڈیم بنانا شروع کر دے تو ان کی جرات نہیں ہے کہ چوں کر سکیں۔ مجھے یقین ہے کہ کالا باغ ڈیم ضرور بنے گا۔ شمس الملک کے بقول سب سے زیادہ فائدہ صوبہ سرحد کے لوگوں کو ہو گا۔ اے این پی کے لوگ بھارت کی غلامی میں اپنے لوگوں کو فائدے پہنچانے کے حق میں نہیں ہیں۔ بزدل لوگ آج بھی بھارت کے پٹھو اور محتاج ہیں۔ وہ ساٹھ سال میں صوبہ سرحد کا نام تبدیل کرانے میں کامیاب ہوئے کہ سندھ اور پنجاب کے لیڈروں نے ان کی مدد کی۔ بہادر پاکستانی اور نظریہ پاکستان کے ترجمان مجید نظامی کے قریبی دوست ڈاکٹر صوفی لکھتے ہیں ’’پختون خواہ‘‘ کا لفظ کانگریسی اور سرخ پوش یعنی ہندوئوں اور انگریزوں کا شوشہ ہے۔ ہم اسے قبول نہیں کرتے۔
ڈاکٹر ایم اے صوفی کی دوسری کتاب کا نام ’’سفر نامہ‘‘ ہے۔ اس کے ساتھ سب ملکوں کے نام بھی عنوان میں شامل ہیں، جن کی سیاحت انہوں نے کی ہے۔ انگلستان، کینیڈا، ترکی، آسٹریا، امریکہ، ہالینڈ، جاپان، سنگا پور، قطر، سعودی عرب، دوبئی، فلپائن، سری لنکا، سپین اور بھارت… ان شہروں کے لئے ذاتی مشاہدات کو ترجیح دی گئی ہے۔ انگلستان کے لئے سفرنامے میں ایک مضمون ’’گوری عورتیں‘‘ ہیں۔ ان کے تعاون کے لئے آپ کو یہ دلچسپ کتاب پڑھنا ضروری ہے۔ ایک آدمی جب ہیتھرو ائر پورٹ پر اترا تو کہنے لگا کہ لندن آ گیا ہے تو پھر گوریاں کہاں ہیں۔ امریکہ کے لئے ایک مضمون کا نام ہے ’’امریکہ میں تفریح‘‘ ایک باب کا عنوان ہے ’’امریکہ میں پاکستانی‘‘ بھارت کے سفر میں لکھا ہے ’’بھارت میں مسلمانوں کی ثقافت کی بے حرمتی‘‘ دیار حجاز کے لئے بھی مکہ مدینہ کی سیر کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ یہ کتاب صوفی صاحب کی زندگی کا سفر ہے۔ ہر ملک کے الگ سفر نامے کی بجائے اپنا سفرنامہ لکھا گیا ہے۔
مجھے معلوم نہیں کہ صوفی ان کا نام ہے یا تخلص ہے۔ تخلص اس لئے کہ اپنی بیگم کے لئے ایک نظم بھی اس سفرنامے میں موجود ہے۔ ہمیں یہاں صوفی تبسم یاد آتا ہے۔ صوفی ان کے نام کا حصہ بن گیا۔ میں نے ان کی پوتی بہت تخلیقی اور سماجی کام کرنے والی اپنے دادا کا چرچا زندہ رکھنے والی فوزیہ تبسم کو ہمیشہ کہا کہ تم اپنا پورا نام لکھا کرو فوزیہ صوفی تبسم۔
نوائے وقت کے ایک کالم نگار دوست فرحان قریشی کے کالموں پر مشتمل کتاب ’’طلوع آفتاب‘‘ شائع ہوئی ہے۔ یہ ان کے کالموں کا نام بھی ہے۔ کتاب کا انتساب ڈاکٹر مجید نظامی کے نام ہے۔ میں نے اس کتاب کے لئے کہا ہے۔ ’’آفتاب آمد دلیل آفتاب‘‘ سورج طلوع ہوتا ہے تو سب کو پتہ چل جاتا ہے۔ کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ قریشی صاحب ایک قابل ذکر کالم نگار کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ ان میں ایک چمک نظر آتی ہے۔ کالم نگاری کے صدر دروازے پر ان کا استقبال کرنے والوں میں بہت لوگ موجود ہیں۔ میں پہلی صف میں کھڑا ہوں۔ سعید آسی اور جاوید صدیق کی بیش بہا رائے کتاب میں پڑھی جا سکتی ہے۔