حمید نظامی کی برسی پر تقریب ‘ مسئلہ کشمیر کی سلگتی چنگاری کسی بھی وقت شعلہ بن سکتی ہے: مقررین
لاہور (رپورٹنگ ٹیم) قائداعظمؒ نے یہ ملک حمید نظامی جیسے ساتھیوں کی مدد سے بنایا۔ حمید نظامی نے قائداعظمؒ کے حکم پر نوائے وقت کا اجراء کیا اور نوائے وقت نے نظریۂ پاکستان کو بلند کیا۔ نوائے وقت آزادی صحافت کا علمبردار اور اسکا کریڈٹ حمید نظامی اور مجید نظامی کو جاتا ہے۔ مسئلہ کشمیر ایک ایسی سلگتی چنگاری ہے جو کسی بھی وقت شعلہ بن سکتی ہے۔ مجید نظامی کی زیر ادارت نوائے وقت پاکستان اور اسلام پسند قوتوں کی آواز بن گیا ہے۔ آج دنیا ڈاکٹر مجید نظامی کو نظریاتی صحافت کے سب سے بڑے علمبردار کی حیثیت سے جانتی ہے۔ ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ قوم اکٹھی ہوجائے تو دہشت گردی کا خاتمہ ہوجائیگا۔ مسئلہ کشمیر کا واحد حل اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرنے میں ہے۔ یہ سوچ رکھنا کہ بھارت سے بنیادی مسائل بھول کر تجارت یا ثقافتی طائفے سے تعلقات بہتر ہوجائیں گے، تو یہ بڑی حماقت ہوگی۔ ان خیالات کا اظہار تحریک پاکستان کے رہنما اور نوائے وقت کے بانی حمید نظامی کی 52 ویں برسی کے سلسلہ میں حمید نظامی میموریل سوسائٹی کے زیراہتمام نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے تعاون سے ایوان کارکنان تحریک پاکستان میں ہونیوالی خصوصی نشست کے مقررین نے کیا۔ تقریب سے چیئرمین سینٹ سید نیئر حسین بخاری‘ وفاقی وزیر امور کشمیر برجیس طاہر‘ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور‘ سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی لیاقت بلوچ سابق وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر رفیق احمد‘ روزنامہ تجارت کے ایڈیٹر جمیل اطہر قاضی‘ ممتاز صحافی و کالم نگار عبدالقادر حسن‘ کالم نگار اجمل نیازی اور سابق رکن قومی اسمبلی و کالم نگار بشریٰ رحمن نے خطاب کیا۔ اس موقع پر چیئرمین نظریۂ پاکستان ٹرسٹ ڈاکٹر مجید نظامی‘ چیئرمین تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کرنل (ر) جمشید احمد ترین‘ فاروق الطاف‘ جسٹس (ر) آفتاب فرخ‘ جسٹس (ر) منیر مغل‘ ڈاکٹر ایم اے صوفی‘ کرنل اکرام اللہ‘ پروفیسر ڈاکٹر پروین خان اور دیگر بھی موجود تھے۔ چیئرمین سینٹ سید نیئر بخاری نے کہا کہ حمید نظامی نے قائداعظمؒ کے اصرار پر صحافت کا آغاز کیا اور نوائے وقت کی بنیاد رکھی جو 1944ء میں روزنامہ بنا۔ حمید نظامی کی سوچ اور ویژن کو انکے بعد انکے بھائی مجید نظامی آگے لیکر چلے۔ نظریۂ پاکستان کے تحفظ اور اسے اجاگر کرنے کیلئے مجید نظامی کی کوششیں‘ کاوشیں اور اقدامات قابل تحسین ہیں۔ آج کی نئی نسل کو نظریۂ پاکستان سے روشناس کرانے میں مجید نظامی کا اہم کردار ہے۔ نوائے وقت کو جو مقام ملا اور معاشرے میں اسکی جو ساکھ ہے‘ یہ اسکی اعلیٰ کارکردگی کی وجہ سے ہے۔ مجید نظامی نے مدیر بننے کو اسلئے ترجیح دی کہ وہ صحافت کو آزاد رکھنا چاہتے ہیں تاکہ حقائق عوام کے سامنے پیش کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کیخلاف آج حکومت جو اقدامات اٹھا رہی ہے وہ سیاسی نمائندوں کے کہنے پر شروع کئے گئے ہیں۔ عوام کو بھی ملک کو مشکلات سے نکالنے میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ آئرلینڈ میں بھی عوام نے آگے بڑھ کر عَلم اٹھایا تو معاملات طے ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں پارلیمنٹ کو اسکا اصل مقام نہیں دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ’’سوموٹو‘‘ کا دور دیکھا۔ اب ہم پارلیمنٹ کی سٹینڈنگ کمیٹیوں کو بااختیار بنا رہے ہیں تاکہ عوام اپنے مسائل کے حل کیلئے عدالتوں کے بجائے اپنے منتخب نمائندوں سے رابطے کریں۔ انہوں نے کہا کہ ان اصولوں پر عمل کرنا ہوگا جو تحریک میں وضع کئے گئے اور جن کے تحفظ کا بیڑہ مجید نظامی نے اٹھایا ہوا ہے۔ مجید نظامی نے اپنی محنت سے ایک ایسا ادارہ بنایا ہے جس کی عوام میں ساکھ ہے۔ امید ہے کہ انکی کاوشیں جاری رہیں گی۔ وفاقی وزیر امور کشمیر چودھری برجیس طاہر نے کہا کہ جس شہر میں حمید نظامی اور مجید نظامی پیدا ہوئے‘ میرا تعلق اسی شہر سے ہے جس پر مجھے فخر ہے۔ حمید نظامی قائداعظمؒ کے ساتھی تھے اور قائد یہ سمجھتے تھے کہ پاکستان کا مستقبل روش ہے اسلئے کہ اس قوم میں حمید نظامی جیسے لوگ تھے۔ قائداعظم نے یہ ملک حمید نظامی جیسے ساتھیوں کی مدد سے بنایا۔ آج اگر نوائے وقت آزادی صحافت کا علمبردار تو اسکا کریڈٹ حمید نظامی اور مجید نظامی کو جاتا ہے۔ حمید نظامی نے پرویز مشرف سمیت سبھی حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق بلند کیا۔ مجید نظامی چاہتے ہیں کہ ملک قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کے اصولوں کے مطابق چلایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کو صحیح معنوں میں نوائے وقت نے اجاگر کیا۔ جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا‘ دوسرے اقدامات سے پاکستان، بھارت تعلقات بہتر نہیں ہونگے۔ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے کہا ہے کہ حمید نظامی نے اپنی زندگی تحریک پاکستان کی کامیابی کیلئے وقف کردی تھی۔ انہوں نے اپنے قلم کو قیام پاکستان کے مخالفین کیلئے تلوار کے مانند استعمال کیا اور بڑے مدلل انداز میں دوقومی نظریہ کی وکالت کی۔ حمید نظامی کو تحریک پاکستان کے دوران براہ راست قائداعظم محمد علی جناحؒ کی زیرنگرانی کام کرنے کا شرف حاصل تھا لہٰذا قائداعظمؒ کی اصولی پرستی اور راست فکری انکی شخصیت کا طرۂ امتیاز بن گئی تھی۔ حمید نظامیؒ کے بعد مجید نظامی نے پاکستان کی اسلامی نظریاتی اساس اور جمہوریت کی سربلندی کو ہمیشہ پیش نظر رکھا۔ انکی سربراہی میں نوائے وقت کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا گیا۔ انکی زیرادارت نوائے وقت پاکستان، اسلام پسند قوتوں کی آواز بن گیا اور آمریت مخالف قوتوں کی بڑی بیباکی سے ترجمانی میں لگ گیا اسلئے آج دنیا ڈاکٹر مجید نظامی کو نظریاتی صحافت کے سب سے بڑے علمبردار کی حیثیت سے جانتی ہے۔ انہوں نے دہشت گردی کے حوالے سے کہا کہ میں امریکہ اور مغربی ممالک سے کہتا ہوں پاکستان کو اپنے فیصلے خود کرنے دیں۔ طالبان سے بات چیت کرنی ہے یا جنگ، اسکا فیصلہ یہاں کی حکومت نے کرنا ہے، عوام نے کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے دشمنوں کو اب عسکری طریقے سے زیر کرنا ممکن نہیں رہا، وہ ہمیں اندرونی طور پر کمزور کرکے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں، اس مقصد کیلئے وہ دہشت گردی، فرقہ واریت اور صوبائی تعصب کو ہوا دے رہے ہیں۔ جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے کہا کہ حمید نظامی تحریک پاکستان کے کارکن تھے اور تحریک پاکستان کے دوران انہوں نے قریہ قریہ، نگر نگر دوقومی نظریہ کو پہنچایا۔ انہوں نے مسلسل جدوجہد سے سیاست اور صحافت کیلئے خود کو رول ماڈل بنایا۔ انکے بعد جناب مجید نظامی نے انکے کام کو سنبھالا۔ پاکستان کے نظریاتی محاذ پر انکی خدمات قابل تحسین ہیں۔ انہیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری دینے سے خود اس ڈگری کی اہمیت بڑھی ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھارت کی شاطرانہ چالوں کو بے نقاب کرنے اور کشمیریوں کی آواز اٹھانے کے حوالے سے جناب مجید نظامی کی جو خدمات ہیں اس پر سید علی گیلانی سے لیکر کشمیر کا بچہ بچہ جناب مجید نظامی کو خراج تحسین پیش کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ نائن الیون کے بعد پاکستان کیخلاف سازشوں کا جال بُنا جا رہا ہے، اسے ناکام ریاست ثابت کرنے اور ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے کیلئے یہ ساری سازشیں کی جا رہی ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر رفیق احمد نے کہا کہ مجید نظامی نے اپنی ہمت سے نوائے وقت کا اجراء کیا۔ حمید نظامی نے پاکستان بننے کے بعد پاکستان کی معاشی پالیسیوں کے حوالے سے بات کی جس کے بعد قائداعظمؒ نے 1944ء میں نواب بہادر یار جنگ کی صدارت میں ایک کمیٹی بنائی جس سے 30 سالہ انقلابی معاشی پروگرام تشکیل دیا جسے قائداعظمؒ نے منظور کیا۔ آج بیحد ضرورت ہے کہ پلاننگ کمشن اس معاشی پروگرام کو شائع کرے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں مشاہیر جہاں بھی جاتے ہیں ان مقامات کو محفوظ کیا جاتا ہے مگر ہم نے اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کو محفوظ کرنے کیلئے کچھ نہیں کیا جہاں قائداعظمؒ 13 مرتبہ تشریف لائے۔ انہوں نے کہا کہ حمید نظامی نے اپنا ورثہ مجید نظامی کی شکل میں چھوڑا ہے۔ روزنامہ تجارت کے ایڈیٹر جمیل اطہر قاضی نے کہا کہ میں نے حمید نظامی اور مجید نظامی کے ساتھ کام کیا ہے، اگر ایک فقرے میں انکے بارے میں بات کروں تو یہی کہوں گا مائیں ایسے بچے کم ہی جنم دیتی ہیں۔ قائداعظمؒ کے بعد جس کی سب سے زیادہ قربانیاں ہیں، وہ حمید نظامی تھے۔ حمید نظامی کے بعد ڈاکٹر مجید نظامی کی ادارت کے 52 سال ہوگئے ہیں۔ پاکستان کو بچانے کی لڑائی اب مجید نظامی لڑ رہے ہیں۔ ممتاز صحافی و کالم نگار عبدالقادر حسن نے کہا کہ تحریک پاکستان میں اگر کسی اخبار نویس کا حصہ ہے تو وہ پورے کا پورا حمید نظامی مرحوم کا ہے، خدا نے جناب حمید نظامی اور ڈاکٹر مجید نظامی کو صحافت کیلئے نعمت بنا کر بھیجا، میں نے اردو صحافت میں ان دونوں بھائیوں سے بڑا لیڈر نہیں دیکھا۔ کالم نگار ڈاکٹر اجمل نیازی نے کہا کہ آج صحافی مشیر، وزیر اور ایم ڈی پی ٹی وی بن رہے ہیں مگر ڈاکٹر مجید نظامی نے ثابت کیا کہ صحافی ہونا صدر پاکستان ہونے سے زیادہ اہم ہے، نوازشریف اور شہبازشریف نے رفیق تارڑ سے پہلے جناب مجید نظامی سے ’’صدارت‘‘ قبول کرنے کی درخواست کی تھی جسے انہوں نے قبول نہیں کیا۔ صحافت کو جو مقام حمید نظامی اور مجید نظامی نے دیا وہ صرف انہی کا حصہ ہے۔ سابق رکن قومی اسمبلی وکالم نگار بشریٰ رحمن نے کہا کہ حمید نظامی بہت بڑے عاشق رسولؐ تھے انہوں نے پوری زندگی پاکستان کیلئے وقف کردی، اداریہ نویسی میں حمید نظامی مرحوم کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ انہوں نے دشمنوں کیلئے قلم سے تیغ کا کام لیا، آج ہم جب بھی انکا تذکرہ کرتے ہیں تو پورا ماحول انکی خوشبو سے مہک جاتا ہے یہ خوشبو جنت سے آتی ہے اور بتاتی ہے کہ وہ وہاں بھی نوازے گئے ہیں۔ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہم ڈاکٹر مجید نظامی کے دور میں زندہ ہیں۔ پروگرام کے آخر میں جسٹس (ر) منیر احمد مغل نے حمید نظامی مرحوم کے بلندی درجات کیلئے دعا کرائی۔
لاہور (رپورٹنگ ٹیم) تحریک پاکستان کے نامور کارکن، حمید نظامی مرحوم کے قریبی ساتھی اور صدر حمید نظامی میموریل سوسائٹی کرنل (ر) امجد حسین سید نے کہا ہے کہ حمید نظامی مرحوم اور انکا ایک ہی آئیڈیل تھا اور وہ علامہ اقبالؒ تھے۔ حمید نظامی سے 1935ء میں ملاقات ہوئی جس کے بعد ہم علامہ اقبالؒ سے ملنے ہر ماہ کم از کم ایک بار ضرور جایا کرتے تھے۔ حمید نظامی اور میری سوچ ایک تھی۔ ہمارا لیڈر محمد علی جناحؒ، مرشد علامہ اقبالؒ اور خواتین میں لیڈر محترمہ فاطمہ جناحؒ تھیں۔ علامہ اقبالؒ سے پوچھا تھا کہ مسلمانوں کے مسائل کا حل کیا ہے تو انہوں نے کہا کہ علاج اور دوا دونوں تلاش کر لئے ہیں، اس ڈاکٹر کا نام بیرسٹر محمد علی جناحؒ ہے۔ وہ نوائے وقت کے بانی حمید نظامی مرحوم کی 52 ویں برسی پر ہونیوالی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔ کرنل (ر) امجد حسین سید نے کہا کہ اللہ نے حمید نظامی کو بہت کم مہلت دی۔ انکا انتقال ہوا تو نوائے وقت ڈوبتی کشتی تھی، برے حالات تھے۔ مجید نظامی نے نوائے وقت کو مشکلات سے نکالا۔ ڈاکٹر مجید نظامی صحیح معنوں میں اقبالؒ کے معنوی فرزند ہیں۔ یہ حقیقی معنوں میں اقبالؒ کا وہ مسلمان ہے جس میں قہاری، غفاری، قدوسی اور جبروت موجود ہیں۔ مجید نظامی نے نظریہ پاکستان کا لفظ حفظ کیا ہوا ہے۔ انہوں نے جن مشکلات کا سامنا کیا اسی کی وجہ سے ان کے تین بائی پاس ہوچکے ہیں۔ انہوں نے نظریہ پاکستان اور پاکستان کا نام بلند کرنے کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے۔ یہ حمید نظامی کی مکمل کاپی ہیں، اللہ انہیں سلامت رکھے۔