کیاایک ا ور کارگل ہونے جا رہا ہے
آج تک پتہ نہیں چل سکا کہ کارگل میں جنگ بندی اور مجاہدین کی پہاڑی چوٹیوں سے واپسی کی درخواست بھارت نے کی تھی اور نواز شریف کوا مریکہ کی قومی تعطیل کے روز وائٹ ہاﺅس طلب کر کے اس پر عمدر آمد کے لئے مجبور کیا گیا تھا یا جنرل مشرف کے ایس او ایس پیغام پر وزیر اعظم نے پاک فوج کو ایک مشکل سے نجات دلائی تھی۔
اب طالبان نے سیز فائر کا اعلان کیا ہے، یہ اعلان انہوںنے کمیٹیوں کی دخل در معقولات کے باوجود نہیں کیا تھا۔بلکہ الٹا دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ کر کے کراچی میں پولیس کمانڈوز کو شہید کیا، پشاور میں ایک سینماکو بار بار خون سے غسل دیا اور انتہا یہ ہوئی کہ درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دو درجن کے قریب سیکورٹی افراد کے گلے کاٹے،ان کی لاشوں کو بے رحمی سے ٹرکوں سے دھکیلا اور بعض کی گردنوں سے فٹ بال کا میچ کھیلا۔اور پھر یہ انتظام کیا کہ ان کی شقاوت کے مظاہرے کاپوری دنیا نظارہ کرے، اس مقصد کے لئے یہ سب کچھ یو ٹیوب، فیس بک اور سوشل میڈیا کے دیگر صفحات پر اپ لوڈ کر دیا گیا۔اس پر سرکاری کمیٹی کو تو سانپ سونگھنا ہی تھا، طالبان کی نامزد کمیٹیوں کو بھی منہ دکھانا ممکن نہ رہا، میرے بزرگ دوست سمیع الحق تو عمرے پر روانہ ہو گئے، منور حسن اور ان کے چھوٹے مولا نا ابراہیم ہی میدان میں شورو غوغا کے لئے باقی بچے اور وہ دہائی دیتے رہ گئے کہ سرجیکل اسٹرائیکس کا سلسہ بند کیا جائے مگر اب نقار خانے میں طوطی کی کون سنتا تھا، فضا میں ایف سولہ دھاڑ رہے تھے اور گھاٹیوں میں رانی توپیں چنگھاڑ رہی تھیں ، خدا ان کے بموں اور گولوں سے بچائے،دو ہزار پونڈ وزنی بم پہاڑوں کی بنیادوں پر لرزہ طاری کرنے کے لئے کافی ہوتا ہے اور شقی سے شقی دل بھی رانی توپ کے گولوں کے سامنے موم ہو جاتا ہے۔
سرجیکل اسٹرائیکس کانتیجہ حسب توقع نکلا۔ طالبان نے ایک ماہ کے لئے سیز فائر کا اعلان کر دیا۔مگر اپنی سنجیدگی اور اخلاص کے ثبوت کے لئے جمرود میں پندرہ لاشے بکھیر دیئے۔طالبان کے لئے ا ٓسان رستہ یہ ہے کہ وہ کسی سانحے کی ذمے داری قبول نہیں کریں گے اور حکومت ان کے دفاع میں خود کہے گی کہ یہ شرارت تیسری قوت کی ہے، ہمارے دہشت نگار میڈیا نے تیسری طاقت کے طور پر ہمیشہ فوج ہی کو بدنام کیا ہے۔
صرف ایک ماہ کے لئے سیز فائر کیوں ، مستقل کیوں نہیں، کیا نیت میں ابھی سے کھوٹ ہے اور پھر طالبان کا حکم صرف تیس گروپوں پر چلتا ہے باقی چالیس کے قریب دہشت گرد گروپوں کو کھلی چھٹی ملی رہے گی، ان کی طرف سے تو کوئی سیز فائر نہیں کی گئی۔تحریک طالبان کا نمائندہ انہتر انتہا پسند گروپوں کی نمائندگی تو نہیں کر سکتا، یہ تو ابھی لوگوںنے دیکھ لیا جب کشمیر ی مجاہد اور چرار شریف سے زندہ بچ آنے والے میجر مست گل نے کشتوں کے پشتے لگانے شروع کر دیئے، مست گل جب تک منظر پر نہیں ابھرا تھا، مجھے اندازہ نہیںہو پارہا تھا کہ منور حسن اور ان کی جماعت اسلامی کو دہشت گردوں سے کیوں ہمدردی ہو گئی ہے۔اب میجر مست گل کی سرگرمیوں سے عیاں ہو گیا ہے کہ جماعت اسلامی ، انقلاب کے لئے تیسرے اور فائنل مرحلے میں داخل ہو گئی ہے، پہلا مرحلہ ماچھی گوٹھ سے شروع ہوا اور سیاست میں داخل ہونے تک جاری رہا۔تب امین احسن اصلاحی اور ڈاکٹرا سرار احمد نے جماعت اور اس کے فلسفے سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔افغان جہاد اور کشمیر جہاد میں جماعت کے ہاتھ میں بندوق آ گئی ، اب انقلاب اسے سامنے نظرا ٓ رہا ہے، ووٹ تو جماعت کو کبھی نہیں مل سکے ، نہ ملیں گے ، اب اقتدار میں آنے کا ایک ہی راستہ باقی ہے اور وہ ہے بزور بندوق۔جماعت اس طریقے کوآزما رہی ہے اوریہ آخری حربہ ہے، اس میںناکامی ، سرنڈر کی ذلت سے ہمکنار کرتی ہے۔
ایک ماہ کی عارضی جنگ بندی کاانجام کیا ہوگا۔کیا کسی جنگی حکمت عملی میں اس مرحلے پر سیز فائر کو قبول کیا جا سکتا ہے، میرا جواب نفی میں ہے۔ اب جنگ بندی سے فوج اپنی موت کو دعوت دے گی۔دوسری جنگ عظیم کو پرل ہاربر کی قیامت خیز صبح کے ہنگام بھی بند کیا جا سکتا تھا لیکن یہ تب بند ہوئی جب امریکی افواج نے ہیرو شیما اور ناگا سا کی پر ایٹم بموں کی بارش کی اورآن واحد میں لاکھوںجاپانیوں کے جسموں کو چربی کی طر ح پگھلا دیا۔1948 میں پاک فوج نے اس وقت جنگ بندی قبول کر لی جب اس کے ایڈوانس دستے سری نگر ایئر پورٹ کو محاصرے میں لے چکے تھے۔جنگ بندی کی یہ اپیل پنڈت نہرو نے بھاگم بھاگ سلامتی کونسل سے کی تھی اور ہم اتنے سادہ تھے کہ فوری طور پر مان گئے۔صرف آزاد کشمیر کی ایک مختصر سی پٹی ہمارے ہاتھ آئی، تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا۔1965 میں بھارت کے بکتر بند ڈویژن کو ہم نے چونڈہ اور ظفر وال کے میدانوں میں کوئلہ بنا دیا اور ہمارے ٹینک کھیم کرن سے آگے بڑھنے کی پوزیشن میں تھے توایک بار پھربھارت نے سلامتی کونسل میںجنگ بندی کی اپیل کر دی۔ ہمارے ہاتھ کیا آیا۔صرف جنگی ترانے اور نشان حیدر پانے والوں کے شاہنامے، ہم نے ان کا خون تاشقند میں بیچ دیا۔ بھٹو کہتا رہا کہ تاشقند کے راز کھولوں گا مگر اسے یہ توفیق نہ ہو سکی۔
سیز فائر مقابل کی قوت سے کیا جاتا ہے، دنیا کے کسی ملک نے دہشت گردوں سے سیز فائر نہیں کیا۔ہمارے خطے میں سری لنکا نے آخری دہشت گرد کی موت تک فوجی آپریشن جاری رکھا۔ ممبئی میں بھارت نے دہشت گردوں سے مقابلہ جاری رکھا اور یہ منظر دنیا بھر کے ٹی وی چینلوں پر لائیو دکھایا گیا، امریکہ نے افغانستان میں تورا بورا کی غاروں کو سرمہ بنا کے نہیں رکھ دیا تو اس نے بی باون سے بمباری کو نہیں روکا اور نہ کروز میزائلوں کے بٹن دبانے میں دم لیا۔
ہم کہتے ہیں کہ عراق میں اور افغانستان میں امریکہ کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ دل کے سمجھانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے، امریکہ کو یو کرائن کا نیا محاذ مل گیا ہے ، وہ آہستہ آہستہ چین کی طرف بڑھ رہا ہے، ہو سکتا ہے کہ اب امریکہ، اسرائیل اور بھارت کے تربیت یافتہ گوریلوں کو اگلے محاذ کی طرف روانہ کرناہو ، اس لئے انہیں وقتی سیز فائر کی ضرورت ہے۔ ویسے خدا نخواستہ ابھی پاکستان کے ایٹمی اسلحے کو ہتھیانے کا منصوبہ بھی ادھورا پڑا ہے، اس لئے گوریلوں کی نئی صف بندی کے لئے بھی عارضی سیز فائر فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔
ہماری قوم ، ہماری حکومت اور ہماری فوجی قیادت کو ابھی اس عارضی سیز فائر کی اپیل پر غور کرنا ہے، اندیشہ یہ ہے کہ فیصلہ دہشت گردوں کے فائدے میں کیا جائے گا اور میں نے بہت پہلے اس خدشے کاا ظہار کیا تھا کہ ہمیں ایک نئے کارگل کا سامنا ہے۔