جنگ بندی کا اعلان اک نیا چکمہ اور عالمی سازش
طالبان کی طرف سے سیز فائر کا اعلان دھوکہ اور چکمہ ہی نہیں حکمران کلاس کو بے وقوف بنانے کی کوشش بھی ہے جس میں وہ کامیاب رہے ہیں۔ طالبان ایک طرف جنگ بندی کا اعلان کر رہے تھے اور دوسری طرف پولیو ٹیم اور اسکی سکیورٹی پر مامور ایف سی اہلکاروں کو بمبوں اور گولیوں سے بھون رہے تھے یعنی طالبان نے جنگ بندی کے اعلان کو 14 پاکستانی جانوں کی سلامی دی۔ اس سفاکیت میں خاصا دار فورس کے 8 اہلکار زخمی بھی ہوئے۔ حسب سابق فوج نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے باڑا میں دہشتگردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا اور 5 کو مار ڈالا۔ ملکی اور بین الاقوامی لیول پر طالبان پر جو پریشر وجود میں آیا ہے۔ طالبان وقتی طور پر اس اثر کو زائل کرنے کیلئے جنگ بندی کا محض اعلان کر رہے ہیں جبکہ اپنے پالنے والوں کے احکامات کی بجا آوری میں حملے بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ 29 ایف سی اہلکاروں کی شہادت کے بعد حکومتی بیانات تھے کہ دہشتگردوں کے مکمل ہتھیار ڈالنے تک آپریشن جاری رکھا جائے گا اب سیز فائر کے اعلان پر خوش ہیں اور مذاکراتی کمیٹی طالبان کمیٹی سے ملاقات کی راہیں دیکھ رہی ہے۔ لگتا ہے حکومتی صفوں میں طالبان کے حمایتوں کی بڑی تعداد موجود ہے جو حکومت کو گومگو کی کیفیت میں مبتلا رکھ کر طالبان کے مقاصد پورے کرنا چاہتی ہے۔ حکمرانوں کے اندر بھی وہ جرأت نہیں کہ دہشتگردوں کو اینٹ کا جواب پتھر سے دے سکیں۔ سابق گورنر سلیمان تاثیر اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹوں کا طالبان کی طرف سے اغوا موجودہ حکمرانوں کو حتمی اقدام اٹھانے سے روکتا ہے۔ ان کا انجام دیکھ کر ان کی ٹانگیں کانپتی ہیں۔ دس ہزار ذبح ہونیوالے فوجی کیا کسی ماں کے لخت جگر نہیں تھے؟ طالبان نے لفظ جنگ بندی اور سیز فائر کا لفظ استعمال کر کے خود کو دہشت گرد کی بجائے حریف پارٹی شو کیا ہے حالانکہ وہ ریاست کے باغی ہیں اور ان کی تعداد مُٹھی بھر ہے۔ مہران و کامرہ ائر بیس جیسی حساس تنصیبات کو نشانہ بنانے، 70 ہزار سویلین اور 10 ہزار عسکری جوانوں کی سفاکانہ قتل، 70 ارب ڈالر کے اثاثے تباہ کرنے اور ایک لاکھ پاکستانیوں کو اپاہج بنانے والوں سے مذاکرات ہو سکتے ہیں تو پھر پاکستان کی 65 جیلوں میں پابند سلاسل 80 ہزار مجرموں کے ساتھ مفاہمت و صلح و قصاص اور جنگ بندی کے نام پر مذاکرات شروع کیے جائیں جن کے جرائم دہشتگردوں کے مقابلے میں کہیں کم ہیں۔ 82 ہزار سویلین اور عسکری مقتولین کے 5 لاکھ وارثان کو پاکستان بے دخل کر دیا جائے تاکہ وہ اپنے پیاروں کے لہوکا سودا ہوتے ہوئے نہ دیکھ سکیں۔ قومی خودمختاری، سلامتی و سالمیت اور وقار اپنی ذاتیات اور مفادات سے مقدم ہونا چاہیے۔ اپنے اقتدار پر قومی مفادات کو ترجیح اور حکمرانی کی مدت پوری کرنے کا خبط قوی بدقسمتی ہے۔ زرداری نے جس طرح 5 سال تک فوج اور اپوزیشن کے ساتھ ملکر ملک کو یرغمال بنائے رکھا اب وہی حربہ نواز شریف حکومت استعمال کر رہی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اب آن بورڈ عدلیہ اور بیوروکریسی اور طالبان کو لے لیا گیا ہے جبکہ فوج اپنے گلے کاٹنے والوں کو رعایت دینے پر تیار نہیں۔ اے پی سی نے حکومت کو مذاکرات کا حق دیا تھا جس کے بعد حالات مزید خراب ہوئے اب کسی بھی قسم کے مذاکرات کرنے سے پہلے اے پی سی نیا مینڈیٹ لینا ہوگا۔ گو کہ اس میں طالبان کے حامی ہوں گے لیکن انکے ساتھ متحدہ جیسے فوج کے حامی اور طالبان کو قاتل سمجھنے والے بھی ہوں گے۔ اب پی پی پی اور پی ٹی آئی بھی مذاکرات کی حامی نہیں رہی۔
طالبان کچھ طاقتوں کے مہرے ہیں۔ انکی زبان سے سیز فائر سیز فائر اپنی جان بچانے کیلئے نکل رہا ہے جبکہ وطن فروشی کی قیمت وصول کرنے کیلئے تلواریں فوج کے گلے کاٹ رہی ہیں۔ پولیو ورکرز کے محافظوں کو بھی اسی لیے سیز فائر کے اعلان کے بعد تہ تیغ کیا گیا۔ دہشتگردوں پر اعتبار ممکن نہیں یہ پہلے بھی 8 امن معاہدے توڑ چکے ہیں۔ طالبان کے پیچھے وہ ملک ہے جس نے ایران اور شام کو سبق سکھانے کیلئے پاک فوج کی خدمات اور اسلحہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ پاکستان نے معذرت کی تو اس نے بھارت کیساتھ کئی معاہدے کر لیے جن میں سعودی فوج کی تربیب بھی ہے۔ اس سے ’’دوستوں‘‘ کی پہچان بھی ہو گئی۔ پاکستان کی بقا اسی میں ہے کہ حکمران ذاتی تعلقات سے بالا تر ہو کر ملکی مفادات میں فیصلے کریں، حقیقت کا ادراک کریں۔ پاکستان ہے تو حکمرانیاں اور اقتدار ہے۔ پاکستان کو دہشتگردی کی آگ سے دہشتگردوں کا خاتمہ کرکے ہی نکالا جا سکتا ہے۔ انکے ساتھ ہاتھ ملا کے دیکھ لیا وہ قابل اصلاح نہیں ہیں۔ایک طرف مذاکرات اور سیز فائر کا اعلان کرتے ہیں دوسری طرف دہشتگردی سے بھی باز نہیں آتے۔ پاک فوج نے درست سمت اختیار کی ہوئی ہے حکمران بھی اپنی ٹانگوں پر بوجھ ڈالیں۔ طالبان پاکستان کو برباد کرنے کی عالمی سازش کا حصہ ہیں انکے ساتھ فوج ہی نمٹ سکتی ہے بشرطیکہ حکومت اور قوم بھی ساتھ ہو۔ قوم تو فوج کے ساتھ ہے اگر حکومت نے بزدلی کا مظاہرہ جاری رکھا تو اس کا خدا ہی حافظ ہوگا۔ ابھی جس وقت میں یہ کالم تقریباً مکمل کر چکا تھا تو ٹی وی چینل پر ایک اندوہناک خبر ملی کہ اسلام آباد ضلع کچہری میں دو خودکش حملوں کے نتیجے میں درجنوں لوگ شہید اور اور زخمی ہوئے ہیں۔ شہداء میں ایک ایڈیشنل سیشن جج رفاقت اعوان صاحب اور درجن بھر وکلاء سمیت دیگر عدالتی اہلکار شامل ہیں۔ یقیناً طالبان ترجمان شاہد اللہ شاہد کی طرف سے اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی جائیگی کیونکہ دہشت گرد جنگ بندی اور فائر بندی کو بہانہ بنا کر اس واقعہ کا رُخ یقیناً پاکستان کی سکیورٹی ایجنسیوں کی طرف موڑنے کی کوشش کرینگے لیکن پاکستان کے بیس کروڑ عوام اب یہ سمجھ چکے ہیں کہ قاتلوں اور دہشتگردوں کی شناخت کیا ہے۔ خدارا حکمرانوں سے التماس ہے کہ مزید لاشیں گرنے سے پہلے طالبان کیخلاف آپریشن جاری رکھا جائے اور آخری گولی اور آخری دہشت گرد تک ان کا پیچھا کیا جائے۔ پاکستان کے بیس کروڑ عوام عالمی سازشوں میں گِھرے ہوئے ہیں اور اس وقت دوست اور دشمن کی پہچان تقریباً ناممکن ہے کیونکہ ہمارے برادر اسلامی ممالک بھی ہمارے خیرخواہ نہیں رہے جس کا فائدہ اٹھا کر کچھ اندرونی اور بیرونی قوتیں پاکستان کو توڑنے کے خواب دیکھ رہی ہیں لیکن جب تک ایک بھی پاکستانی زندہ ہے دشمنوں کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا۔