مجھے خبر ہے کہ اِک صبح منتظر ہے مری
ایشیا کپ میں پاکستان کیا جیتا ہے کھلاڑیوں پر ہُن برسنے لگا۔ ملک ریاض نے فوراً شاہد آفریدی کو ایک کنال کا پلاٹ گفٹ کر دیا۔ اب ملک ریاض کی دیکھا دیکھی صدر، وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ، گورنر اور امراء کی طرف سے انعام و اکرام، ظہرانوں عشائیوں، ملاقاتوں، فوٹو سیشن اور موج میلوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم مدتوں بعد بھارت سے جیتی ہے۔ عمران خان اور وسیم اکرم کے بعد تو کرکٹ میں مندہ ہی رہا ہے یہ بھی نجم سیٹھی کی چڑیا یا جادوئی چھڑی کا کرشمہ ہے جو بھی ہے نجم سیٹھی مبارکباد کے مستحق ہیں۔ 35 پنکچروں کا نسخہ ہائے وفا بڑا کارگر ثابت ہوا ہے۔ عمران خان نے 1992ء کے ورلڈ کپ میں دنیا کے کئی بڑے ممالک کو پچھاڑ کر جیتا تھا۔ عمران خان اپنی حکمت عملی سے ایک ایسا پنکچر لگائیں کہ پاکستان سے کرپشن ٹیم ہمیشہ کیلئے آئوٹ ہو جائے۔ بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے ہمیں ہر قدم پر زک پہنچاتا اور ہمارا مذاق اڑاتا ہے لیکن اس کے باوجود جمہوریت کا چیمپئن ہے۔ بھارت میں ’’عام آدمی پارٹی‘‘ بنائی گئی اب ’’خاص آدمی پارٹی‘‘ بھی بنائی گئی ہے۔ اس پارٹی کی خاص بات یہ ہے کہ اس کا صرف کرپٹ لوگ حصہ بن سکیں گے۔ بھارت میں بلاشبہ جمہوریت کا تسلسل ہے ہم اس حقیقت کو جھٹلا نہیں سکتے۔ بھارتی حکمرانوں کا بڑا جگرا ہے کہ وہ اپنی نااہلیوں، کوتاہیوں، بدعنوانیوں پر عوام کو کھل کر بات کرنے اور ردعمل پر سزائیں نہیں دیتے یا بندشیں نہیں لگاتے اس لئے ان کا میڈیا کرپش پر جی بھر کر تنقید کرتا ہے اور وہاں پر سب سے بڑا موضوع حکمرانوں کی کرپشن ہے اس سے عوام میں آگہی اور شعور بڑھا ہے نیز حکمرانوں نے اپنی اصلاح کی طرف رجوع کیا ہے اور ان میں ڈر، خوف، ندامت اور احتساب کا احساس بیدار ہوا ہے۔ اس احساس نے بھارت میں جمہوریت کو پائیدار بنیادیں فراہم کی ہیں یہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ لیکن ہم سے زیادہ غافل قوم اور کون ہو سکتی ہے جو کسی طرح اپنے احتساب پر آمادہ نہیں۔
عدم برداشت کا کلچر اس قدر پروان چڑھا ہے کہ ہر جگہ پاکستانی ایک دوسرے سے نبرد آزما نظر آتے ہیں۔ ایک دوسرے کو تباہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں بلکہ یوں لگتا ہے جیسے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔ اگر یہ سچ نہ ہوتا تو کبھی ’’پاکستانی طالبان‘‘ جنم نہ لیتے، پاکستان میں داخلی سطح پر حالات اس قدر مخدوش نہ ہوتے۔ وزیر داخلہ ایک ’’بانکے میاں‘‘ ہیں وہ دماغ سے کام کم لیتے اور زبان سے زیادہ بولتے ہیں۔ امید ہے کہ آئندہ دس سال بعد بھی ان کے بال کالے اور گھنیرے ہی رہیں گے۔ مسلم لیگ (ن) ایسی پارٹی ہے جس میں سبھی کے سر پر خدا کے فضل سے بال ہیں اور وہ بھی کالے سیاہ --- بس اسحاق ڈار کے سر پر ڈالروں کی گنتی اور انہیں ٹھکانے لگانے کا اضافی بوجھ ہے اس لئے اُن کے سر اور داڑھی میں کچھ سفید بالوں نے ڈیرہ جما لیا ہے شاید ان کے پاس ڈالروں سے نکلنے کا اتنا بھی ٹائم نہیں بچتا کہ وہ انہیں ’’ڈائی کرا سکیں۔ بہرحال مسلم لیگ نی کی حکومت کی وجہ سے کچھ لوگوں کی لاٹری نکلی ہوئی ہے اور وہ دودھ کی نہروں میں غسل فرما رہے ہیں۔ کاش! مسلم لیگ کی حکومت یہ جان سکتی ہے کہ پاکستان میں معاشی اور معاشرتی سطح پر پستی اور انہدام کا عمل اتنی تیزی سے جاری ہے ٹیکس لگا لگا کر عوام کا حشر کر دیا گیا ہے خدا سے ڈرنا چاہئے۔ 5 مرلہ گھروں پر ٹیکس لگانا واقعی ظلم ہے۔ پرویز الٰہی نے بالکل جائز تنقید کی ہے کہ پانچ مرلہ کے گھروں پر ٹیکس لگا کر غریبوں پر بجلی گرائی گئی ہے۔ بجلی دینے کا یہ کونسا طریقہ ایجاد کیا ہے کہ بجلی دینے کے بجائے حکومت بجلی گرانے لگی ہے۔ سی این جی، پٹرول، ڈیزل، گیس بجلی اور روزگار کی قلت و قحط کے بعد اب پانی کی بندش بھی شروع ہو گئی ہے۔ وہ دن بھی دور نہیں جب آکسیجن یعنی ہَوا بھی لائنوں میں لگ کر ملا کرے گی اور حکومت کہا کرے گی کہ دو دن ہَوا بند رہے گی لہٰذا عوام اپنے آکسیجن سلنڈرز کا پہلے سے انتقام رکھے۔ پاکستان میں حالات دن بدن بد سے بدتر اور بدترین رُخ اختیار کر رہے ہیں کیونکہ قیادت مخلص نہیں لیکن اس کے باوجود پاکستان اس لئے قائم ہے کہ یہاں کچھ ایسے مخلص اور مہربان لوگ ہیں جو پاکستان کی سلامتی چاہتے ہیں اور توانا پاکستان کیلئے کوششیں کرتے رہتے ہیں جن کی حب الوطنی مثالی ہے جو پاکستان کا وجود قائم رکھنا چاہتے ہیں اور باوقار، سربلند، خود مختار بنانا چاہتے ہیں۔ ابھی پاکستان میں پاکستانیت کا جذبہ باقی ہے اسی لئے تو میرا دل مچل مچل کے کہتا ہے کہ پاکستان کو کچھ نہیں ہو گا …؎
مجھے خبر ہے کہ اِک صبح منتظر ہے مری
ڈروں میں کس لئے اس رات کے اندھیرے سے