پارلیمنٹ لاجز ......کتنی حقیقت ‘ کتنا فسانہ!
قومی اسمبلی کے رکن جمشید دستی کی طرف سے پارلیمنٹ لاجز میں رہنے والے ارکان اسمبلی پر شراب ‘ چرس نوشی اورلڑکیاں لانے کے الزام اور لاجز میں مقیم ارکان قومی اسمبلی کا میڈیکل ٹیسٹ کرانے کے مطالبے کے بعد پارلیمنٹ لاجز میں کیا ہوتاہے؟ہر زبان زد عام پریہی سوال ہے کہ جمشید دستی نے الزام عائد کیاہے کہ پارلیمنٹ لاجز میں ماہوار چار سے پانچ کروڑ روپے کی شراب پی جاتی ہے‘ ہر وقت چرس کی بو پھیلی رہتی ہے۔ گزشتہ دنوں پارلیمنٹ لاجز میں مجرا ہوا ‘ لڑکیاں عیاشی کیلئے منگوائی جاتی ہیں‘جمشید دستی کے اس الزام کے بعد تمام ارکان اسمبلی اور حکومتی وزراء بالخصوص اپنے بیانات سے ہلے ہوئے محسوس ہورہے ہیں۔وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خاں کی طرف سے تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دیاگیاہے جس پر جمشید دستی کاکہناہے کہ وزیرداخلہ سکیورٹی ایجنسیز کی بجائے مجھ سے رابطہ کرتے تو ویڈیو سمیت تمام ثبوت فراہم کردیتا۔وزیرمملکت برائے پانی و بجلی عابدشیر علی اور جمشید دستی کے درمیان اس بارے میں کسی کیلئے دلچسپ اور کسی کیلئے حیرت انگیز خیالات کاتبادلہ بھی فلمی اداکارائوں کے ناموں سے منسوب ہو کر سامنا آچکاہے۔سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے واضح کیا ہے کہ ارکان پارلیمنٹ کے میڈیکل ٹیسٹ نہیں کرائوں گا‘جمشید دستی اپنے گریبان میں جھانکیں ‘ الزامات کے ثبوت نہ دیئے تو کارروائی کافیصلہ ایوان کرے گا‘ کوئی رکن پارلیمنٹ کمرے میں کیاکرتا ہے ہمیں سروکار نہیں ۔جمشید دستی سستی شہرت کیلئے سکینڈلز بناتے رہتے ہیں اورمیڈیا مجھ سے بہتر جانتا ہے۔ پاکستان کا شمار بد قسمتی سے دنیا کے ان بد نصیب ممالک میں ہوتاہے جہاں قانون ساز اداروں میں بھی قانون سازی ایک طے شدہ حکمت عملی اور برسر اقتدار سیاسی جماعتوں کی منشاء کے مطابق ہوتی ہے جبکہ ہمارے تمام قانون ساز اداروں یعنی اسمبلیوں میں بیٹھے ارکان کی اکثریت میں اتنی اہلیت نہیں کہ وہ قانون سازی کے حوالے سے اپنا ماہرانہ کردار ادا کرسکیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ارکان اسمبلی نے وہ اہلیت اور مہارت کا فقدان ہے جو قانون سازی کے عمل کیلئے لازمی جزو قرار پاتاہے۔یہی وجہ ہے کہ ہماری اسمبلیوں میں قانون سازی کرنے کیلئے جانے والوں کی تمام تر اکثریت وڈیروں ‘ جاگیرداروں ‘ سرمایہ داروں ‘ صنعتکاروں اورزرداروںپر مشتمل ہوتی ہے اور یہ تمام لوگ قانون ساز اداروں میں صر ف اپنی چوہدراہٹ قائم کرنے کیلئے جاتے ہیں ان کو مطلوب اپنی گاڑیوں اور کوٹھیوں پر کسی وزارت کا جھنڈا لہرانا ہوتاہے یا پھر وہ ارکان اسمبلی منتخب ہو کر اپنی چوہدراہٹ کو دو چند کرنے کی کوششوں میں مگن رہتے ہیں۔ان دنوں سیاست اور پھر منتخب ہو کر اقتدا رکے ایوانوں میں پہنچنا ملک کا سب سے بڑا کاروبار بن چکاہے۔ کرپشن کی بازگشت کو کیسے جھٹلایا جاسکتاہے جب دو سابق وزراء اعظم عدالتوں میں ایسے کیسز کا سامنا کررہے ہیں ۔ان حالات میں جب قانون ساز اداروںمیں پہنچنے والوں کا نصب العین ہی طلب سے جداگانہ ہو تو پھر پارلیمنٹ لاجز کے بارے میں جمشید دستی کے اٹھائے گئے الزامات کو اس وقت تک نظرانداز نہیں کیاجاسکتا جب تک تمام ارکان اسمبلی کا میڈیکل نہیں کروالیاجاتا۔میڈیکل نہ کروانے کی صورت میں عوامی ذہنوں میں ابہام موجود رہیں گے اور لوگ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ ہمارے ملک تھری سٹار اور وہ فائیو سٹا ر ہوٹلز جہاں پر شراب فروخت کی جاتی ہے اورجہاں شراب کی محفلیں سجتی ہیں ‘ جدھر زاہدان شہر اپنی شرافت کا جنازہ نکالتے ہیں عوام آج بھی پوچھتے ہیں کہ کون سی وجوہات ہیں کہ ہمارے ملک میں شراب کو حرام قرار دیئے جانے کے باوجود پرمٹ ہولڈرز کیلئے شراب دستیاب ہوتی ہے اور پھر ہر کوئی جانتاہے کہ مسیحی برادری کے پرمٹس پر شراب نوشی امراء اور بدقسمتی سے مسلمان کرتے ہیں۔ہمارے ملک میں ایک ایسی کلاس موجود ہے جو بڑے بڑے ہوٹلوں‘ فارم ہوسسز اور کوٹھیوں میں بیٹھ کر شراب نوشی کی محفلیں سجاتی ہے اورجہاں ہرشام شرافت کا جنازہ اٹھتا ہے ۔سوال پیدا ہوتاہے کہ جمشید دستی درست کہہ رہے ہیں یا غلط!جو بھی ہے ؟اسمبلی فلور پر نقطہ اعتراض کے دوران ایسے الزامات کا سامنے آنا اورپھر اس پر محض بیانات کے ذریعے نفی کردینا کافی نہیں ہوگا۔اس کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ جمشید دستی جس طرح شواہد کا کہہ رہے ہیں وہ سپیکر قومی اسمبلی کوفراہم کریں ۔جہاں تک پارلیمنٹ لاجز کا تعلق ہے تو اگر وہاں ایسا کچھ نہیں ہوتا پھر سوال پیدا ہوتاہے کہ نامعلوم شخص پارلیمنٹ لاجز میں جمشید دستی کے کمرے کے باہر شراب کی خالی بوتلیں کیسے رکھ گیا اور خالی بوتلیں کہاں سے پارلیمنٹ لاجز کے اندر پہنچی۔ارکان اسمبلی میں سے بعض پر مہ نوشی کے حوالے سے ماضی میں بھی طرح طرح کے الزامات اٹھاتے رہے ہیں جنہیں کبھی بھی افواہوں اور الزامات سے زیادہ حیثیت حاصل نہیں ہوسکی ۔ ملک کے ایک سابق وزیراعظم پر ایک ایسا الزام عائد ہوتاہے اور دلچسپ بات ہے کہ ملک کے اسی وزیراعظم نے شراب کو حرام قرار دے کر اس پر پابندی عائد کردی تھی۔پارلیمنٹ لاجز میں ہونے والی منفی سرگرمیوں کی جو ’’ چھیڑ‘‘ جمشید دستی نے چھیڑی ہے اس کا ثبوت تو بہرطور جمشید دستی نے فراہم کرنا ہے لیکن جس طرح تمام ارکان اسمبلی اور اکثر وزرا کہہ رہے ہیں کہ پارلیمنٹ لاجز میں ایسا کچھ نہیں ہوتا تو پھر یہ سوال اہم ہے کہ مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی اور چیئرمین سٹیڈنگ کمیٹی برائے پارلیمانی امور عبدالمنان نے کیسے کہہ ڈالا ہے کہ پارلیمنٹ لاجز میں بھارتی اداکارہ ایشوریا رائے کا مشرف کے دور میں مجرا ہوا تھا اور رقص کیلئے اسے دس لاکھ ڈالر ادا کئے گئے تھے ۔ میان عبدالمنان نے کہا کہ جمشید دستی اس وقت کیو ں نہ بولے جب مشرف دور میں پارلیمنٹ لاجز میں ایشوریا رائے کاڈانس ہوا ۔ حالانکہ اس وقت ستر فیصد ارکان اسمبلی نماز ی ہیں۔میاں عبدالمنان کے ا س انکشاف پر ہم اتنا کہیں گے کہ کم ازکم ارکان اسمبلی سے جو بھی حال احوال ہو ‘ اسمبلی میں اجتماعی توبہ کروا ئی جائے۔توبہ سے آسمان پر چراغاں ہوجاتا ہے۔شائد اسمبلی میں اجتماعی توبہ سے ہونے والے چراغاں کی روشنی ہمیں درپیش بحرانوں سے نجات دلا دے۔جمشید دستی ثبوت فراہم کریں تو بلڈ ٹیسٹ کروا لینے میں بھی کوئی مذائقہ نہیں ہونا چاہئے۔