افغان جنگ ہماری نہیں‘ القاعدہ حقیقت سے زیادہ افسانہ ہے : امریکہ پاکستان‘ افغانستان میں بیگناہوں کو نشانہ بنا رہا ہے : کرزئی
کابل (بی بی سی+ نیوز ایجنسیاں) افغان صدر حامد کرزئی نے کہا ہے کہ القاعدہ حقیقت سے زیادہ افسانہ ہے،افغان جنگ امریکہ اور مغرب کے مفاد کے لئے ہے،اس سے افغان عوام کا کوئی تعلق نہیں،امریکہ نے جن لوگوں کو قید کیا ان میں اکثریت بے گناہوں کی ہے۔ امریکی فوج دہشتگردوں کو پکڑنے کی بجائے افغان شہریوں پر حملے کرتی ہے امریکہ نے پاکستان میں طالبان کی پناہ گاہوں کو نشانہ بنانے میں زیادہ توجہ مرکوز نہیں کی۔ ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ کو انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ سکیورٹی معاہدے پر دستخط کرنے سے گریز کیا ہے۔افغانستان میں جنگ ایک ایسی جنگ ہے جس میں افغان مارے گئے جو ہماری جنگ نہیں۔ اے پی اے کے مطابق حامد کرزئی نے ایک بار پھر امریکہ پر زور دیا ہے کہ وہ افغان دیہاتوں پر توجہ دینے کی بجائے پاکستان میں موجود طالبان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے پر توجہ دے ۔ فوجی آپریشن کے دوران سب سے زیادہ جانی نقصان ہوا جنگ کے دوران جو طالبان فرار ہوکر پاکستان میں چلے گئے اور وہاں انہوں نے اپنی محفوظ پناہ گاہیں بنالیں ان کے خلاف پاکستان کوئی کارروائی کرنے پر تیار نہیں۔ گزشتہ 12سالوں میں امریکہ نے بیشتر معصوم اور بے گناہ افغانیوں کو قید کیا ، پاکستان میں طالبان کی پناہ گاہوں کو نشانہ بنانے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ۔ امریکہ نے ان پناہ گاہوں کو نشانہ بنانے کی بجائے افغانستان کے دیہاتوں کو فوکس کیا ۔ ایک سوال پر حامد کرزئی نے کہا کہ انہوں نے اپنے دور صدارت میں سب کچھ کیا اور وہ اپنی کارکردگی سے مطمئن ہیں بہت سے افغانی مجھے اب بھی ایوان صدر میں دیکھنا چاہتے ہیں لیکن میں ان سب ہمدردیوں کے باوجود صدارتی انتخابات میں مداخلت نہ کرنے اور ایوان صدر چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے حتی کہ اپنے بھائی سے کہہ دیا یہ کہ وہ صدارتی انتخابات کے دوڑ سے الگ ہوجائیں ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ جب امریکہ کی جانب سے کچھ اچھے اقدامات نظر آتے ہیں تو ان کا خیر مقدم کیا جاتا ہے اور جب معصوم اور بے گناہ لوگوں کے قتل عام سمیت دیگر برائیاں دیکھی جاتی ہیں تو نفرت بڑھ جاتی ہے ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے جتنے لوگوں کو گرفتار کیا ان میں زیادہ تر بے قصور ہیں۔ افغانستان اور پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دہشت گردوں کی بجائے بے قصور لوگ نشانہ بن رہے ہیں۔ کرزئی نے امریکی اخبار کو بتایا کہ افغانستان میں عام شہریوں کو ہلاکتیں ان کے ملک کی بربادی کی بنیادی وجہ ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ نے کہا کہ کرزئی نے اپنے انٹرویو کے دوران کہا کہ امریکی عوام کو میری نیک خواہشات اور میرا شکریہ پہنچا دیے۔ امریکی حکومت کو میرا غصہ میرا انتہائی غصہ دیجئے ۔ انہوں نے انٹرویو کے دوران ہلاکتوں پر گہرے افسوس کا اظہار کیا۔ ان میں سے بہت سی ہلاکتیں امریکی فوجی آپریشنز میں ہوئی تھیں۔ امریکی حملے میں زخمی ہونے والی ایک چار سالہ لڑکی کا ذکر کرتے ہوئے وہ جذباتی ہو گئے۔ اخبار کے مطابق پانچ ماہ قبل پیش آنے والے اس واقعے پر گذشتہ روز بھی ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس دن میری خواہش تھی کہ کاش وہ بھی مر جاتی اور اپنے والدین اور بھائی بہنوں کے ساتھ دفن کر دی جاتی۔ اس حملے میں 14افراد مارے گئے تھے لیکن نصف چہرے کے ساتھ وہ لڑکی زندہ بچ گئی تھی۔ اسی طرح انہوں نے 2010 میں اپنے واشنگٹن کے دورے کا ذکر کیا جہاں وہ اپنے ہمراہ ایک خاندان کی تصویر لے گئے تھے جو خوف و دہشت کی صورت تھے۔ یہ تصویر امریکی فوج آپریشن کے دوران لی گئی تھی۔ انہوں نے تصویر امریکی صدر اوباما کو دکھائی اور کہا جناب صدر ہم اسے ختم کرنا چاہتے ہیں۔ طالبان سے جنگ کے نام پر ہم افغان کنبوں کو راتوں کو خوفزدہ کرنا ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اس پر امریکی صدر کے جواب کو انہوں نے غیر تسلی بخش قرار دیا اور پھر کہا یہی وجہ ہے کہ ہم لوگ غصے میں ہیں۔ اخبار کا کہنا ہے کہ امریکی حملوں میں ہلاکتوں پر سرعام سخت نکتہ چینی ان کا موثر ترین سفارتی ہتھیار رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے پاس کوئی دوسرا ہتھیار یا ذریعہ نہیں ہے جس کا میں سہارا لوں۔ سوائے اس کے کہ میں توجہ حاصل کرنے کے لئے عوامی طور پر بولوں دوسرے لفظوں پر میں چیخنے پر مجبور ہوں۔ امریکیہ سکیورٹی معاہدے کے تحت افغانستان میں اپنی فوجی موجودگی میں توسیع چاہتا ہے۔ دوسری جانب امریکی حکام نے صدر کرزئی کے اس قسم کے بیان کو حقارت آمیز اور افسوسناک قرار دیا۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ امریکہ نے افغانستان میں القاعدہ اور طالبان سے جنگ اور ملک کی تعمیر میں بہت زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ 2000سے زیادہ جانیں گنوائی ہیں جبکہ 600ارب امریکی ڈالر خرچ کیا ہے۔ اخبار کے مطابق بعض امریکیوں نے صدر حامد کرزئی کو ایک ایسے وہمی لیڈر سے تعبیر کیا ہے جو گذشتہ بارہ سال کی جنگ میں حلیف سے حریف بن گیا ہو۔
کرزئی