• news

سینٹ: طالبان کے خلاف آپریشن کیا جائے‘ اپوزیشن ‘ حکومتی رکن: حکومت سلامتی پالیسی کل پیش کرے ورنہ ورکنگ دونگا : چیئرمین

اسلام آباد (نامہ نگار+ آئی این پی+ آن لائن) ایوان بالا (سینٹ) میں اپوزیشن ارکان نے اسلام آباد ایف 8کچہری میں دہشت گردی کے واقعہ پر وزیر داخلہ کے بجائے وزیر مملکت برائے داخلہ کے پالیسی بیان دینے پر ایوان سے واک آئوٹ کیا۔ این این آئی کے مطابق حکومتی رکن نے بھی آپریشن کی حمایت کر دی۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر حمزہ نے کہا پورے ملک میں دہشت گردی ہو رہی ہے، حکومت کس سے مذاکرات کر رہی ہے، دہشت گردی تو ختم نہیں ہو رہی، حکومت طالبان سے مذاکرات چھوڑ دے یہ ظالم ہیں ان کے خلاف آپریشن کیا جائے۔ مسلم لیگ ن کے سینیٹر رفیق رجوانہ نے اسلام آباد واقعہ کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا قوم بہت مایوس ہے۔ فیصلہ ہونا چاہئے، مذاکرات کو مزید وقت دیا جائے یا کوئی اور لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔ چیئرمین سینٹ نے وزیر مملکت برائے داخلہ اور قائد ایوان سے کہا کل حکومت کو ہدایت دی گئی تھی نشنل سکیورٹی پالیسی سینٹ میں پیش کی جائے مگر اس پر کوئی جواب نہیں آیا۔ کل تک نیشنل سکیورٹی پالیسی ایوان میں پیش نہ کی گئی تو اس پر رولنگ دونگا۔ گذشتہ روز قائد حزب اختلاف سینیٹر اعتزاز احسن اور دیگر اپوزیشن ارکان نے مطالبہ کیا وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار خود آکر اسلام آباد واقعہ کے حوالے سے ایوان کو اعتماد میں لیں، اسلام آباد واقعہ پر بحث کے اختتام پر وزیر مملکت برائے داخلہ بلیغ الرحمن پالیسی بیان دینے کے لئے اپنی نشست پر کھڑے ہوئے تو اپوزیشن ارکان نے شور شرابہ شروع کر دیا اور ’’نو نو‘‘ کے نعرے لگائے۔ بعدازاں اپوزیشن ایوان سے واک آئوٹ کر گئی، اس دوران سینیٹر سعید غنی نے واپس آکر ایوان میں کورم کی نشاندہی کر دی۔ سینیٹر سعید غنی نے نکتہ اعتراض پر کہا کورم پورا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، اسے کارروائی آگے بڑھانا ہے تو کورم بھی پورا کرنا چاہئے۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر رفیق رجوانہ نے کہا اپوزیشن کا رویہ انتہائی نامناسب ہے، اتنے اہم معاملے پر ہم قوم کو کیا پیغام دے رہے ہیں۔ وزیر مملکت برائے داخلہ بیان دے رہے ہیں تو انہیں بھی سنا جانا چاہئے، قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے کہا اپوزیشن چیئرمین کی بات کو بھی نہیں مانتی، ہم آدھ آدھ گھنٹہ لیکچر سنتے ہیں لیکن جب ہماری جانب سے جواب کی باری آتی ہے تو اپوزیشن جواب سننے کی بجائے واک آئوٹ کر دیتی ہے۔ چیئرمین سینٹ نے کورم کی نشاندہی کے بعد پانچ منٹ گھنٹیاں بجانے کی ہدایت کی مطلوبہ کورم پورا نہ ہونے پر اجلاس ملتوی کر دیا گیا۔ قبل ازیں اپوزیشن ارکان نے اپنے ہی چیئرمین کیخلاف ایوان سے واک آئوٹ کر دیا۔ سینیٹر کامل علی آغا ایف ایٹ کچہری واقعہ پر بحث کر رہے تھے۔ چیئرمین نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا وہ پندرہ منٹ تقریر کر چکے ہیں، رولز کے تحت پندرہ منٹ صرف پارلیمانی لیڈرز کو دئیے جاتے ہیں۔ کامل علی آغا نے جواباً کہا آج کے بعد کوئی ممبر پندرہ منٹ سے زیادہ وقت لے گا تو وہ اس کی نشاندہی کریں گے جس کے ساتھ ہی احتجاجاً واک آئوٹ کر گئے اور دیگر اپوزیشن ارکان نے بھی انکا ساتھ دیتے ہوئے واک آئوٹ کیا۔ دریں اثناء ایوان میں سول سرونٹس ترمیمی بل 2013ء پر قائمہ کمیٹی برائے کابینہ ڈویژن اور کیڈ کی رپورٹ پیش کر دی گئی۔ رپورٹ سینیٹر صغریٰ امام نے چیئرمین مجلس قائمہ کی طرف سے پیش کی۔ آئی این پی کے مطابق چیئرمین سینٹ سید نیئر حسین بخاری نے وزارت داخلہ کو ہدایت کی  قومی سلامتی پالیسی کا مسودہ ایوان بالا میں پیش کیا جائے، کسی وزیر کو اجلاس میں حاضر ہونے کی رولنگ نہیں دی۔ چیئرمین نے کہا انہوں نے کسی وزیر کو ایوان میں حاضر ہونے کے لئے کوئی رولنگ نہیں دی بلکہ متعلقہ حکام سے اسلام آباد کے واقعہ کی رپورٹ طلب کی تھی۔ انہوں نے کہا وزارت داخلہ نے قومی سلامتی پالیسی تیار کی ہے اس کا مسودہ ایوان میں پیش کیا جانا چاہیے، ایسا کرنے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ سینٹ میں اپوزیشن نے ایک بار پھر وزیراعظم نواز شریف اور وزیر داخلہ چودھری نثار کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے پر انہیںشدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کمسلم لیگ (ن) کی روایت ہے جب بھی اقتدار میں آتی ہے پارلیمنٹ کو نظر انداز کرتی ہے ، اعتزاز احسن نے وزیر اعظم اور وزیرداخلہ کو اجلاس سے مسلسل غیرحاضر ہونے پر مفرور قراردے دیا ،حکومتی ارکان نے احتجاج کرتے ہوئے مفرورکا لفظ کارروائی سے حذف کرنے کا مطالبہ کیا تو اعتزاز احسن نے کہا مفرور ایک مہذب لفظ ہے اس لئے کارروائی سے حذف نہیں ہو گا، حکومتی ارکان کے احتجاج کے باعث اپوزیشن ارکان بھی اپنی نشستوں پر کھڑے ہو گئے اور شور شرابہ شروع کر دیا جس پر چیئرمین نے کہا کوئی بھی لفظ کارروائی سے حذف کرانا میرا اختیار ہے اس لئے پہلے مجھے لفظ مفرورکا جائزہ لینے دیا جائے، اپوزیشن لیڈر نے کہا  حکومتی ارکان میری تقریر میں مداخلت کرینگے تو پھر اپوزیشن قائد ایوان کو بھی بات نہیں کرنے دے گی، کچہری واقعہ پر اپوزیشن سینیٹرز نے کہا  وزیر داخلہ قوم کو گمراہ کر رہے ہیں اور ارکان پارلیمنٹ پر طنز کرتے ہیں، طالبان نے حملہ کر کے اسلام آباد محفوظ ہونے کے دعوے جھوٹے ثابت کر دئیے، دہشت گرد ملک اور قوم کے مجرم ہیں، ان سے کوئی رعایت نہیں ہونی چاہئے،  طالبان سے مذاکرات کی بجائے ان کے خلاف آپریشن کیا جائے، پوری قوم فوج  کے شانہ بشانہ ہو گی، حکومت کے سیز فائر کے اعلان کی فوج مخالف ہے، ریاست کی عملدار ی کے قیام کے لئے  فیصلے کی گھڑی آن پہنچی۔ آن لائن کے مطابق سینٹ میں اپوزیشن ارکان نے اسلام آباد کچہری کے واقعہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے حکومت سے واضح پالیسی پیش کرنے اور دہشت گردوں کیخلاف بھرپور کارروائی، مذہبی و سیاسی جماعتوں کی مذمتی کانفرنس بلانے اور ایوان کو اعتماد میں لینے کا مطالبہ کیا  جبکہ اپوزیشن نے وزیرداخلہ چوہدری نثار کے نہ آنے پر بھی سخت احتجاج کرتے ہوئے ایوان سے واک آئوٹ کیا اور وزیر مملکت بلیغ الرحمان کی وضاحت سننے سے انکار کر دیا۔ نقطہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے سنیٹر رضا ربانی نے  اسلام آباد دہشتگرد حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا واقعہ کے روز ایسا محسوس ہورہا تھا ایف ایٹ کچہری کا علاقہ  دہشتگردوں کیلئے فری زون ہے اور ان کو روکنے والا کوئی نہیں، مذاکرات کے عمل کو جاری رکھا گیا تو یہ ریاست کی کمزوری شمار ہوگا  اور  آنے والے دنوں میں دہشتگرد پارلیمنٹ کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔ رضا ربانی نے  چوہدری نثار کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا انہوں نے کہا تھا ایک سال میں  ملک میں امن وامان کی صورتحال میں بہتری نہ لاسکا تو استعفیٰ دے دونگا تاہم  دس ماہ ہوچکے ہیں  امن  وامان کی صورتحال بہتر ہونے کی بجائے مزید ابتر ہوگئی ہے  لہٰذا وزیر داخلہ  اپنی زبان کا پاس رکھتے ہوئے کب مستعفی ہونگے۔ وزیر داخلہ نے ریپڈ  ریسپانس فورس کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا یہ سات منٹ کے اندرکسی بھی دہشت گردی  یا حملے کا جواب دینے کی  اہلیت رکھتی ہے تاہم ایک گھنٹے بعد بھی یہ فورس  ایف ایٹ کچہری پہنچنے میں ناکام رہی اور جج اور وکلاء دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بنتے رہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا سیکرٹری داخلہ نے اعلیٰ عدلیہ کو مطلع کیا ہے 67اہلکار کچہری میں تعینات تھے تاہم  دوسری جانب  آئی جی پولیس نے 47اہلکاروں کی تعیناتی کا دعویٰ کیا  دونوں کے بیانات میں تضاد ہے ان کو  معلوم ہی نہیں کتنے اہلکار تعینات تھے کتنوں کے پاس اسلحہ تھا اور دہشتگردوں کی تعداد کتنی تھی۔ انہوں نے کہا نیشنل کرائسز مینجمنٹ سیل نے  قائمہ کمیٹی میں بریفنگ دی تھی اسلام  آباد غیر محفوظ ہے تاہم  وزیر داخلہ نے کہا اسلام آباد محفوظ ترین علاقہ ہے جس میں چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی۔ انہوں نے کہا ناکوںکیلئے الیکٹرانک نظام وضع کرلیا ہے  یہ سب دعوے کہاں گئے اور دہشتگرد کیسے ان سب رکاوٹوں کو عبور کرکے کچہری پہنچے۔ انہوں نے کہا سپریم کورٹ میں بتایا گیا کچہری میں سکیورٹی کیمرے  کام نہیں کررہے تھے  دہشتگرد  کھلے گھومتے رہے مگر وزارت داخلہ کہیں نظر نہیں آئی۔ انہوں نے کہا یہ کیسے مذاکرات ہیں کہ پاکستان کے عوام کے خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے اور ہمیں مذاکرات کا کہا جارہا ہے دہشتگرد صرف اعلان کرتے ہیں ہم  صرف نفاذ شریعت پر بات کرینگے دہشتگردی کو انہوںنے ایک طرف رکھ دیا ہے ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ موجودہ  آئینی نظام پر کسی قسم کی سودے بازی نہیں ہونے دینگے۔ انہوں نے کہا واضح ہونا چاہئے مذاکرات کن سے ہورہے ہیں۔ ایک گروپ سیزفائر کرتا ہے تو دوسرا دہشتگردانہ کارروائیاں  کرتا ہے، شہریوں کو تحفظ فراہم  کرنا ریاست کی آئینی ذمہ داری ہے، افسوس   اتنا بڑا واقعہ ہوا لیکن دو دن سے اس ایوان میں نہ وزیراعظم آئے نہ وزیر داخلہ اور چیئرمین سینٹ کی رولنگ کو بھی نظر انداز  کردیا گیا۔ سنیٹر عبدالنبی بنگش نے کہا مولانا  یوسف شاہ کل تک مولانا سمیع الحق کا ایک منشی تھا جس کی حیثیت کوئی نہیں تھی اور آج ہر وقت میڈیا پر چھایا رہتا ہے۔ بیس اکتوبر کو سکندر نے اسلام آباد کو یرغمال بنایا اس وقت بھی وزیر داخلہ کے پاس کوئی معلومات نہیں تھیں اور  آج جب اتنا بڑا حادثہ ہوا تب بھی وزیر داخلہ  ایوان کو کچھ بتانے میں ناکام رہے۔ انہوں نے کہا مذہبی جماعتیں  اس وقت آستین کا سانپ بن چکی ہیں  جو  کھل کر دہشتگردی اور دہشتگردوں کی حمایت کرتی ہیں۔ حکومتی پالیسی نے افواج پاکستان کا مورال سرنگوں کردیا ہے۔ مسلح افواج ان دہشت گردوں کا صفایا کرنا چاہتی ہیں  جس کیلئے حکومت ان کو اجازت نہیں دے رہی۔ سنیٹر مختار دھامڑا کا کہنا تھا اس ملک میں دہشتگردوں کیخلاف  فیصلے دینے والے جج اور وکلاء محفوظ نہیں تو کون محفوظ ہے؟  یہی وجہ ہے ہم  انسانی جانوں سے کھیلنے  والے  دہشتگردوں کیخلاف آپریشن کا مطالبہ کررہے ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا وزیر داخلہ ایوان میں آکر عوام اور ارکان کو اعتماد میں لیں۔ محسن لغاری کا کہنا تھا واقعہ ریاست کی رٹ  اور عوام کو تحفظ میں فراہمی میں ناکامی کا ثبوت ہے۔ جو ارکان آج تنقید کررہے ہیں وہی ان اداروں پر اثر انداز ہوتے رہے ہیں جس کی وجہ سے یہ ادارے آج اس حال پر پہنچے ہیں۔ میر حاصل خان بزنجو نے سوال کیا  اس وقت 62گروپ کالعدم ہیں ان میں سے کتنوں کے ساتھ  بات چیت چل رہی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا فوری طور پر سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی کانفرنس بلائی جائے جو  دہشت گردوں اور دہشت گردی کی مذمت کرے ۔ دہشت گرد صرف ایک جج کو مارنا چاہتے تھے لیکن  جو سامنے آتا گیا اسے مارتے گئے ان کے نزدیک بریلوی، شیعہ، لبرل اور امن پسند  قابل گردن زنی ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ کے سنیٹر بابر غوری نے کہا مذاکرات کس بات پر اور کیوں کئے جارہے ہیں ان کی آئینی حیثیت کیا ہے؟ کیا دہشت گرد ایک متوازی ریاست کی حیثیت رکھتے ہیں؟ ایف ایٹ کچہری 45منٹ تک دہشت گردوں کے نرغے میں رہی اس دوران حکومت کی رٹ کہیں نظر نہیں آئی ہم بار بار اصرار کررہے ہیں آج نہیں تو کل یا پرسوں  ایکشن کا فیصلہ کرنا پڑے گا،  آج نیشنل سکیورٹی کونسل تیار کی جارہی ہے اس میں ملک اور عوام کے تحفظ کو ترجیح دی جائے گی تاہم ملک اور  عوام دشمنوں سے اسی حالت  میںنمٹنا ہوگا۔ سنیٹر کامل علی آغا نے کہا خاتون وکیل فضہ   ملک بیرون ملک سے اعلیٰ تعلیم   کے حصول کے بعد وطن واپس آئی۔ اس کی شہادت نے قوم کو سوگوار کر دیا ہے۔ دوسری جانب وزیر داخلہ کی عدت ہی مکمل نہیں ہو رہی۔ ان کو طنز  اور طعنوں کے علاوہ کچھ نہیں آتا جب بھی کوئی دعویٰ کرتے ہیں دہشت گرد ان کے دعوے کو مٹی میں ملا دیتے ہیں۔ انہوں نے وزیر داخلہ کو چوہے سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا وہ جنگ بندی کے اعلان کے بعد ایسے خوشیاں منا رہے تھے جیسے چوہا دم پر کھڑا  ہوگیا ہے۔ وزیر داخلہ کے مطابق طالبان اور حکومت دونوں خلوص کا مظاہرہ کررہے ہیں اور اس خلوص کا ایک اور مظاہرہ کل کچہری میں نظر آیا گزشتہ چھ ماہ میں 860 دہشت گردی کے واقعات ہوچکے ہیں جن میں ہزاروں لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔  اس موقع پر  جب چیئرمین سینٹ نیئر حسین بخاری نے کامل علی آغا کو وقت کی کمی کے باعث تقریر مختصر کرنے کو کہا  تو انہوں نے ایوان سے علامتی واک آئوٹ کردیا۔ ان کے ساتھ حزب اختلاف کے تمام سنیٹر بھی ایوان سے باہر چلے گئے۔ بعدازاں  جب وزیر مملکت برائے داخلہ بلیغ الرحمان ایوان میں کچہری واقعہ کے حوالے سے تفصیلات پیش کرنے لگے تو حزب اختلاف نے  ان کی بات سننے سے انکار کردیا اور ’’نو، نو‘‘ کے نعرے لگاتے  ہوئے پھر ایوان سے واک آئوٹ کر دیا۔ اس موقع پر پانچ منٹ کا  اضافی وقت دیا گیا تاہم کورم پورا نہ  ہونے کی وجہ سے اجلاس  آج (بدھ کو)صبح دس بجے تک ملتوی کردیا گیا۔ سینٹ میں قائد حزب اختلاف اعتزازاحسن نے کہا وزیرداخلہ  پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا وہ بلند بالا  دعوے  کرتے ہیں اور  جب ناکام  ہوتے ہیںتو  بجائے شرمندگی  کے وہ حزب اختلاف  پر الزامات لگادیتے ہیں اپوزیشن سیاست کررہی ہے۔ وزیر داخلہ کو  یہ بھی معلوم نہیں   حملہ آوروں  کی تعداد کتنی  تھی؟ پولیس اہلکاروں  کی تعداد کتنی تھی؟  کتنے  فائر پولیس نے کئے؟ وہ وزیراعظم  کی طرح ایوان سے مفرور ہیں، خود کش  حملہ آوروں  کی بارود سے بھری  گاڑیاں  اور دیگر سہولیات  وزیرستان   سے کوئٹہ  لاہور کراچی  اور اسلام آباد نہیں آتیں  بلکہ  ان  شہروں کے مضافات   میںہی تیار ہوتی ہیں،  وقت کا تقاضا ہے کہ  مذاکرات چھوڑ کر اس جنگ کو اپنایا جائے۔ انہوں نے کہا حقائق کو عوام سے مخفی  رکھا جائے گا  جیسے ایک سیاسی رہنما نے گزشتہ روز  کے واقعات  میں امریکہ کو ملوث قرار دیا، ان کا اشارہ عمران خان کی جانب تھا۔ بار بار تکرار  کرکے عوام کے ذہن میں یہ بات  ڈالی جارہی ہے یہ جنگ  ہماری جنگ نہیں۔ ضیاء دور میں   حکومت  نے افغانستان میں مداخلت   شروع کی تو ہم نے اس کی مخالفت کی اور اس جرم کی پاداش  میں پابند سلاسل  بھی رہے۔  ضیاء  دور میں  بوئی فصل   ہم  آج کاٹ رہے ہیں   ریاست  اور ایک گروہ  میں برابری  قائم کرنا سب  سے بڑی غلطی  اور بعدازاں اس گروہ کی ہر بات، مطالبہ اور سیز  فائر کو تسلیم  کرنا حکومت کی کمزوری ہے۔ انہوں نے کہا حزب اختلاف نہیں بلکہ حزب اقتدار ہر بات پر سیاست کررہی ہے اور اس کا الزام موجودہ  حزب اختلاف پر  تھونپ دیتی ہے۔

ای پیپر-دی نیشن