• news

شناختی کارڈ مفت دیا جائے: قومی اسمبلی کی متفقہ قرارداد‘ کسی ملک میں مداخلت نہیں کریں گے: سرتاج عزیز

اسلام آباد (سٹاف رپورٹر + ایجنسیاں) قومی اسمبلی نے حکومتی خاتون رکن کی طرف سے شہریو ں کو  بلا معاوضہ قومی شناختی کارڈ فراہم کرنے کی پیش کردہ  قرارداد متفقہ طورپر منظور کر لی ہے۔ سرکاری بنچوں  سے خاتون رکن خالدہ منصور  نے   قرارداد پیش کی جس کے ذریعہ حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ  ملک  بھر میں  شہریوں کو بلامعاوضہ قومی شناختی کارڈ فراہم کرنے کیلئے فوری طور پر اقدامات  کئے جائیں۔ حکومت کی جانب سے بل کی مخالفت نہیں کی گئی۔  رائے شماری  کے دوران   یہ قرارداد  متفقہ طو رپر  منظور کر لی گئی۔ پیپلز پارٹی کے  ایاز سومرو  کی طرف سے  سرکاری ملازمین کی تقرری اور ملازمتوں کا تسلسل بل 2014ء مزید بہتر بنانے کے لئے موخر کر دیا گیا۔  مسلم لیگ (ن) کی شائستہ پرویز نے مجموعہ تعزیرات پاکستان 1860 اور مجموعہ فوجداری 1898ء اور قانون شہادت آرڈر 1984ء  میں مزید ترمیم کا  بل ایوان میں پیش کیا جسے مزید غور و خوض کیلئے قائمہ کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا۔ فوجداری قانون (ترمیمی) بل اور ہندو شادی بل قومی اسمبلی میں پیش کر دیئے گئے جنہیں سپیکر نے متعلقہ کمیٹیوں کے حوالے کر دیا۔ اقلیتی رکن رمیش لعل نے ہندوئوں کے لئے احکام وضع کرنے کا بل (ہندو شادی بل2014) پیش کر دیا۔ حکومت نے قومی اسمبلی میں وضاحت کی اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے وفاقی سرکاری اداروں میں کنٹریکٹ ملازمین کی برطرفی کے  لئے کوئی خط جاری نہیں کیا، کنٹریکٹ ملازمین کی ملازمت جاری رکھنے کے حوالے سے  صرف سمری طلب کی گئی تھی۔  پارلیمانی امور کے وزیر مملکت شیخ آفتاب احمد نے شیخ رشید احمد سمیت   پانچ ارکان کی طرف سے پیش کردہ ایک توجہ دلائو نوٹس کا جواب دیتے ہوئے بتایا وزیراعظم کے دفتر کی جانب سے وزارتوں اور ڈویژنوں کو محض یہ  خط ارسال کیا گیا  تھا  کہ کنٹریکٹ ملازمین کی ملازمت  جاری رکھنی ہے تو وزیراعظم کو اس بارے میں سمری ارسال کی جائے۔ انہوں نے کہا گزشتہ روز انہوں نے وزیراعظم کو قائمہ کمیٹی کی سفارشات کا حوالہ دیتے ہوئے سمری ارسال کی ہے کہ کنٹریکٹ ملازمین کو فارغ نہ کیا جائے۔  ارکان قومی اسمبلی نے سرکاری ملازمیں کو بلاسود قرضے فراہم کرنے کا مطالبہ کیا تاہم  حکومت نے قرارداد کی مخالفت کرتے ہوئے کہا متعدد صورتوں میں پہلے ہی  سرکاری ملازمیں کو بلا سود قرضے مل رہے ہیں۔ خزانہ کے پارلیمانی سیکرٹری کے مؤقف سننے کے بعد سپیکر نے یہ قرارداد نمٹا دی۔ آن لائن کے مطابق قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے کہا اسلام آباد کا واقعہ سکیورٹی کی خامی  ہے۔ دہشت گردی کی کارروائیوں کی نشاندہی طالبان نے کرنی ہے تو پھر وزارت داخلہ طالبان کو انٹیلی ایجنسی اداروں میں شامل کردے جس سے انٹیلی جنس اداروں کی تعداد27 ہو جائے گی۔ حکومت کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے یا پھر طاقت کے استعمال کا فیصلہ کرنا ہوگا، تاخیر ملک کے لئے تباہ کن ہوگی۔ حکومت کو دہشت گردی کے خاتمے کے لئے طاقت اور مذاکرات کا فیصلہ کرنا ہوگا ورنہ دیر ہو جائے گی۔  سرتاج عزیز اپنی تقریر پر عدم اطمینان کا اظہار کرنے پر  قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کی نشست پر پہنچ گئے اور انہیں یقین دلایا پاکستان ایران گیس پائپ لائن پر کوئی دبائو قبول نہیں کریں گے۔ شام کی صورت حال پر غیر جانبدار رہیں گے۔ این این آئی کے مطابق خورشید شاہ نے کہا کہ مذاکرات یا آپریشن کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ کرنے کا یہی مناسب وقت ہے، سیز فائر کے بعد کارروائیاں بہت سے سوالات کو جنم دے رہی ہیں۔ ملک میں دہشت  گردی کے پے در پے واقعات کی وجہ سے حکومت ناکام ہو رہی ہے۔ ہمیں دوسرے ملکوں کی جنگ میں نہیں پڑنا چاہئے۔آئی این پی کے مطابق انہوں نے کہا  حکومت اور وزیر داخلہ اسلام آباد کچہری میں دہشت گردی کے واقعہ کی ذمہ داری دوسروں پر ڈالنے کی بجائے خود قبول کریں ، وزیر داخلہ بتائیں 8 دہشت گرد پونے گھنٹے تک چن چن کر لوگوں کو مارتے رہے، انکی ریپڈ فورس کہاں تھی، وفاقی دارالحکومت اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کی سکیورٹی فورسز میں فرق ہونا چاہئے، اپنی نہیں تو حکومت ہی کی بدنامی کا خیال کر لیں، حکومت فوری فیصلہ کرے کہ طالبان سے مذاکرات کرنے ہیں یا آپریشن کرنا ہے، جو بھی کرنا ہے اس پر جلد عمل درآمد شروع کیا جائے،  اپوزیشن سے مشاورت نہیں کرنی تو نہ کریں ہمیں ملنے کا زیادہ شوق نہیں، ایران گیس لائن منصوبہ ترک کیا گیا تو پاکستان کی پوزیشن خراب ہوگی۔ آن لائن کے مطابق عمران ظفر لغاری، غلام احمد بلور، صاحبزادہ طارق، عائشہ گلا لئی، شازیہ مری اور قومی اسمبلی میںاپوزیشن جماعتوں نے خارجہ پالیسی تبدیل کرنے پر شدید احتجاج کیا اور کہا خارجہ پالیسی پر سعودی عرب کی بجائے پاکستان کے مفادات کا خیال رکھا جائے، ماضی میں پاکستان کی بجائے دیگر ممالک کے مفادات کا خیال رکھا جس کے باعث آج ملک کو سنگین خطرات کا سامنا ہے، سعودی عرب دوست ملک ضرور ہے مگر بھارت سے دفاعی معاہدوں پر تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ جبکہ مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا شام سمیت کسی ملک میں مداخلت نہیں کرینگے۔ ماضی کی پالیسیوں کی وجہ سے آج ملک عالمی تنہائی کا شکار ہے ملک میں استحکام، ہمسائیوں سے بہتر تعلقات، اپنے مفادات کا تحفظ کرکے ملک کو عالمی تنہائی سے نکال لیں گے۔ آٹھ ماہ میں افغانستان چین اور بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر ہوئے ہیں عنقریب وزیراعظم ایران کا دورہ کرینگے، گیس پائپ لائن صحیح ہے پابندیوں کے نرم ہوتے ہی منصوبے کو مکمل کرینگے۔ خارجہ پالیسی پر بحث کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے عمران ظفر لغاری نے کہا خطے کے بدلتے ہوئے حالات دیکھ کر حکومت خارجہ پالیسی بنائے نہ کہ سعودی عرب سے مشاورت کرکے بنائی جائے۔ بھارت سے برابری کی بنیاد پر تعلقات ہونے چاہئے۔ غلام احمد بلور نے کہا داخلی اور خارجہ پالیسی کا ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا ملک میں بدامنی ہمسایہ ممالک کی وجہ سے ہو رہی ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ ہمارے برادرانہ تعلقات ہیں لیکن انہوں نے انڈیا کے ساتھ دفاعی معاہدے کئے ہیں جو کہ قابل تشویش ہیں۔ تحریک انصاف کے رکن اسمبلی عائشہ گلا لئی نے کہا اس وقت پاکستان کی کوئی خارجہ پالیسی نہیں ہے اور ماضی میں امریکہ سے کئے جانے والے معاہدے ایوان میں لائے جائینگے۔ پیپلز پارٹی کی رکن اسمبلی شازیہ مری نے کہا گزشتہ 35 برسوں کے دوران پاکستان کو پراکسی وار میں دھکیل دیا گیا ہے۔ اسلام آباد واقعہ کے ذمہ داروں کا طالبان نشاندہی کریں تو پھر ادارے کس کام کے لئے ہیں۔ ایران کے ساتھ گیس منصوبہ امریکہ کے دبائو پر حکومت نے بیک آئوٹ کیا۔ سرتاج عزیز نے ایوان میں وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا  سابق اور موجودہ خارجہ پالیسی میں کوئی زیادہ فرق نہیں۔ دفاعی پالیسی بھی ایوان میںپیش کردی جائے گی۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی پہلے سے بہتر ہے ملکی مفادات کا ہر صورت دفاع کرینگے۔ انہوں نے کہا قائداعظمؒ کے اصولوں کے مطابق دوغلی پالیسی نہیں اپنائیں گے۔ ارکان کے دو نجی بل متعلقہ قائمہ کمیٹیوں کے سپرد کردیئے گئے جبکہ ایک بل کو اگلے اجلاس تک مؤخر کر دیا گیا۔ بعدازاں  اجلاس آج صبح ساڑھے دس بجے تک کیلئے اجلاس ملتوی کر دیا گیا۔  

ای پیپر-دی نیشن