دہشت گردی کیخلاف مشترکہ حکمت عملی اپنائی جائے : قومی اسمبلی میں حکومتی اپوزیشن ارکان کا مطالبہ
اسلام آباد (خبرنگار خصوصی+ ایجنسیاں) قومی اسمبلی میں بدھ کو قومی داخلی سلامتی پالیسی پر بحث کے دوران مختلف سیاسی جماعتوں کے ارکان نے دہشت گردی اور عسکریت پسندی سے نمٹنے کیلئے مشترکہ حکمت عملی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ جو لوگ اپنی مرضی کی شریعت مسلط کرنا چاہتے ہیں ایسے لوگوں کیخلاف کارروائی ہونی چاہئے، قومی داخلی سلامتی پالیسی اپنے گھر کو ٹھیک کرنے کیلئے لائی گئی، ملک میں دو نمبر موبائل فون سموں کا اجراء بند ہونا چاہئے، چاروں صوبوں میں یکساں پولیس قوانین کا اطلاق وقت کا اہم تقاضا ہے، آزاد عدلیہ کا تصور سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کی حد تک محدود نہیں ہونا چاہئے، جو لوگ ہمارے آئین اور شریعت کو نہیں مانتے انہیں الگ کرنا ہو گا۔ وفاقی وزیر زاہد حامد نے تحریک پیش کی کہ ایوان قومی داخلی سلامتی پالیسی پر بحث کرے۔ تحریک کی منظوری کے بعد پیپلز پارٹی کے رکن نواب محمد یوسف تالپور نے کہا کہ اسلام آباد کچہری میں پیش آنے والا واقعہ انتہائی افسوسناک ہے۔ اس معاملے پر وزیر داخلہ کو اخلاقاً استعفیٰ دے دینا چاہئے۔ جب بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات کا عمل آگے بڑھتا ہے تو کوئی نہ کوئی واقعہ رونما ہو جاتا ہے۔ طالبان کا یہ کہنا درست نہیں کہ ہم سیز فائر کرتے ہیں۔ سیز فائر تو دو ممالک کے مابین جنگ کی صورت میں ہوتا ہے، انہیں ہر قسم کی کارروائیاں بند کرنے کا اعلان کرنا چاہئے تھا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہمت سے کام لے کر آگے بڑھنا چاہئے۔ فوج کو طالبان کے ساتھ مذاکرات میں نہ الجھایا جائے۔ جے یو آئی کے رکن مولانا محمد خان شیرانی نے کہا کہ سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد عالمی قوتوں نے اسلام اور اسلامی ممالک کو اپنا مدمقابل بنا لیا اور اس کے تحت نیو ورلڈ آرڈر ترتیب دیا گیا۔ نائن الیون کے بعد عالمی قوتوں کی پیش قدمی کا مقصد دہشت گردی کا انسداد نہیں بلکہ اس کا فروغ تھا۔ ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ دہشت گردی کی مختلف اقسام کا تعین کر کے ہر ایک کیلئے الگ الگ حکمت عملی اختیار کی جائے، طالبان کے جو گروپ امن اور مذاکرات نہیں چاہتے انہیں الگ کیا جائے جو لوگ غیر مسلح ہونے اور مذاکرات پر آمادہ ہوں ان کے ساتھ بات کی جائے بصورت دیگر کوئی اور لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔ قومی داخلی سلامتی پالیسی میں ناردرن آئرلینڈ کی پالیسی سے استفادہ کیا جاتا تو بہتر ہوتا۔ نیکٹا کو پیشہ وارانہ ادارے کے طور پر قائم کیا جانا چاہئے۔ اسلام آباد کے واقعہ میں سیکورٹی ناکامی کا عنصر موجود ہے۔ میجر (ر) طاہر اقبال نے کہا کہ جو لوگ اپنی مرضی کی شریعت مسلط کرنا چاہتے ہیں ایسے لوگوں کیخلاف کارروائی ہونی چاہئے، جو بھی ملک کے آئین کو تسلیم کرتا ہے اس کے ساتھ مذاکرات ہونگے۔ جو لوگ ہمارے آئین اور شریعت کو نہیں مانتے انہیں الگ کرنا ہو گا ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے۔ حکومتی پالیسی کا محور و مرکز قوم کے ہر فرد کے جان و مال اور انسانی حقوق کا تحفظ ہے اس کیلئے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جائے گی۔ سلمان خان بلوچ نے کہا کہ پالیسی طویل عرصہ بعد آئی ہے مگر اس میں مسئلہ حل کرنے کے خدوخال واضح نہیں۔ مذاکرات کے ذریعے طالبان وقت حاصل کرنا چاہتے ہیں اس بات کو بھی مدنظر رکھا جائے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ کراچی میں ایم کیو ایم کے کارکنوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔ دانیال عزیز نے کہا کہ چاروں صوبوں میں یکساں پولیس قوانین کا اطلاق وقت کا اہم تقاضا ہے، آزاد عدلیہ کا تصور سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کی حد تک محدود نہیں ہونا چاہئے۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ ہمیں اجتماعی دانش سے ملک کو موجودہ صورتحال سے نکالنا ہو گا، موجودہ 5 سال پاکستان کی تاریخ میں انتہائی اہم ہیں اس لئے ہم نے محمد نوازشریف کی حمایت کی ہے، کسی نے پاکستان کے آئین کو چھیڑا تو ہم سخت احتجاج کرینگے۔ پاکستان چلانے اور جلانے کے دوراہے پر کھڑا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کو دہشت گردی کے خاتمے کیلئے ایک پیج پر آنا ہو گا، جس ملک میں انصاف نہیں ہو گا اس کی بقا ممکن نہیں ہے۔ ملک جن حالات سے گزر رہا ہے اس کا تقاضا ہے کہ ہم سنجیدہ طرز عمل کا مظاہرہ کریں۔ اس معاملے پر صدر مملکت ان کیمرہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کریں جس کے بعد داخلی سلامتی کے معاملے پر دس دنوں تک بحث کرائی جائے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک ملک میں آئین کی بالادستی نہیں ہو گی ہمارے مسائل حل نہیں ہونگے۔ آئین توڑنے والوں کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ وفاقی اکائیوں میں بسنے والی قوموں کا ان کے وسائل پر حق تسلیم کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ جو امن توڑتا ہے وہ آج بھی پروٹوکول لے رہا ہے۔ اگر ہم ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں دوسرے کے معاملات میں عدم مداخلت کی پالیسی پر عمل کرنا ہو گا اس سے ہمیں داخلی سلامتی پالیسی بنانے میں مدد ملے گی۔ موجودہ حالات میں ہمیں ہر حال میں نواز شریف کا ساتھ دینا ہو گا۔ علاوہ ازیں وقفہ سوالات معطل ہونے سے حکومت سبکی سے بچ گئی۔ 39 تحریری سوالات میں سے 22 اہم سوالوں کے جواب ہی موصول نہیں ہوئے تھے۔ قومی اسمبلی نے قانون و انصاف کمشن پاکستان ترمیمی بل کی منظوری دیدی۔
قومی اسمبلی