وطن کے لئے زخمی، شہید سے کم مرتبہ نہیں ہوتا!
گورنر ہائوس لاہور کے دربار ہال میں اب لکھنے پڑھنے والوں کا دربار لگتا ہے۔ کچھ درباری لوگ بہت پریشان ہیں کہ اب ہمارے علاوہ اہل قلم اہل دل اور اہل وطن کیسے یہاں آ جاتے ہیں۔ آج کی تقریب کے لئے آغا مسعود شورش نے بلایا۔ پاک فوج میں زخمی ہو کر دوبارہ سینہ تان کر چلنے والوں کے اعزاز میں ایک تقریب تھی۔ وہاں مجاہد صحافت ڈاکٹر مجید نظامی بھی تھے۔ یہاں حکومت والے نہ تھے۔ صرف گورنر پنجاب چودھری محمد سرور تھے اور وہ گورنر نہیں لگتے۔ اس لئے ہم انہیں واقعی گورنر سمجھتے ہیں۔ میرے علم میں نہیں کہ کبھی یہاں ایسی زبردست تقریب ہوئی ہو۔ ڈاکٹر مجید نظامی کے دل سے نکلی ہوئی چند باتوں کے علاوہ تقریر چودھری سرور کی تھی جسے محبت اور حیرت سے سنا گیا۔ تقریب بھی شاندار تقریر بھی شاندار ‘شجاعت ہاشمی کمپیئرنگ کر رہے تھے۔ ایسی باتیں وہی کر سکتا ہے جو دلیر ہو او ردلبر بھی ہوں۔ دل والے شجاعت ہاشمی کو سن کر یہ حقیقت خوبصورت حکایت بنتی ہے کہ کمپیئر ہر لحاظ سے اینکر پرسن سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ اس تقریب کے لئے شجاعت ہاشمی سے بہتر آدمی سٹیج کے لئے کوئی نہ تھا۔ اس نے ڈاکٹر مجید نظامی کے لئے سالار صحافت کا خطاب انتخاب کیا۔ میں نے آ کر کہا کہ میں اپنے محبوب دوست کی بات کو ہی آگے بڑھائوں گا۔ مجید نظامی سپہ سالار صحافت ہیں۔ آج اہل قلم کی فوج میں جو نمائندہ لوگ نظر آتے ہیں وہ نوائے وقت سے ہو کے گئے ہیں۔ آج بھی نظامی صاحب کی قیادت اور ادارت کی تعریف کرتے ہیں۔ کئی کالم نگار اور صحافی ہیں کہ پہلے اہل دل تھے۔ اب اہل دولت ہیں مگر دل کے زمانے کو یاد کرتے ہیں۔ مجیب الرحمن شامی بھی تقریب میں تھے۔ انہوں نے تقریر بھی کی۔
شجاعت ہاشمی نے میرے دل کی بات کی۔ مسلم لیگ ن نے ایک کام تو بہت جینوئن اور اعلیٰ کیا ہے کہ چودھری سرور کو گورنر پنجاب بنا دیا ہے۔ چودھری سرور نے گورنر ہائوس کو دل والوں کا ڈیرہ بنا دیا ہے۔ جو کچھ چودھری سرور نے کہا وہ کوئی گورنر نہیں کر سکتا۔ جب نائن الیون ہوا تو ممبر برٹش پارلیمنٹ کے طور پر پارلیمنٹ ہائوس میں چودھری صاحب نے کہا کہ ہم امریکی عوام کے ساتھ ہیں۔ ان کے دکھ میں شریک ہیں۔ اللہ نے امریکہ کو سپر پاور بنایا ہے۔ وہ دنیا والوں کے ساتھ انصاف کریں۔ اس سے بڑھ کر بڑے ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ لوگوں سے صلہ رحمی کی جائے۔ میں نے یہ برملا کہتا ہوں کہ امریکہ افغانستان پر حملہ نہ کرے یہ حملہ امریکہ کی بہت بڑی غلطی ہو گی۔ یہ افغانستان پر امریکہ کے حملے سے پہلے کی بات ہے اور آج یہ ثابت ہو گیا ہے کہ امریکہ نے غلطی کی تھی۔ آج پاکستان بھی اسی حملے کے نتیجے میں مشکل میں ہے۔ آج جن معذور لوگوں کے لئے تقریب ہو رہی تھی۔ وہ بھی دہشت گردی کی جنگ میں زخمی ہوئے ہیں۔ یہ بات بھی چودھری سرور نے بہت دلیری سے برمحل کی کہ طالبان بے گناہ پاکستانیوں کو یاد کرتے ہیں۔ پاک فوج کے جوانوں اور افسروں پر حملہ کرتے ہیں کہ ہم امریکہ سے بدلہ لے رہے ہیں۔ یہ منطق کسی کی سمجھ میں نہیں آئی۔ اسلام آباد عدالت پر حملہ ہوا ہے۔ ایک جج اور ایک نوجوان وکیل لڑکی کے ساتھ چار وکلا اور کئی آدمی شہید ہو گئے ہیں۔ ان کا کیا قصور ہے۔ انہوں نے تو امریکہ کی حمایت نہیں کی تھی۔ اس سے حکومت پاکستان اور امریکی فوج کو کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ایک بے گناہ انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ کیا یہ حدیث رسولؐ شریعت کا چرچا کرنے والوں کو یاد نہیں۔ چودھری سرور نے حضرت عمر بن العزیز نے ایک آدمی کو جائز سزا دی اور وہ مر گیا۔ اسے گورنر حضرت عمر بن العزیز نے موت کی سزا نہ دی تھی۔ اس کے باوجود انہوں نے گورنری سے استعفی دے دیا۔ یہ بات ایک گورنر کے منہ سے سن کر اچھا لگا۔ شاید اس لئے وہ لوگوں کو جزا دینے کی روایت قائم کر رہے ہیں۔ گورنر کی پوری ٹیم جس طرح اب ولولے میں ہیں پہلے کبھی نہ تھی۔ مجھے پہلے بھی بہت کم کم یہاں آنے کا اتفاق ہوا۔ مگر یہ ماحول نہیں تھا۔
آج بھی وہ لوگ یہاں موجود تھے جن کی آنکھوں میں وطن کی محبت تڑپ رہی تھی۔ وہ جان و دل کی بازی لگانے کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے۔ انہیں ایوارڈز دینے کے لئے چودھری سرور ان بہادر اور جانثار لوگوں کے پاس خود گئے۔ کئی لوگ بیساکھیوں کے سہارے چل کے آئے تو بہت اچھے لگے۔ ڈاکٹر مجید نظامی بھی چودھری سرور کے ساتھ عظیم لوگوں کو ایوارڈ دینے کے لئے موجود رہے۔ یہ ایوارڈ سے بڑا اعزاز دوستوں کے لئے تھا۔ مجیب شامی اور میرے علاوہ چودھری سرور نے حاضرین میں موجود کئی مقتدر لوگوں کو بلایا۔ پنجاب یونیورسٹی کے دلیر اور دانشور وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران کو مجید نظامی نے خاص طور پر بلایا اور ایک خوش قسمت نوجوان کو ان کے ہاتھوں سے ایوارڈ دلوایا۔ سامنے بیٹھے ہوئے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر خلیق الرحمن کو بلایا گیا۔ انہوں نے بھی ایک بہادر زخمی معذور سپاہی کو ایوارڈ دیا۔ گورنمنٹ کالج لاہور کو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کہتے ہوئے بہت دکھ ہوتا ہے۔
میں نے بھی وہاں چند گذارشات پیش کیں۔ میرے خیال میں وطن کے لئے شہید ہونے والوں سے زخمی کم مرتبے کا نہیں ہوتا۔ وہ ساری عمر اس خمار میں رہتا ہے کہ میں نے وطن کے لئے قربانی دی ہے۔ میرے آقا و مولا رحمت اللعالمین رسول اکرم حضرت محمدؐ بھی غزوہ احد میں زخمی ہوئے تھے۔ ان کی محبت میں اویس قرنیؓ نے اپنے سارے دانت شہید کر لئے تھے۔ انہوں نے حضورؐ کو دیکھا نہ تھا مگر حضورؐ کے فرمان کے مطابق ان کا مرتبہ صحابہ سے کم نہ تھا۔ میں اپنے پیارے وطن کے پیارے جانثاروں کی خدمت میں یہ شعر پیش کرتا ہوں:
جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا
ایک اور شعر بھی مجھے یاد آ رہا ہے۔ اس کا پہلا مصرعہ ہمارے لئے ہے جنہیں حق کے لئے قلم کو تلوار بنانے کے بعد الزام کا نشانہ بنایا گیا۔ عیش وہ کرتے ہیں جو انعام کے مستحق بنتے ہیں کہ حکمرانوں کی خوشامد ان کا شیوہ ہے،
یہ ہمی تھے جن کے لباس پر سر راہ سیاہی لکھی گئی
دوسرا مصرعہ ان لوگوں کے لئے ہے جو وطن کے لئے اپنے زخموں کو اپنا اعزاز بنا کے زندہ ہیں۔ لنگڑا کے چلتے ہیں تو پاک سرزمین مست ہو کے ان کے قدم چومتی ہے،
یہی زخم تھے جو سجا کے ہم سر کوئے یار چلے گئے
یہ زخم مردان وفا کا زیور ہے۔ یہی زیور مردوں کے لئے پہننا جائز ہے
آخر میں شجاعت ہاشمی نے گلوکارہ شازیہ منظور کو بلایا۔ وہ سریلی ہے اور دل سے گاتی ہے۔ اس نے گایا اور محفل پر وجد طاری ہو گیا۔ یہ گیت 65ء کی جنگ ستمبر میں نور جہاں نے گایا تھا۔ اب بھی جوان اور افسر شہید ہوتا ہے، زخمی ہوتا ہے تو یہی گیت گائے جاتے ہیں جن کے لئے شجاعت ہاشمی کے بقول بھارت نے کہا تھا کہ یہ جنگ آدھی تو پاکستان کے جنگی ترانوں نے جیت لی تھی۔ ڈاکٹر مجید نظامی بھارت کو دشمن کہتے ہیں تو پھر جو حکمران ان کے معتقد ہیں، بھارت سے دوستی کی باتیں کیوں کرتے ہیں۔
خدا کی قسم میں آبدیدہ ہو گیا اور ڈاکٹر مجاہد کامران نے مجھے کہا کہ میں نے بڑی مشکل سے اپنے آنسوئوں کو روکا۔ میرے پاس بیٹھے دوست صحافی حفیظ اللہ شاہ کی آنکھوں میں واقعی آنسو تھے:
ایہہ پتہ ہٹاں تے نئیں وکدے
توں لبھدی پھریں بازار کڑے