ہم نظامی برادران کے مجرم ہیں
پہلے تو میں اعتراف جرم کرتا ہوں کہ میں ادارہ نوائے وقت سے برسوں سے بہرہ مند ہوتا رہا مگر مجھے یہ توفیق نہ ہوئی کہ اس ادارے کے بانی مبانی حمید نظامی پر کوئی تحقیقی کام کروں، ان کی زندگی کے دیکھے اور ان دیکھے گوشوں کا کھوج لگائوں اور ان کے عظیم کردار کے ایک ایک پہلو کو اس تفصیل سے مرتب کروں کہ آنے والی نسلیں ا س چشمہ فیض سے بہرہ مند ہوتی رہیں اور تاریخ انکے نقوش پا پر چلتے ہوئے نئے زمانوں کو اجالتی رہے۔
میںنے حمید نظامی کو دیکھا تک نہیں لیکن ان کے نظریئے کو پوجتا ہوں۔میں نے مڈل اور ہائی اسکول کے طالب علم کی حیثیت سے نوائے وقت کا مطالعہ شروع کیا، اس کے لئے مجھے اپنے گائوں سے قصور شہر جانا پڑتا تھا جہاںنئے بازار کے شروع میںحکیم شہاب الدین کا مطب تھا، وہ اس اخبار کے مستقل خریدار تھے اور مجھ سے تقریبا عاجز آ جاتے تھے جب میں نوائے وقت کی پیشانی کو چومتا اور کئی گھنٹے لگا کر اس کی پرنٹ لائن تک پہنچ کر اخبار حکیم صاحب کو واپس کرتا۔یہ اخبار میرا نشہ بن گیا تھا۔
میں لاہور آیا تو حمید نظامی کے ناگہانی انتقال کو ایک برس گزر چکا تھا مگر میرے بڑے بھائی میاں محمد جو ہیلی کالج میں زیر تعلیم تھے، حمیدنظامی مرحوم کے تاریخی جنازے میں شریک ہوئے۔ہمارے دیہات میں روایت ہے کہ خاندان میں سے اگر کوئی ایک فرد کسی جنازے میں شریک ہو جائے تو اسے پورے خاندان کی طرف سے فرض کفایہ کی ادائیگی تصور کیا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے میں اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتا ہوں۔
میں 1986 میں پہلی مرتبہ نوائے وقت کا ڈپٹی ایڈیٹر بنا تو اس اخبار کے دیرینہ اور مخلص کارکن منیر صاحب نے مجھ سے کہا کہ آپ اس میز پر بیٹھے ہیں جس پر حمید نظامی صاحب کام کیا کرتے تھے، چہ نسبت خاک را بہ عالم پاک۔ کہاں میرے جیسا ایک جاہل شخص اور کہاں ایک مرد حر حمید نظامی۔ مگر سچ پوچھیے میں لکھنے بیٹھتا تو میرے سامنے حمید نظامی کی روح جلوہ فگن ہوتی اور میر ی خوش قسمتی تو ڈبل تھی کہ مجھے محترم مجید نظامی کی راہنمائی میسر تھی ، ان جیسا دلیر انسان میں نے کوئی اور نہیں دیکھا، جنہوںنے حمید نظامی کو دیکھا ہے، وہ میرے دعوے کو جھٹلا سکتے ہیںمگر میںنے مجید نظامی کو وقت کے فرعونوں کے سامنے ہمیشہ ڈٹے ہوئے دیکھا۔اصولوں پر سمجھوتہ کرنے سے ان کی ذات مبرا ہے۔وہ راست گو، راست فکر ہیں، ابہام اور کنفیوژن ان کے ذہن کو کبھی چھو کر بھی نہیں گزرا۔
بس میں یہی کہنا چاہتا تھا لیکن اب اس کے علاوہ بھی ایک بات ہے جسے کہنے کا مجھے یارا نہیں کہ کہیں راندہ درگا ہ نہ قرار پائوں، مگر مجھے کہنے دیجئے کہ یوم حمید نظامی اور سال کے مختلف دنوں میں چند تقریروں اور چند تحریروں سے ان دونوں اصحاب گرامی کی ذات کو پوری طرح نہیں سمجھا جا سکتا۔ان پر تو کئی کئی کتابیں لکھی جانی چاہئیے تھیں، کتابیں کیا ،کئی انسا ئیکلو پیڈیا تصنیف کرنے کی ضرورت تھی اور شاید پھر بھی بیاںمکمل نہ ہو پاتا۔ کیامیں نے یہ کام کیا، نہیں کیا اور میرا جرم یہی ہے کہ بیس سال تک نوائے وقت کا رزق کھایا مگراس کا حق ادا نہ کیا، اورمجھے کہنے کی اجازت دیجئے کہ ہم میں سے کسی نے بھی یہ حق ادا نہیں کیا، ایک شورش کاشمیری نے مختصر سی کتاب حمید نظامی کے بارے میں ضرور لکھی اور یہی وہ واحد ذریعہ ہے جس سے ہمیں اس بطل حریت کی زندگی کی آخری شب کا کچھ ذکر ملتا ہے، ا س کتاب کے صفحات گویا حمید نظامی کے دل کی انیجو گرافی کی مانند ہیں جس میں واضح نظر آتا ہے کہ شورش کاشمیری جس عبقری انسان کے ساتھ شب بھر ٹہلتے رہے، وہ چند ساعتوں کا مہمان ہے۔
ایک کتاب بیگم حمید نظامی صاحبہ کے قلم سے بھی ہے، یہ انتہائی قریب کا مشاہدہ ہے اور اس کو پڑھ لینے کے بعد دل چاہتا ہے کہ یہ ابھی ختم نہ ہو۔
سرفراز مرزا نے تحقیق کا بیڑہ اٹھایا اور حمید نظامی کے معرکہ آرا اداریوں کا ایک انتخاب شائع کیا۔ یہ ایک نادر کام ہے جسے مزید آگے بڑھانے کی ضرورت تھی، یہ کام پنجاب یونیورسٹی میں حمید نظامی چیئر پر باری باری تشریف رکھنے والے اصحاب آگے بڑھا سکتے تھے۔بلکہ حمید نظامی کے زمانہ طالب علمی سے لے کر ان کی زندگی کے آخری لمحے تک ان کے ایک ایک پل کو محفوظ بنا لینا چاہیے تھا، یہ کام کوئی مشکل بھی نہ تھا، حمید نظامی کے سبھی قریبی ساتھی موجود تھے۔ مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے ارکان بھی بہت کچھ جانتے تھے، اخبار کے کارکنوں کی آنکھوں میں ان کی زندگی کا ہر گوشہ محفوظ تھا۔ان سیاستدانوں کی فوج ظفر موج بھی حکومت اور اپوزیشن میں موجود تھی جن سے حمید نظامی کا واسطہ پڑا، دولتانہ سے پوچھا جا سکتا تھا کہ حضور! آپ نے قائد اعظم کی ہدائت پر جاری کئے جانے والے اخبار کے گلے پر چھری کیوں چلائی۔ مسلم لیگ کے راہنمائوں سے پوچھا جا سکتا تھا کہ وہ کن انائوں میں گھرے ہوئے ہیں اور اپنے قائد کی پارٹی کا بیڑہ غرق کر رہے ہیں، حمید نظامی اسی ماحول کے دبائو میں تھے اور پھر مسلم لیگی لیڈروں کے لشکر نے ایک فوجی آمر کو سرا ٓنکھوں پہ بٹھا لیا، حمید نظامی کے صبر اور حوصلے کو آزمایا جا رہا تھا ، وہ کیسے برداشت کر سکتے تھے کہ مملکت خداداد کو ایک سے ایک بڑھ کر حریص گدھ نوچ رہا تھا، وہ دل ہار بیٹھے اور خالق حقیقی سے جا ملے، یہ عمر تو بھر پور طریقے سے سرگرم عمل ہونے کی تھی مگر حالات کی سفاکی نے ان کے شیشہ دل کو چور چور کر دیا۔یہ سب کچھ مئورخ کو لکھنا چاہئے تھا مگر کسی نے نہیں لکھا، کیوںنہیں لکھا، یہ ایک قومی جرم ہے، نوائے وقت کے چشمہ فیض سے کون نہال نہیں ہوا مگر کسی نے اس اخبارا ور اس کے بانی ایڈیٹر کی جانگسل جدوجہد کو ریکارڈ پر لانے کی زحمت نہیں کی۔
میں نے پچاس برس قبل پنجاب یونیورسٹی کی لائیبریری کے ایک شیلف پر نظر ڈالی تھی تو اس میںپورے دو خانے گاندھی پر ایک کتاب کی جلدوں سے بھرے ہوئے تھے، ہم وہ قوم ہیں جو اپنے قائد پر ڈھنگ کی ایک کتاب نہیں لکھ پائی اور میں روتا ہوں کہ حمید نظامی کی زندگی پر کسی مئورخ نے قلم نہیں اٹھایا۔
تقریریں ہوتی رہیں گی، دن منائے جاتے رہیں گے، یہ سب کچھ ہوا میں تحلیل ہو جائے گا، لوگ ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکالتے رہیں گے۔ زندہ لوگوں کو حیات دوام سے ہمکنار کرنے کے لئے ان پر سیر حاصل کتابیں لکھی جاتی ہیں اور حمید نظامی صاحب پر اگر اب تک یہ کام نہیں ہو سکا تو میری درخواست ہے جناب ڈاکٹر مجید نظامی سے کہ وہ اپنی نگرانی میں ایک بورڈ تشکیل دیں، پہلے اپنے بھائی پر کتابیں لکھوائیں اور پھر اپنی زندگی کو صفحہ قرطاس پر لانے کا کام مکمل کروائیں۔
ہمارے سامنے اسی پنجاب یونیورسٹی میں ایک ادارہ معارف اسلامی تشکیل پایا اور اس نے دیکھتے ہی دیکھتے اسلامی انسائیکلو پیڈیا کا ایک انبار لگا دیا۔پنجاب یونیورسٹی میں حمید نظامی چیئر پر اب ڈاکٹر اجمل نیازی براجمان ہیں ، وہ خود قلم پکڑیں، ہمیں کان سے پکڑ کر وہاں بٹھائیں اور وہ کام کر دکھائیں جو پچھلی نسلیں نہیں کر سکیں، حمید نظامی اور مجید نظامی کا قرض ہمیں مل جل کر اتارنا چاہئے۔