اسلام آباد واقعہ سے ظاہر ہو گیا طالبان کا دیگر گروپوں پر کنٹرول ختم ہو رہا ہے : امریکی جریدہ
کراچی (نوائے وقت رپورٹ) امریکی جریدہ ’’فارن پالیسی‘‘ نے لکھا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ امن معاہدے کی پاکستانی کوششوں نے عسکریت پسندوں کے نیٹ ورک کو بے نقاب کردیا ہے۔اسلام آباد میں کچہری واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان کی دیگر گروپس پر گرفت ختم ہوتی جارہی ہے۔ جریدہ لکھتا ہے کہ خیبر پی کے کے پولیس سربراہ کے مطابق صوبے میں عسکریت پسندوں کے نو گروپ سرگرم ہیں،وفاقی وزیر داخلہ کے مطابق 37عسکریت پسند گروپ سرگرم ہیں۔ پاکستانی حکومت کے ساتھ جیسے ہی مذاکرات شروع ہوئے تو کئی دیگر عسکریت پسند گروپوں نے طالبا ن کے نام پر کارروائیاں شروع کردیں جس کی کئی وجوہ ہیں ،ان میں گروہی اور انفرادی مفادات ،قبائلی وابستگیاں،فرقہ وارانہ خیالات، القاعدہ یا دیگر غیر ملکی گروپوں سے الحاق ہے ، ان کے لئے بھتہ خوری ،اغوا برائے تاوان اور سمگلنگ ذریعہ آمدنی ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال کراچی میں دیکھی جاسکتی ہے۔کراچی میں طالبان کے چار دھڑے بھتے اور شہر کے مختلف علاقوں پر کنٹرول کیلئے جھگڑ رہے ہیں۔ان میں مہمند کے عبدالولی عرف عمر خالد ، موجودہ طالبان کے سربراہ فضل اللہ کے حمایتی سوات سے عسکریت پسند اور وزیر ستان کے دو گروپ حکیم اللہ محسود اور ولی الرحمن محسود کے طالبان گروپ ہیں۔ حکیم اللہ اور ولی الرحمان گروپوں کے درمیان لڑائی شدید تر ہے اور شہر کے مختلف علاقوں میں رقم کی وصولی کے دوران دونوں اطراف سے کئی افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیاگیا۔ مالی مفادات کے علاوہ غیرملکی تنظیم القاعدہ سے وابستگی والے عسکریت پسند گروہ پاکستان کی حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے ہیں اور جوہری ہتھیاروں پر قبضہ چاہتے ہیں۔عمر خالد خراسانی جس کا اصل نام عبدالولی ہے اس کاگروپ حکومت سے مذاکرات کا حامی نہیں وہی 23 سکیورٹی فورسز کی ہلاکت کا ذمہ دار ہے۔ وہ امن مذاکرات کو سبوتاژکرنا چاہتا ہے۔ القاعدہ اور اسامہ کا حامی ہے۔ 2013ء میں اس نے حکومت کے ساتھ امن مذاکرات پر طالبان کمانڈروں کو خبردار کیا تھا کہ وہ اس کا حامی نہیں اگر کسی طالبان کمانڈر نے ایسا کیا تو وہ خود ذمہ دار ہو گا۔ یہی گروپ اسلام آباد کے کچہری واقعے میں ملوث ہے۔ جریدے نے ذرائع کے حوالے سے لکھا کہ تحریک طالبان پاکستان کے موجودہ سربراہ ملا فضل اللہ پاکستانی حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کے خلاف ہیں۔انہوں نے بامعنی خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور عمر خالد خراسانی کو استعمال کر رہے ہیں۔ امن مذاکرات کے دوران ' میجر مست گل بریگیڈ ' کے نام سے ایک معمولی عسکریت پسند گروپ نے پشاور اور کوہاٹ کے شہروں میں کئی حملوں کا دعویٰ کیا ہے۔ خان عرف سجنا گروپ امن مذاکرات کا حامی جبکہ حکیم اللہ محسود گروپ مخالف ہے۔ وزیر ستان سے تعلق نہ ہونے کی وجہ سے محسود طالبان ملا فضل اللہ کی تقرری سے خوش نہیں۔ شمالی وزیر ستان میں گزشتہ دو ماہ میں طالبان نے ایک دوسرے کے کئی حامیوں کو قتل کیا ہے۔ عصمت اللہ شاہین کی ہلاکت بھی انہی میں سے ایک ہے۔