ایم او یو سائن کی بجائے اب کام شروع کیا جائے
اے این سی دبئی گڈانی پاور پارک میں 1320 میگاواٹ کے دو پاور پلانٹ قائم کرنے کے لئے ایم او یو پر دستخط ،جبکہ سندھ حکومت نے بھی 2630 میگاواٹ بجلی کے نجی منصوبوں اور تھرکول پاور کی منظوری بھی دے دی ہے۔ وزیراعظم میاں نوازشریف نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے لے کر اب تک چین، ترکی، دبئی اور دیگر ممالک کی کمپنیوں سے توانائی بحران پر قابو پانے کے لئے ایم او یو پر دستخط کئے ہیں جو مسلسل کئے جا رہے ہیں لیکن ابھی تک حکومت نے ایک یونٹ بجلی بھی پیدا نہیں کی۔ معاہدے کرنا بھی اچھی بات ہے لیکن اب معاہدوں کو عملی شکل بھی دینی چاہئے تاکہ عوام بجلی بحران کی مصیبت سے چھٹکارا پا سکیں اور ہماری فیکٹریاں، کارخانے چلنے شروع ہو جائیں۔ عوام بجاطور پر تشویش کا اظہار کررہے ہیں کہ ان مجوزہ منصوبوں کا حشر بھی رینٹل پاور منصوبوں جیسا ہو، گڈانی پاور پارک میں 1320 میگاواٹ کے دبئی نے دو پاور پلانٹ قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ سندھ حکومت نے بھی 2630 میگاواٹ بجلی کے منصوبو ں کا اعلان کیا ہے جبکہ چین نے بھی 22 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کا معاہدہ کیا ہے ہماری ملکی ضرورت صرف 18 سے 20 ہزار کے قریب ہے، اگر یہ بجلی ہمارے سسٹم میں آ جاتی ہے تو ہم توانائی بحران سے مکمل طور پر چھٹکارا پا سکتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ بجلی ہمارے سسٹم میں کب آئے گی ؟ حکومت اب معاہدے کرنا چھوڑ کر ان کمپنیوں کو کام کرنے کا موقع فراہم کرے۔ اگر یہ کمپنیاں ابھی سے بجلی پر کام شروع کریں گی تو کم از کم 2 سے تین سال تک یہ بجلی ہمارے سسٹم میں آنا شروع ہو گی۔ حکومت ان کمپنیوں کو سکیورٹی دے اور انہیں ایک سازگار ماحول فراہم کر کے کام شروع کرنے کا کہا جائے تاکہ ہمارا ملک جلد از جلد اس بحران سے چھٹکارا حاصل کر سکے۔