مذاکرات اور دہشت گردی ساتھ ساتھ کب تک؟
وزیراعظم نواز شریف نے طالبان سے مذاکرات کرنے کے لئے قائم کی جانے والی حکومتی کمیٹی کو تحلیل کرکے نئی کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے جو طالبان سے براہ راست مذاکرات کرے گی۔طالبان اور حکومتی کمیٹی کی جانب سے وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کے دوران طالبان کمیٹی کے رکن مولانا سمیع الحق نے مطالبہ کیا کہ حکومت کی موجودہ کمیٹی کو تحلیل کرکے ایک نئی بااختیار کمیٹی بنائی جائے جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو شامل کیا جائے۔ جس پر وزیر اعظم نے رضا مندی کا اظہار کرتے ہوئے حکومتی کمیٹی کو تحلیل کرکے نئی مذاکراتی کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے تاہم موجودہ کمیٹی کے تمام اراکین کو بھی مشاورت میں شامل رکھا جائے گا۔حکومت کی جانب سے طالبان سے مذاکرات کیلئے نئی بنائی جانے والی کمیٹی میں وفاقی حکومت، خیبر پختونخوا اور فوج کا ایک ایک نمائندہ شامل کیا جائے گا جب کہ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان فوکل پرسن ہوں گے، حکومت کی نئی کمیٹی کے اراکین کی حتمی تعداد کا اعلان بعد میں کیا جائے گا، کمیٹی طالبان کی سیاسی شوریٰ سے براہ راست مذاکرات کرے گی۔
کمیٹیوں کے با اختیار ہونے کی بات کوئی اور کرے تو کرے مولانا سمیع الحق کریں تو عجیب محسوس ہوتا ہے۔حکومتی کمیٹی جب چاہتی وزیراعظم سے ملاقات کرسکتی تھی۔طالبان کمیٹی نے میرانشاہ جانے کیلئے سرکاری ہیلی کاپٹرز فراہم کرنے کی خواہش ظاہر کی تو حکومتی کمیٹی نے انہیں دلا دیا۔ دوسری طرف طالبان کمیٹی کئی کئی روز طالبان سے رابطوں کی منتظر رہتی تھی۔طالبان کمیٹی نے بارہا حکومت اور طالبان کو سیز فائر کیلئے خدا کے واسطے دئیے۔ حکومتی کمیٹی کو حکومت سے ایسی اپیل کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ مولانا سمیع الحق نے میڈیا میں حکومتی کمیٹی میں مقتدر قوتوں اور فوج کے نمائندہ کی شمولیت کی بھی بات کی تھی۔ مجوزہ کمیٹی میں مبینہ طورپر فوج کو شاید اسی مطالبے کے پیش نظر نمائندگی دی جارہی ہے۔ تحلیل شدہ کمیٹی کے سینئر رکن عرفان صدیقی نے فوج کو مذاکرات میں شامل کرنے سے انکار کیا تھا جبکہ وزیراعظم اس مطالبے کو پذیرائی بخشتے نظر آرہے ہیں۔ پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے بات چیت میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا کہ فوج حکومت کے ماتحت ہے اور حکم کی پابند ہے اسے طالبان کے ساتھ مذاکرات میں شامل کیا گیا تو نئی تاریخ رقم ہوگی۔ فوج کو ہزاروں پاکستانیوں کے قاتلوں کے ساتھ بٹھانا ستم ظریفی ہوگی۔
پختہ کار سیاستدان سے حکومتی کمیٹی کو با اختیار بنانے اور اس میں فوج کی نمائندگی کا مطالبہ کرنے کی توقع نہیںکی جاسکتی اور وزیراعظم نے جس طرح سے من و عن مطالبہ مان کر حکومتی کمیٹی تحلیل کردی اسے بھی سیاسی سوجھ بوجھ کی معراج قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس سے وزیراعظم نے اپنی ہی کمیٹی کو بے اختیار تسلیم کرکے اس کی توہین کی ہے، اگر کوئی سمجھے تو۔ البتہ سمیع الحق اگر سیاستدانوں یا پارلیمنٹرینز پر مشتمل کمیٹی کی تشکیل کا مطالبہ کرتے تو بجا تھا تحلیل ہونیوالی کمیٹی وزیراعظم کی ہدایات پر عمل پیرا رہی اور ان کو ہی رپورٹ پیش کرتی تھی نئی مجوزہ کمیٹی کا طریقہ کار بھی یہی ہوگا۔ وزیراعظم نے شاید خیر سگالی کیلئے مولانا سمیع الحق کے بے جا مطالبات تسلیم کرکے حکومتی کمیٹی تحلیل کردی۔ کمیٹیوں کی تحلیل اور تشکیل سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔مذاکرات کی کامیابی کیلئے فریقین کی نیک نیتی ضروری ہے۔حکومت نے 6ماہ مذاکراتی پیشکشوں میں لگادئیے ایک ماہ تک مذاکرات بھی جاری رہے۔ان کا کیانتیجہ سامنے آیا؟ مذاکرات کی ناکامی و کامیابی بہت آگے کا سوال ہے ابھی تو سنجیدگی سے مذاکرات کا آغاز بھی نہیں ہوا۔ مولانا فضل الرحمن کہتے ہیں کہ مذاکرات کے نام پر حکومت طالبان سے اور طالبان حکومت سے مذاق کر رہے ہیں۔بلاشہ اگر یہ مذاق ہے تو سفاکانہ مذاق ہے۔
رپورٹس کے مطابق طالبان اب براہ راست مذاکرات میں شامل ہوں گے۔اس کا بھی فائدہ تب ہے کہ دہشت گردی کی کارروائیاں مکمل طورپر رُک جائیں ۔کالعدم ٹی ٹی پی نے سیز فائر کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ تمام شدت پسند گروپ مولوی فضل اللہ کی بات مانتے ہیں ہر گروپ کارروائیاں روک دے گا لیکن یہ محض ایک خواب ہی رہا گزشتہ روز کرم ایجنسی میں فورسز پر حملے میں 6 سکیورٹی اہلکار جاں بحق،10زخمی ہوگئے۔آج دہشت گردوں نے دو خاصہ داروں کو قتل کردیا۔وزیراعظم وزیراطلاعات اور دیگر وزرائے کرام متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ دہشت گردی اور مذاکرات ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔اس کا مطلب سمجھنے کا ہے نہ سمجھانے کا۔ دہشت گردی ہورہی ہے اور مذاکرات بھی ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ذمہ داری قبول کرنیوالوں میں کبھی قصہ پارینہ بنی شدت پسند تنظیم سامنے آتی ہے۔کبھی نئے نئے ناموں کے ساتھ سامنے آنیوالی تنظیموں سے یہ ذمہ داری قبول کرائی جاتی ہے جو آخر میں یہ کہنا ضروری سمجھتی ہیں کہ ان کا طالبان سے تعلق نہیں ہے۔مذاکرات کی میز پر بے اختیار قسم کی برائے نام کمیٹی بٹھانے والے شدت پسند سفاکانہ حملوں کی مذمت بھی نہیں کرتے جن میں خواتین تک قتل کردی جاتی ہیں۔حکومت کو یہ بھی تعین کرلیناچاہئے کہ جن سے وہ مذاکرات کرنے کیلئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے حتیٰ کہ فوجیوں اور سویلینز کی لاشیں گرنے کا سلسلہ تیز ہوگیا ہے وہ لوگ آن گرائونڈموجود بھی ہیں یا صرف میڈیا میں ہی خود کو طاقتور باور کرارہے ہیںجبکہ کوئی دوسرا گروہ چپکے سے پاکستان کے اندرونی و بیرونی دشمنوں کے ایجنڈے کی تکمیل کر رہا ہے۔اس کیلئے بھی بہترین پلاننگ اور لائحہ عمل کی ضرورت ہے۔ہماری حکومت اور متعلقہ ادارے شاید اس اہلیت سے تہی دست ہیں تبھی اسلام آباد کچہری جیسا اندوہناک واقعہ ہونے کے بعد یہ ہوش میں آتے ہیں۔
وزیراعظم نواز شریف نے طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے حکومتی اور طالبان کی کمیٹیوں کے اراکین کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہنا تھا کہ دونوں کمیٹیوں کی مسلسل کوششوں کی وجہ سے مذاکرات کے سلسلے کو آگے بڑھانے میں مدد ملی ہے، کوشش ہو گی کہ فوجی آپریشن کی نوبت نہ آئے اور معاملات خوش اسلوبی سے حل ہو جائیں۔ وزیراعظم نجانے کمیٹیوں کے کس کارنامے پر تحسین کر رہے ہیں۔
حکومت نے امن کو آخری بار موقع دینے کے نام پر بار بار یہ عمل دہرایا، نئی کمیٹی کی تشکیل بھی امن کو ایک اور موقع دینے کے مترادف ہے۔ آخر یہ سلسلہ کب تک چلے گا؟ مذاکرات اور دہشت گردی ساتھ ساتھ نہ چلنے کا عزم دہرانے کے باوجود عملاً ایسا ہورہا ہے۔ شدت پسند روزانہ کی بنیاد پر دہشت گردی کرتے ہیں بڑے واقعہ پرحکومت تھوڑی دیر کیلئے منہ بسورتی ہے اور پھر مذاکرات مذاکرات کا راگ الاپنے لگتی ہے۔ 23 فوجیوں کے گلے کاٹے جانے کے بعد تو مذاکرات کا کوئی جواز ہی نہیں تھا اور پھر سیز فائر کے بعد کے واقعات سے تو رہی سہی کسر بھی پوری ہوگئی تھی لیکن حکمران شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کیلئے اس قدر ریشہ خطمی ہوئے جارہے ہیں کہ ان کے مطالبے پر اپنی کمیٹی بھی تحلیل کردی نئی کمیٹی کی تشکیل کیلئے بھی کیا حکمران طالبان سے ہی مشاورت کریں گے؟
حکومت نے امن کو بار بار موقع دے کر اپنے شہریوں کو مسلسل ہلاکت میں ڈالا ہوا ہے اب یہ امن کو آخری موقع ہوناچاہئے اس دوران کوئی سفاکیت ہوتو مذاکرات کا دروازہ بند کرکے وہی کچھ کیاجائے جس کا فیصلہ حکومت اور فوج نے بند دروازہ کے پیچھے کیا تھا جس پر عمل سے قبل امن کو ایک اور موقع دیدیا گیا۔