جمعۃ المبارک‘ 5 ؍ جمادی اوّل 1435ھ‘ 7؍ مارچ 2014ء
وینا ملک کا سیاست میں آنے اور اسلامیات میں ایم اے کرنے کا اعلان۔
یہ بات تو طے ہے کہ شادی کے بعد اب وینا ملک اداکاری اور شوبز کی دنیا سے قطع تعلق کر چکی ہیں، ہم تو سمجھے تھے کہ ’’چھٹتی نہیں ہے منہ کو یہ کافر لگی ہوئی‘‘ مگر اب وینا ملک کے ٹی وی انٹرویو کو دیکھ کر مستقبل کے حوالے سے ان کے بیانات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم اس بات کے قائل ہو گئے ہیں کہ منہ کو لگی ’’ کافر‘‘ چھوڑی بھی جاسکتی ہے۔ شائد اس میں مولانا طارق جمیل کی کسی پھونک کا بھی کوئی عمل دخل ہو۔ اب وینا نے اسلامیات میں ایم اے کرنے کا جو اعلان کیا ہے اس کے لئے ہم دعاگو ہیں کہ وہ اس میں کامیاب رہیں۔ رہی بات سیاست کے میدان میں آنے کی تو انہوں نے بیک وقت دو متحارب قوتوں کے ساتھ راہ و رسم بڑھانے کی انہوں نے کہ ’’ نوازشریف اچھے سیاستدان ہیں ‘‘کا ڈائیلاگ مار کر مسلم لیگ (ن) میں اپنی جگہ بنانے کی راہ ہموار کرلی ہے اور ساتھ ہی شیخ رشید کی دعوت چائے بھی قبول کر لی، اس سے ان کے سیاستدان ہونے کا اندازہ ہو رہا ہے کیونکہ یہ ایک تیر سے دو شکار والی بات ہے ۔یہ تو شکر ہے ابھی وینا نے عمران خان اور بلاول بھٹو کی تعریف نہیں کی اور وہ چاروں طرف سے حمایت اور مخالفت کے نرغے میں آ کر ایک روز ’’قہر درویش برجاں درویش‘‘ والی بات درست ثابت کرتے ہوئے ’’سیاست چھوڑ دی میں نے‘‘ گاتے ہوئے اپنے میاں کے ہمراہ واپس امریکہ بھی سدھار سکتی ہیں اس لئے فی الحال انہیں پھونک پھونک قدم رکھنا ہو گا۔
٭٭٭٭٭
نیویارک ٹائمز نے 161 برس قبل شائع ہونے والے ایک غلط لفظ کی تصحیح کر دی !
کہتے ہیں غلطی کا جب بھی احساس ہو اسے تسلیم کرکے درست کر لینا چاہئے اسی میں انسان کی بڑائی ہے مگر ہم نے دیکھا ہے کہ جو اپنی غلطی پر اَڑ جائیں وہ ہم جیسے غلطی تسلیم کرنے والوں کی نسبت زیادہ آرام محسوس کرتے ہیں اور بڑے دھڑلے سے اپنی غلطی کو درست ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں۔ یہ میں نہ مانوں والی ہٹ دھرمی ہی ان بے وقوف لوگوں کی بے وقوفی کا سارا حُسن ہوتا ہے کیونکہ جاننے والے واقف کار جانتے ہیں کہ یہ حضرات غلط ہیں ان کی دیدہ دلیری دیکھ کر کچھ تو لطف لیتے ہیں اور کچھ لوگ دل جلاتے ہیں۔ اب نیویارک ٹائمز کی اعلیٰ ظرفی دیکھ کر ہمارا بھی جی چاہتا ہے کہ ہم بھی اپنی ان سابقہ غلطیوں کا اعتراف کر لیں جو ہم سے سرزد ہوئیں مگر ہم نے ان پر معذرت کرنے کی بجائے ان کو بزورِ دلائل درست ثابت کرنے کی ہمیشہ کوشش کی اور ہمارے دوستوں اور احباب نے بھی کمال شفقت سے کام لیتے ہوئے، درگز کرتے ہوئے ہمارے بودے دلائل پر طوہاً و کرہاً سر تسلیم خم کیا۔ اب نیویارک ٹائمز نے ہمارے اندر کی آنکھ کھول دی ہے اور ہمارے سوئے ہوئے ضمیر کو بیدار کر دیا۔ اب دیکھنا ہے بحیثیت پاکستانی ہم کب اپنی غلطیوں کو تسلیم کرکے ان کی اصلاح کرتے ہیں۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
جوہر ٹائون میں غربت اور فاقوں سے تنگ ماں نے 2 بچے مار ڈالے!
اب معلوم نہیں اس بدنصیب عورت کو ڈائن کہیں یا قاتلہ کیونکہ ابھی تک وہ اسی بات پر اصرار کر رہی ہے کہ اس نے غربت کے باعث اپنے بچے مارے ہیں۔ یہ کسی جھونپڑی یا تنگ و تاریک گلیوں میں کسی سیلن زدہ کمرے میں رہنے والی فاقوں اور بیماریوں سے ماری عورت کا قصہ نہیں بلکہ جوہر ٹائون میں بسنے والی ایسی خاتون کا المیہ ہے جو ایک کنال کے گھر میں اپنے شوہر اور سُسرال کے ساتھ رہتی ہے۔ کیا اس نکھٹو شوہر کے گھر والے بھی اتنے ظالم اور سنگدل تھے کہ انہیں 8 ماہ کے یوسف اور 2 سال کی مناہل کے بھوک سے بلکنے پر بھی ترس نہ آیا؟ اگر ایسا ہی تھا تو اچھا تھا اس بدنصیب لڑکی کی شادی ہی نہ ہوتی اس گھر میں۔ یہ بڑی عبرت کی بات ہے ان کیلئے جو لوگ مال و دولت دیکھ کر بیٹوں کو اچھے مستقبل کے لالچ میں بیاہ دیتے ہیں اور لوگوں کے کردار اور خاندان کی تحقیقات نہیں کرتے، روپیہ پیسہ، شکل صورت ہی سب کچھ نہیں ہوتا ۔ اگر بچوں کے باپ نے انہیں اپنا تسلیم کرنے سے انکار کیا تو کوئی بھلا اس سے پوچھے کہ وہ خود کون سا نجیب الطرفین ہے۔ اب عدالت دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر کے انصاف کرے۔ ہماری ایسے تنگ دست والدین سے اپیل ہے کہ وہ ایسے بچوں کو صبر کے ساتھ اپنی آغوش میں ہی رکھیں یا پھر ایدھی سنٹر یا یتیم خانے میں ڈال دیں مگر زندگی سے محروم نہ کریں کیونکہ قبر کی آغوش ماں کی آغوش کا نعم البدل نہیں ہوتی۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
دنیا کی سب سے معمر جاپانی خاتون نے 116ویں سالگرہ منائی !
پہلے زمانے میں کہا جاتا اور دعا دی جاتی ’’جیو ہزار برس‘‘ اب ہم اتنی طویل زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتے تاہم قابل تحسین ہے 116ویں سالگرہ منانے والی جاپانی خاتون جن کے پاس دنیا کی طویل العمر خاتون ہونے کا اعزاز بھی ہے اور وہ ہنستے مسکراتے اپنی سالگرہ کا کیک کھا رہی ہیں۔ ہماری تو دعا ہے ہمارے ملک کے لوگ بھی اسی طرح ہنستے مسکراتے اپنے پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں کے ساتھ ’’ہیپی برتھ ڈے ٹو یو‘‘ والا گیت گنگناتے اپنی سالگرہ منانے نظر آئیں مگر ہمارے ہاں ناقص خوراک، مضر صحت پانی اور آلودہ فضا نے ہمیں زندگی کی لمبی اننگ کھیلنے سے روک دیا ہے اور صرف ؎
حسرت ان غنچوں پہ ہے
جو بن کھلے مرجھا گئے
پڑھ کر ہی ہم اپنے سے جُدا ہو جانے والوں کے اہلخانہ کو پرسا دیتے ہیں اور اپنی باری کے منتظر رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو اب 60 سال تک زندگی کو بھی غنیمت سمجھا جاتا ہے اور ہمارے شاعر بھی اس جوانمردگی کے خوف سے ’’اچھا رہا وہی جو جوانی میں مر گیا‘‘ جیسے شعر لکھ کر ہم جیسے بہت سے پاکستانیوں کا دل چھوٹا کرتے ہیں۔ ویسے بھی ہمارے ہاں کے حالات زندگی نے کب زیادہ عرصہ جینے کی تمنا چھوڑی ہے۔ ہمیں خود معلوم نہیں ہوتا کہ کب کہاں ہم خودکش حملہ آور یا ناگہانی دھماکہ کا شکار ہو جائیں اور ’’نجانے کس کی زندگی کی شام ہو جائے‘‘ والی بات درست ثابت ہو جائے۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭