نفاذ شریعت کی آڑ میں نظام خلافت کے خواب
کسی ملک کا دارالخلافہ اس کی حکومت کا آئینہ ہوتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دار الحکومت میں گزشتہ روز حساس ترین عدالتی اور حکومتی مشینری کے مراکز میں جو قیامت صغریٰ چند دہشت گردوں نے بلا کسی روک ٹوک کے برپا کر دی اور پھر اطمینان سے اپنا مشن مکمل کرنے کے بعد متعلقہ دہشت گرد فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے وہ کسی بھی متعلقہ ملک کی حکومت اور انتظامیہ کے منہ پر ایک بہت شرمناک اور سناٹے دار طمانچہ ہے۔ لیکن میرے لئے یہ خبر نہ باعث حیرانی تھی اور نہ ہی باعث تعجب و پریشانی۔ وہ اس لئے کہ کچھ عرصہ پہلے اسی دار الحکومت کے حساس ترین ایک اور علاقہ میں سکندر نامی ایک شخص اور اس کی بیوی نے ملکر ایک بندوق اور ایک پستول ہوا میں لہراتے ہوئے چند ہوائی فائر کر کے دار الحکومت کی پوری انتظامی مشینری کو کئی گھنٹے یرغمال بنائے رکھا تھا۔ اس ٹریجک واقعہ کا مسخرانہ پہلو یہ تھا کہ قانون نافذ کرنے والے کسی ضلعی لیول کے آفیسر کی بجائے وفاقی وزیر داخلہ ماشاء اللہ بذات خود سکندر اور اس کی بیوی کو DISARMکر کے گرفتار کرنے کے اس اہم ’’آپریشن‘‘ کی ’’کمانڈ‘‘ خود کر رہے تھے اور اسلام آباد کے متعلقہ افسران یعنی ایس ایچ او‘ ایس پی ‘ ڈپٹی کمشنر‘ ڈی آئی جی پولیس اور جناب کمشنر بہادر کا کوئی قابل ذکر کردار نہ تھا۔ کچھ اِسی سے ملتا جلتا کردار اسلام آباد پولیس اور انتظامیہ نے اسلام آباد کچہری کے ٹریجک سانحہ کے دوران بھی ادا کیا۔ اس کے نتیجہ میں دہشت گردوں نے عدلیہ انتظامیہ اور مقننہ کو یہ واضح پیغام پہنچا دیا ہے کہ دہشت گردوں کے بازو کتنے طویل ہیں۔ سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ اپنی سیکورٹی کے بارے میں کسی غلط فہمی میں نہ رہیں۔ گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے کے مصداق۔ ممبر قومی اسمبلی جمشید دستی نے ارکانِ پارلیمنٹ کی خواب گاہوں اور شبستانوں کی جو داستانیں تحریری طور پر پارلیمنٹ کے مجاز معزز عہدیداران کے علاوہ میڈیا کو پیش کی ہیں وہ طالبان کی خصوصی توجہ اور شریعت کے مطابق انضباطی کارروائی کیلئے کافی ہیں۔
کچھ ایسے ہی حالات و واقعات کی بناء پر تحریک طالبان پاکستان اپنے اساتذہ کرام جنہیں وہ اپنا روحانی باپ دل و جان سے تصور کرتے ہیں کہ دینی مدارس کی اسلامی تعلیمات سے فیض حاصل کرنے کے بعد نہ صرف فاٹا کے قبائلی علاقوں میں نہ صرف خیبر پختونخواہ اور افغان سرحد کے قریب جوار کی مختلف ایجنسیوں کے علاقہ جات جن میں سوات، دیر، باجوڑ، مہمند اور چترال کے علاقہ جات شامل ہیں بلکہ پورے پاکستان کو موجودہ غیر اسلامی جمہوریت اور غیر شرعی آئین سے نجات دلا کر تطہیر کے عمل سے گزار کر قرآن اور سنت کے مطابق نور حق سے منور کرتے ہوئے قوم پر جنت کے دروازے کھولنا اپنا دینی فریضہ تصور کرتے ہیں۔ سرزمین ِپاکستان پر بھی افغان جہاد میں حصہ لینے والے مجاہدین جن میں کئی ممالک کے جنگجو شامل تھے۔ فاٹا کو اپنی تحریک طالبان پاکستان کا مسکن بنا کر جو کارروائیاں سوات‘ دیر‘ باجوڑ‘ مہمند‘ خیبر ایجنسی کی وادی تیرہ کے علاوہ ہنگو‘ پارا چنار اور شمالی و جنوبی وزیرستان میں اپنا کنٹرول مضبوط کرنے کی صورت میں پاکستان حکومت کو جس چیلنج سے دوچار کر دیا تھا اس کی یاد سے کچھ سبق حاصل کرنا چاہتے تھے۔ لیکن ہم بھول چکے ہیں کہ حصول امن کی خاطر حکومت پاکستان نے عسکریت پسند عناصر سے گزشتہ چند سالوں کے دوران ایک نہیں دو نہیں چار نہیں آٹھ نہیں بلکہ دس بار صلح کی طرف ہاتھ بڑھا کر امن کو ہر بار ایک اور موقع دینے کی خاطر کیا کیا جتن نہیں کئے مگر ہر بار ایک ہی نوعیت کے مزید وقت حاصل کرنے کے حربے استعمال کر کے پاکستان سے دھوکہ دہی اور فریب کا کھیل کھیلا گیا۔ جب بھی پاکستان افواج حرکت میں آ کر دہشت گردوں کے خلاف گھیرا تنگ کرنے لگیں تو فوراً صلح پر آمادگی ظاہر کر کے اپنے آپ کو REGROUP اور تازہ دم کرنے کیلئے وقت حاصل کیا گیا اور پاکستان کے تمام صوبوں خاص طور پر خیبر پختونخواہ‘ سندھ (خصوصاً کراچی) جنوبی پنجاب اور بلوچستان میں اپنے پوشیدہ ٹھکانے اور مقامی ہم خیال دینی حلقوں میں قرآن اور سنت کے مطابق نظام شریعت کے بھیس میں دہشت گردی کو فروغ دینے کے مختلف ذرائع اختیار کئے گئے جن کو مختلف بیرونی ممالک سے ہر طرح کی امداد کے راستے مزید سازشوں کے فروغ کا باعث بنتی گئیں جس کے نتیجے میں آج پاکستان کے طول و ارض میں دہشت گردی کا ایک خوفناک ایسا نیٹ ورک قائم ہوچکا ہے جس نے امن و امان اور لاء اینڈ آرڈر کو پارا پارا کر رکھا ہے۔
گزشتہ ماہ جب دہشت گردی کی مجموعی صورتحال خوفناک حد تک جا پہنچی تو حکومت پاکستان کی طرف سے جوابی کارروائی کا آغاز کیا ہی گیا تھا جس کے نتیجے میں طالبان کے خلاف فضائی کارروائی روکنے کیلئے کبھی اللہ کے واسطے دیئے گے اور کبھی قرآن کے مطابق ثالثی کی اپیلیں کی گئیں۔ تاہم رابطوں کیلئے حکومت اور طالبان کی طرف سے رابطہ کمیٹیاں وجود میں آئیں۔ موجودہ حالات جنگ صفین کی یاد دلاتے ہیں۔ حکومت نے عین اس وقت جب پاکستانی افواج کی حکمت عملی تحریک طالبان پاکستان کے خفیہ ٹھکانوں کی نشاندہی کرکے ان پر غلبہ پانے کے قریب تھے۔ عسکریت پسندوں اور دہشت گردوں کے خلاف جن کی اکثریت کی بیرونی ممالک سے تعلق رکھتی ہے کے خلاف فضائی کارروائی معطل کرنے کا حکم دیکر دوبارہ مذاکرات شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تازہ ترین اطلاع کے مطابق حکومتی اور طالبان کی نامزد مولانا سمیع الحق کمیٹی دونوں اکٹھے وزیراعظم پاکستان سے ملاقات کریں گی۔ شاید یہ کالم شائع ہونے تک یہ اعلیٰ سطحی ملاقات عمل میں آ چکی ہو اور اس طرح کسی نتیجہ خیز مذاکرات سے پہلے ہی تحریک طالبان پاکستان اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ریاست میں ایک سٹیک ہولڈر کا درجہ حاصل کر لیں جو ایک ایسے باغی گروپ کیلئے بہت بڑی کامیابی ہے جو ان سے واپس چھین لینا آسان نہیں ہو گا۔ ٹی پی پی نے پاکستان کے آئین اور پاکستان کی عدلیہ و قوانین کی فاٹا میں عملداری اور تابعداری کو تسلیم نہیں کیا۔ جس خلافت کے نظام کے نفاذ کا طالبان آج مطالبہ کر رہے ہیں وہ اس وقت کسی صوبے عوام کے کسی طبقے یا پارلیمنٹ کے اندر یا باہر کسی سیاست جماعت نے اس کا مطالبہ نہیں کیا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد خلافت کی ایک موومنٹ سامنے آئی تھی لیکن برصغیر کے مسلمانوں نے قائد اعظم کی قیادت میں پاکستان کی صورت میں ایک جدید اسلامی‘ جمہوری فلاحی ریاست کا تصور پیش کیا۔ جس کے لئے نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے چیئرمین جناب ڈاکٹر مجید نظامی ایک روشنی کے مینار کی طرح سرگرم عمل ہیں۔ اگر تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ امن کی تلاش میں سمجھوتے کرتے کرتے حکومت نے کسی مصلحت کے پیش نظر ان کا ترمیم شدہ نظام قبول کر لیا تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا جدید ’’امیر‘‘ یا ’’خلیفہ‘‘ کون ہو گا اور اس نئی ریاست کے جغرافیائی سرحدیں کیا ہونگی کیونکہ ایسی سازشوں کے پیچھے موجودہ سرحدوں میں تبدیلی بھی باہمی مستقل امن کی شرائط میں شامل ہیں۔