• news

گورنمنٹ ویمن یونیورسٹی فیصل آباد کا زیرتعمیر کیمپس

 احمد کمال نظامی
فیصل آباد شہر کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کوآج کل ایک طرف تو ایچ ای سی میں اپنی اپنی رینکنگ پوزیشن بہتر بنانے کی فکر ہے۔ دوسری طرف دنیا کی عظیم درسگاہوں میں اپنا شمار کرانے کی فکر لیکن اس کے باوجود ان اداروں کو گوناگوں مسائل درپیش ہیں۔ فیصل آباد کا سب سے قدیمی تعلیمی ادارہ موجودہ جی سی یونیورسٹی فیصل آباد ہے جس کاآغاز لائلپور شہر کی تعمیر کے ساتھ ہی گورنمنٹ ویمن کالج ماڈل مڈل سکول کی حیثیت سے بیرون کارخانہ بازار اس بلڈنگ میں ہو گیا تھا جو ان دنوں گورنمنٹ ویمن کالج کارخانہ بازار سے موسوم کی جاتی ہے۔ 20ویں صدی کے پہلے عشرے بلکہ انتہائی ابتدائی برسوں میں قائم ہونے والا یہ مڈل سکول اپنے قیام کے دو تین سال بعد میٹرک سکول اور 1914ء میں گورنمنٹ ہائی سیکنڈری سکول بن گیا تھا اور اسے انٹرمیڈیٹ کالج کا درجہ ملتے ہی اسے موجودہ جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کی جگہ میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ یہی ادارہ ترقی پا کر اب گورنمنٹ کالج فیصل آباد یونیورسٹی کا درجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ اور ان دنوں ایک معروف سائنسدان  پروفیسر ڈاکٹر ذاکر حسین اس یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر حسین اس کے چوتھے وائس چانسلر ہیں لیکن وہ پہلے وائس چانسلر ہیں جو وائس چانسلر مقرر ہونے سے پہلے کسی بڑی یونیورسٹی کے ڈین اور اپنے مضمون میں متعدد پی ایچ ڈی سکالر پیدا کرنے کا اعزاز رکھتے ہیں۔ ان دنوں ان کے پاس گورنمنٹ ویمن یونیورسٹی فیصل آباد (گورنمنٹ ویمن کالج مدینہ ٹائون) کے قائم مقام وائس چانسلر کا چارج بھی ہے لیکن ایک بڑے سائنسدان اور معروف پروفیسر ہونے کے باوجود‘ وہ نہ تو جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کیلئے کوئی بڑا اور وسیع تر رقبے پر مشتمل جدید کیمپس تعمیر کروا سکے اور نہ گورنمنٹ ویمن یونیورسٹی فیصل آباد کیلئے اندرون شہر کسی ایسے کیمپس کی تعمیر کروا سکے جس میں خواتین کو مختلف اعلیٰ تعلیمی ڈسپلنز میں تعلیم حاصل کرنے کے مواقع مل سکتے تھے۔ گورنمنٹ ویمن یونیورسٹی فیصل آباد کا کیمپس کھرڑیانوالہ‘ خانوآنہ بائی پاس پر تعمیر ہو رہا ہے لیکن ہر شخص اس زیر تعمیر کیمپس کے حوالے سے یہ ضرور سوچتا ہے کہ شہر کی خواتین کیلئے اس کیمپس میں جا کر مختلف ڈسپلنز میں اعلیٰ تعلیم کا حصول کس طرح ممکن ہوگا اور کیا ایسا ممکن نہیں تھا کہ اندرون شہر سے کسی بڑی درسگاہ کو شہر سے باہر منتقل کرکے اس کے اولڈ کیمپس کو گورنمنٹ ویمن یونیورسٹی فیصل آباد کے کیمپس کے طور پر مختص کر دیا جاتا۔ ایسا بالکل ممکن تھا اور یہ اس طرح ہو سکتا تھا کہ چونکہ جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کیلئے اس کے موجودہ کیمپس کو ناکافی سمجھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ اس بلڈنگ کو اس عظم مادر علمی کے اولڈ کیمپس کے طور پر تو قائم رکھا جا سکتا ہے لیکن ایک ڈیڑھ دہائی کے اندر اندر اسے پنجاب یونیورسٹی لاہور نیو کیمپس کی طرز پر نہر رکھ برانچ کے دونوں کناروں پر‘ ایک طرف کلاس رومز اور لیبارٹری‘ مختلف تعلیمی بلاکوں کی شکل میں اور دوسری طرف طلباء طالبات کیلئے مختلف ہوسٹلز کے علاوہ اساتذہ اور یونیورسٹی کے انتظامی سٹاف کیلئے رہائشی کالونیاں تعمیرکرنا ہو گی۔ یہ منصوبہ موجود تھا اور جی سی یونیورسٹی انتظامیہ کے پاس وافر مقدار میں فنڈز بھی موجود تھے لیکن یونیورسٹی کی انتظامیہ نے نہر رکھ برانچ کے دونوں طرف لگ بھگ 800 ایکڑ اراضی‘ ایگریکلچر ریسرچ انسٹیٹیوٹ کو دے کر اس کے عوض جھنگ روڈ پر اس زرعی تحقیقاتی ادارے سے چار مربع رقبہ جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کے لئے حاصل کر لیا۔ گویا جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کو پنجاب یونیورسٹی کی طرز پر نہر کے دونوں اطراف میں تعمیر کرنے کا جو منصوبہ موجود تھا جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کی انتظامیہ کی دقانوسیت کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ اگر جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کینال کیمپس فیصل آباد کی اس عظیم درسگاہ کے کیمپس کے طور پر تعمیر ہو جاتی تو اس کے موجودہ کیمپس کو گورنمنٹ ویمن یونیورسٹی فیصل آباد کے حوالے کر دیا جاتا۔اب صورتحال ہے کہ حکومت کی طرف سے گورنمنٹ ویمن یونیورسٹی فیصل آباد کے تعمیرکیلئے مزید رقوم کا اجرا کھٹائی میں پڑا ہوا ہے اور جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کا انفراسٹرکچر‘ سابق گورنمنٹ کالج فیصل آباد کے کلاس رومز اور لیبارٹریوں تک سکڑ کر رہ گیا۔ جی سی یونیورسٹی کے تین وائس چانسلر ڈاکٹر آصف اقبال‘ ڈاکٹر طارق زیدی اور ڈاکٹر شاہد محبوب اپنی اپنی اننگز کھیل کر چلے گئے۔ جی سی یونیورسٹی فیصل آباد نے ڈاکڑ ذاکر حسین کی قیادت میں ایک سنگ میل البتہ حاصل کر لیا ہے کہ اس یونیورسٹی سے ایک طرف پی ایچ ڈی سکالر نکلنا شروع ہو گئے ہیں اور دوسری طرف اس میں انٹرنیشنل سائنسی کانفرنسوں کا انعقاد شروع ہو گیا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن