• news

معاشرتی المیہ استاد بے بسی کی تصویر

طاہرہ جبین تاراؔ
انسان جس سے کچھ سیکھے اس کا احترام  فرض ہے ۔اگر سیکھنے والا سکھانے  والے کا  احترام نہیں کرتا تو وہ علم محض۔؛ر ٹا؛ ہے فقط بے معرفت ہے صرف گفتار کی زینت ہے اعمال کا حسن نہیں وہ علم جو عمل سے بیگانہ ہے ایک بے معنی لفظ ہے تمام چیزیں ا نسان خود بناتا ہے مگر معلم انسان بناتا ہے۔ جو لوگ  استاد کا ا حترام کرتے ہیں ان کا علم ان کے لیے نور بن جاتا ہے بالکل اسی طرح جس طرح پانی کا قطرہ سانپ کے منہ میں چلا جائے تو زہر بن جاتا ہے صدف میں داخل ہو جائے تو موتی بن جاتا ہے گویا یہ شاگرد پر منحصر ہے کہ وہ چاہے تو علم کو اپنے لئے نور کا سمندر بنائے اور چاہے تو علم کو غروروتکبر بنا کر ابوجہل بن جائے گویا جو شاگرد استاد کے حضور جھکتا ہے وہی علم کے نور کو پھیلانے کا حقدار قرار پاتا ہے اور جس معاشرے میں استاد کی عزت ہوتی ہے وہ معاشرہ اور قوم فلاح و ترقی پاتی ہے کیونکہ تعلیم دینا پیغمری  پیشہ ہے مگر آج اسی پیغمری پیشے سے منسلک لوگوں کی عزت وحرمت  خطرے سے دوچار نظر آتی ہے مغربی تقلید نے جہاں بہت سی معاشرتی برائیوں کو جنم دیا ہے وہی ہماری  اخلاقی  ا قدار کو بھی متاثر کیا ہے  ا سلام نے واضح طور پر محبت کے ساتھ سختی کا رویہ بھی اپنانے کی تلقین کی ہے کیونکہ میانہ روی  اور توازن ہی انسانی زندگی کو خوبصورت  اور پرسکون بناتے ہیں جہاں ہم میانہ روی  سے دامن کتراتے ہیں بگاڑ پیدا ہوتا ہے دس سال تک بچے کو پیارو محبت سے نماز کی تلقین کی جاتی ہے لیکن دس سال کے بعد سختی کا حکم دیا گیا ہے صرف پیار  ہی پیار بھی بگاڑ پیدا کرتا ہے اور صرف سختی ہی سختی بھی شیرازہ  بھکیر دیتی ہے ہاں پیار اور سختی،سزا و جزا کا عمل ایک ساتھ روا رکھا جائے تو معاشرے میں کبھی بگاڑ اور نظم وضبط کا  فقدان پیدا نہیں ہوتا مگر پچھلے چند سالوں  سے مغرب کی اندھی تقلید کے زیرِاثر تعلیم کے ایوانوںمیںصرف ایک ہی نعرہ کی بازگشت سنائی دے رہی ہے مار نہیںپیار ڈانٹ نہیںپیارجس کی وجہ سے ہمارے مدرسوں،اسکولوںاور کالجوںکا ماحول بگڑ کر رہ گیا ہے اور جب سے اساتذہ  کے خلاف یہ قانون پاس کیا  گیا ہے کہ شاگرد کو مارنے والے کو ایک سال کی قید کی سزا سنائی جائے گی اس قانون نے رہی سہی کسر نکال دی ہے اور استاد جو حیوان سے انسان بناتا ہے بے بس ہو کر رہ گیا ہے۔ کیا والدین کو یہ زیب دیتا ہے کہ اپنے بچوں کے سامنے اساتذہ کی تذلیل کریں افسوس کی بات تو یہ ہے کہ والدین اور انتظامیہ کی شہ کی وجہ سے ڈسپلن کے مذید مسائل پیدا ہورہے ہیں یہ معاشرتی المیہ ہے کہ صورت تو اللہ  نے تخلیق کی ہے مگر سیرت وکردار کی  اگر تشکیل کرنے والے آج توہین اور ذلت کا شکار ہیں اپنے شاگردوں اور ان کے والدین کے سامنے بے بسی وبے چارگی کا شکار ہیںاگر کسی معاشرے میں سیرت و کردار کی تعمیروتشکیل کرنے والوں کی عزت وحرمت  باقی نہ رہے تو معاشرہ زبوں حالی کا شکار ہو جاتا ہے اشفاق احمد کہتے ہیں ایک دفعہ میںاٹلی گیا راستے میںمیرا چالان ہو گیا جب میں کورٹ پہنچا تو جج نے مجھ سے میرا پیشہ پوچھا تو میں نے کہا میں استاد ہوں تو جج سمیت کورٹ  میں موجود تمام لوگ ادب اور احترام سے کھڑے ہو گئے ایک غیر ملک میں استاد کا احترام دیکھ کر میں حیران رہ گیا ‘‘ ہمارے اپنے ملک میںاستاد کی کتنی عزت ہے وہ طشت ازبام ہے۔ اسلام سے روگردانی مت کریں میانہ روی اور توازن اختیار کریں پیار کے ساتھ سختی بھی ضروری ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ مغرب کی اندھی تقلید ہمیں اندھیروں میںدھکیل دے  اور ہم  روشنی کے لئے ترستے رہ جائیں پیغمبری پیشے سے منسلک لوگوں کا احترام ہی ہمارے لئے روشن راستے کا تعین کر سکتا ہے اسی میں ہماری کامیابی کا راز پوشیدہ ہے۔

ای پیپر-دی نیشن