دہشت گردی جاری ہے‘ فضائی کارروائیاں نہیں رکنی چاہئیں: فوجی حکام‘ کسی مجرم کے ساتھ مذاکرات کی میز پر نہیں بیٹھ سکتے: عسکری ذرائع
اسلام آباد (سکندر شاہین+ دی نیشن رپورٹ+ سٹاف رپورٹر) وزیرستان اور دوسرے علاقوں میں اچانک سرجیکل سٹرائیکس روکے جانے کے بعد کی مشکل صورت حال کے تناظر میں جی ایچ کیو راولپنڈی میں کور کمانڈرز کا اجلاس ہوا جس میں پیشہ وارانہ امور پر تبادلہ خیالات کیا گیا۔ آئی ایس پی آر نے اس کانفرنس کے حوالے سے اپنے بیان میں کہا ہے کہ یہ معمول کا ماہانہ اجلاس تھا جس میں مختلف پیشہ وارانہ امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اجلاس میں مختلف پیشہ وارانہ امور پر اظہار خیال کیا گیا اس وقت ملک کی داخلی و خارجی سکیورٹی صورت حال کا جامع انداز میں جائزہ لیا گیا۔ 170ویں کور کمانڈرز کانفرنس آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی صدارت میں ہوئی جس میں کور کمانڈرز کے علاوہ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام بھی موجود تھے۔ اس وقت جبکہ سویلین حکومت امن مذاکرات پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے فوجی تجزیہ کاروں اور انٹیلی جنس ذرائع نے بتایا کہ یہ بات حیران کن ہے سرجیکل سٹرائیکس اس وقت روکے گئے ہیں جب عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر کنٹرول حاصل کیا جا رہا تھا اور سرجیکل سٹرائیکس کی حکمت عملی کامیاب ہو رہی تھی۔ گذشتہ ہفتے تحریک طالبان کے اعلان جنگ بندی کے چند گھنٹوں بعد حکومت نے کوئی دوسری رائے لئے بغیر فاٹا میں سرجیکل سٹرائیکس روک دیں۔ انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق خیبر ایجنسی کے علاقے جمرود میں دہشت گردی کی کارروائی کے جواب میں سرجیکل سٹرائیک کی خصوصی طور پر اجازت لی گئی تھی۔ اس اہلکار کے مطابق شہریوں اور سکیورٹی فورسز پر لگاتار حملوں کے دوران سرجیکل سٹرائیکس روکنے پر مجموعی طور پر فوجی حلقوں اور خصوصاً پاک فوج میں اظہار ناراضی پایا جاتا ہے۔ کچھ اسی طرح کے خیالات کا اظہار کور کمانڈرز کانفرنس میں بھی کیا گیا۔ ان ذرائع کے مطابق آرمی چیف وزیراعظم کو مغربی سرحدوں پر سکیورٹی کی حکمت عملی سے انحراف پر فوج کے تحفظات سے آگاہ کرینگے۔ یہ کامیاب فضائی حملے (سرجیکل سٹرائیکس) پاک فوج اور پاک فضائیہ کی سوچی سمجھی حکمت عملی کا حصہ تھے۔ ان ذرائع کے مطابق سیاسی وجوہات کی بنا پر آپریشن درمیان میں روکنے سے سکیورٹی اہلکاروں کے مورال پر بُرا اثر پڑا ہے۔ وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کے قومی اسمبلی میں اس بیان پر کہ ٹی ٹی پی کے ارکان کی اکثریت ریاست کے مخالف نہیں تبصرہ کرتے ہوئے اس اہلکار کا کہنا تھا کہ اہم اور کلیدی سیاستدانوں کی جانب سے ایسے بیانات زمینی حقائق سے لاعلمی پر مبنی ہیں جنہوں نے زخموں پر نمک چھڑکا ہے۔ اگرچہ حکومت نے ٹی ٹی پی سے امن مذاکرات کی بحالی میں دلچسپی دکھائی ہے، طاقت کے استعمال کے آپشن کا دارومدار کئی اہم باتوں پر ہے۔ شمالی وزیرستان کے 23ہزار افراد سرجیکل سٹرائیکس کے باعث بنوں چلے گئے ہیں، انہیں بے گھر (آئی ڈی پیز) قرار دئیے جانے کا امکان ہے۔ دریں اثناء کورکمانڈرز کی یہ کانفرنس اس وقت ہوئی ہے جب آرمی چیف چند روز قبل یو اے ای کے دو روزہ اہم دورے سے واپس آئے ہیں۔ امریکہ سے سعودی عرب کی 60بلین ڈالر کی دفاعی ڈیل کے بعد وہ جے ایف۔ 17تھنڈر طیاروں کی فروخت کے حوالے سے ان ممالک میں گئے تھے اس بارے میں کور کمانڈرز کانفرنس پر بات نہیں ہوئی اور فاٹا ہی میٹنگ کا اصل اور سرفہرست ایجنڈا تھا۔ اسلام آباد سے سٹاف رپورٹر کے مطابق شرکائے کانفرنس نے پیشہ وارانہ امور پر تفصیل سے غور کیا۔ ملک کی داخلی اور بیرونی سلامتی کے امور بھی تفصیل کے ساتھ زیرغور آئے۔ آئی ایس پی آر کے چند سطری بیان میں کانفرنس کی کارروائی کی مزید تفصیل نہیں بتائی گئی تاہم دیگر ذرائع کے مطابق ملک کی مشرقی اور مغربی سرحد پر سلامتی کی صورتحال، قبائلی علاقوں میں امن و امان اور فوج کی زیرنگرانی جاری ترقیاتی منصوبوں پر کام کی رفتار، شدت پسندوں سے حکومت کے مذاکرات میں پیشرفت اور امکانات جیسے امور بھی گفتگو کا موضوع بنے۔
راولپنڈی (آن لائن+ بی بی سی+ نیٹ نیوز) باخبر ذرائع کے مطابق پاک فوج نے واضح کیا ہے کہ وہ طالبان کیساتھ حکومت کے براہ راست مذاکرات میں اگر کسی قسم کی معلومات درکار ہوں تو مکمل تعاون کیلئے تیار ہے لیکن مذاکرات کیلئے نمائندہ نہ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ حساس اداروں کا نمائندہ مذاکرات کا حصہ ہو سکتا ہے، مذاکرات کے دوان دہشت گردانہ سرگرمیاں جاری رہیں تو بھرپور جواب دیا جائیگا۔ ذرائع کے مطابق یہ بات آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی زیرصدارت جنرل ہیڈکوارٹرز میں ہونیوالی 170 ویں کور کمانڈرز کانفرنس میں کہی گئی۔ ذرائع کے مطابق پاک فوج نے طالبان کے ساتھ حکومت کے براہ راست مذاکرات کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ ماضی میں فوج نے جتنے بھی مذاکرات کئے انکے نتائج اچھے نہیں تھے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حساس اداروں کا نمائندہ مذاکرات کا حصہ ہوسکتا ہے تاہم ابھی تک حکومت کی جانب سے فوج کے نمائندے کی مذاکراتی کمیٹی میں شمولیت کے حوالے سے نہیں کہا گیا۔ ذرائع کے مطابق عسکری قیادت سمجھتی ہے کہ مذاکرات کرنا یا نہ کرنا حکومت کا فیصلہ ہے اور اسے ہی اس عمل کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہئے۔ فوج اگر کسی قسم کی معلومات کی ضرورت پڑتی ہے تو حکومت کیساتھ مکمل تعاون کریگی، فوج کا کام دفاع ہے اسلئے وہ ان مذاکرات کا حصہ نہیں بننا چاہتی۔ کور کمانڈرز نے شمالی وزیر ستان میں حاصل ہونیوالے اہداف پر کا جائزہ لیا اور اطمینان کا اظہار کیا اور اس عزم کا اعاد ہ کیا گیا کہ اگر دہشت گردوں کی جانب سے مذاکرات کے دوان دہشت گردانہ سرگرمیاں جاری رہیں تو بھرپور جواب دیا جائیگا۔ بی بی سی کے مطابق ایک سینئر فوجی افسر کا کہنا ہے کہ کوئی یہ نہ توقع رکھے کہ فوج کسی مجرم یا قاتل کیساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ جائیگی۔ فوجی ذرائع نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ پاکستانی فوج کو امن کے قیام کیلئے شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات میں براہ راست شامل کرنے کے سوال پر پاکستانی میڈیا میں بحث عروج پر ہے لیکن اس موضوع پر فوجی اور سول قیادت کے درمیان ابتدائی مشاورت بھی نہیں ہوئی۔ اجلاس کی کارروائی سے واقف ایک سینئر فوجی افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ فوج کسی بھی تجویز پر غور کرنے کیلئے تیار ہے لیکن اس کیلئے کسی ایسی تجویز کا باضابطہ فورم پر موجود ہونا ضروری ہے۔ اس سینئر فوجی افسر نے بتایا کہ ’فوج کے اندر غیررسمی انداز میں اس سارے معاملے پر بحث ہوتی رہتی ہے۔ ممکن ہے کور کمانڈرز کے اجلاس میں بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات پر بات ہوئی ہو لیکن اس پر فیصلہ صرف اسی وقت لیا جائیگا جب کوئی تجویز باضابطہ طور پر پیش کی جائیگی۔ اس افسر کے بقول فوجی حکام نے ماضی میں بھی شدت پسندوں کے ساتھ معاہدے کئے ہیں لیکن اس وقت بھی اور اب بھی سب سے اہم سوال یہی ہوگا کہ جن لوگوں کے ساتھ فوج نے ایک ادارے کے طور پر بات کرنی ہے وہ کون ہیں۔ اس سینئر فوجی افسر نے کہا کوئی یہ توقع نہ کرے کہ فوج کسی مجرم یا قاتل کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ جائیگی۔