خصوصی عدالت کی تشکیل ‘ ججز کی تعیناتی کیخلاف اعتراضات‘ مشرف کی درخواستیں خارج‘ فرد جرم کے لئے11 مارچ کو طلبی کا حکم برقرار
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ نوائے وقت رپورٹ+ ایجنسیاں) خصوصی عدالت نے سنگین غداری کے کیس میں ججز کے تعصب، خصوصی عدالت کی تشکیل اور ججز کی تعیناتی سے متعلق پرویز مشرف کی اعتراضات پر مبنی تینوں درخواستیں خارج کرتے ہوئے فرد جرم عائد کر نے کےلئے سابق صدر کو گیارہ مارچ کو ہی عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔ جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں خصوصی عدالت کے تین رکنی بینچ نے درخواستوں کی سماعت کی۔ خصوصی عدالت میں سنگین غداری کیس کے ملزم پرویز مشرف نے ججز کے متعصب ہونے، مقدمہ کے اندراج کے طریقہ کار، عدالت کی تشکیل اور ججز کی نامزدگی سے متعلق درخواستیں دائر کی تھیں۔ پرویز مشرف کی درخواستوں پر ان کے وکلا انور منصور خان اور خالد رانجھا نے قریباً پونے دو ماہ تک دلائل دئیے اس کے جواب میں استغاثہ کے سربراہ اکرم شیخ ایڈووکیٹ نے دلائل دئیے، خصوصی عدالت نے 18 فروری کو سماعت مکمل ہونے کے بعد ان درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ اور اب خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس فیصل عرب نے سابق صدر پرویز مشرف کی اعتراضات پر مشتمل درخواستوں کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں خارج کردیا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پرویز مشرف کی درخواستیں میرٹ پر نہیں جبکہ خصوصی عدالت کی تشکیل اور ججز کی تعیناتی درست ہے۔ عدالت نے سابق صدر پر فرد جرم عائد کرنے کے لئے انہیں 11 مارچ کو ہی عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ یہ درخواستیں میرٹ پر نہیں، مقدمے میں کسی اورکو شامل کرنے کے بارے میں فیصلہ شواہد کو دیکھ کر کیا جائے گا۔ دوسری جانب پرویز مشرف کی وکلا ٹیم نے عدالت میں درخواست دائر کی ہے کہ ا±ن کے موکل کی والدہ بیمار ہیں، لہٰذا ا±ن کی تیمارداری کےلئے باہر جانے کی اجازت دی جائے جس پر عدالت نے نوٹس جاری کر دئیے ہیں۔ پرویز مشرف کی بیرون ملک جانے کی درخواست اور عدالت کے غیر محفوظ ہونے سے متعلق اعتراضات پر وفاق نے تفصیلی جواب جمع کرا دیا۔ 6 صفحات پر مشتمل وفاق کا جواب پراسیکیوٹر اکرم شیخ نے جمع کرایا جس میں کہا گیا ہے کہ خصوصی عدالت پرویز مشرف کی درخواست فوری مسترد کرے اور مقدمے کی قانونی کارروائی پوری کی جائے، وفاق نے موقف اختیار کیا کہ پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ کِرمنل لا ترمیمی اسپیشل کورٹ ایکٹ 1976 کے تحت چل رہا ہے، اس ایکٹ کے سیکشن 9 کے مطابق ملزم کی بیماری یاکسی بھی وجہ سے عدم پیشی کی صورت میں ٹرائل ملتوی نہیں کیا جاسکتا، سیکشن 9 خصوصی عدالت کو غیر ضروری تاریخیں دینے سے بھی روکتا ہے، پرویز مشرف کی درخواست تاخیری حربہ ہے، عدالت کے غیر محفوظ ہونے سے متعلق اعتراضات پر وفاق نے کہاکہ پاکستان میں ہر جگہ دہشت گردی ہورہی ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ عدالتیں بند کر دیں، اگر خصوصی عدالت کی کارروائی روک دی گئی تو دہشت گردوں کے حوصلے بڑھیں گے۔ ادھر عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے استغاثہ کے وکلا نے کہاکہ آئندہ سماعت پر مشرف پیش نہیں ہوئے تو عدالت سے ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کی درخواست کی جائے گی۔ پرویز مشرف کے وکلا کا کہنا تھا کہ وہ اس فیصلے کو چیلنج کریں گے۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ خصوصی عدالت کے ججز کی نامزدگی چیف جسٹس نے نہیں کی، ججز کی نامزدگی متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صاحبان نے کی۔ فیصلے میں کہا گیا کہ ججوں کے تعصب کے حوالے سے دلائل میں کوئی وزن نہیں، ایمرجنسی کے نفاذ میں کسی کی مشاورت ثابت ہوئی تو مقدمہ چلانے کیلئے اسے طلب کریں گے۔ فیصلے میں مزید کہا گیا کہ مقدمے میں کسی اور کو شامل کرنے کے بارے میں فیصلہ شواہد دیکھ کر کیا جائے گا۔ آرٹیکل 6 کی تشریح سے متعلق رائے دینا قبل از وقت ہو گا۔ پراسیکیوٹر اکرم شیخ ایڈووکیٹ نے وفاق کی جانب سے سابق صدر پرویز مشرف کی جانب سے بیرون ملک جانے کی درخواست پر جواب جمع کراتے ہوئے کہا کہ سابق صدر کے خلاف خصوصی عدالت میں ٹرائل کریمنل لاءترمیمی سپیشل کورٹ ایکٹ کے تحت چل رہا ہے، ملزم کی بیماری یا کسی اور وجہ سے عدم پیشی پر بھی ٹرائل ملتوی نہیں کیا جا سکتا، خصوصی عدالت ملزم پرویز مشرف کی بیرون ملک جانے کی درخواست مسترد کرے۔ اکرم شیخ ایڈووکیٹ نے غداری مقدمہ میں سابق صدر پرویز مشرف کی جانب سے بیرون ملک جانے کی درخواست پر وفاق کا جواب جمع کرا دیا۔ پراسیکیوٹر کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا کہ مشرف کے خلاف ایکٹ کیس ایکشن 9 کے مطابق ٹرائل کسی صورت ملتوی نہیں ہو سکتا۔ ایکٹ کا سیکشن خصوصی عدالت کو غیر ضروری تاریخ دینے سے بھی روکتا ہے۔ پاکستان میں ہر جگہ دہشت گردی ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ عدالتی کارروائیاں بند کر دی جائیں۔ وفاق نے اپنے جواب میں کہا کہ خصوصی عدالت کی کارروائی روک دی گئی تو دہشت گردوں کے حوصلے مزید بڑھ جائیں گے۔ سابق صدر کی درخواست کا مقصد تاخیری حربہ ہے۔ خصوصی عدالت مقدمہ کی کارروائی قانونی طور پر پوری کرتے ہوئے سابق صدر کی درخواست مسترد کرے۔جسٹس فیصل عرب نے وکلائے صفائی کی جانب سے دائر تین الگ الگ درخواستوں کے بارے میں27 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ پڑھ کر سنایا اورمزید سماعت ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ سابق صدرکے وکلاءخصوصی عدالت کے ججوں کے خلاف تعصب کو ثابت نہیں کر سکے۔ عدالت پراسیکیوٹر کی تقرری سے متعلق فریقین کے دلائل آئندہ سماعت پر سنے گی۔ عدالت نے واضح کیا تین نومبر 2007ءکو ایمرجنسی کے نفاذ کے فیصلے میں سول اور فوجی حکام کی مشاورت سے متعلق فی الوقت ثبوت محدود ہیں تاہم اگر دیگرکےخلاف ثبوت ملے تو ان کے خلاف بھی آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کی جاسکتی ہے۔ حکومتی شکایت میں صرف فرد واحد پرویز مشرف کے خلاف شواہد اور گواہوں کے بیانات موجود ہیں اور اسی بنیاد پر پرویز مشرف کے خلاف ٹرائل ہو رہا ہے۔
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ نوائے وقت رپورٹ) پرویز مشرف کے وکیل فیصل چودھری نے خصوصی عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہی عدالتی فیصلہ متوقع تھا، جائزہ لینے کے بعد اسے چیلنج کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ بادی النظر میں بنیادی قوانین کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ عدالتی تشکیل میں سابق چیف جسٹس کا تعصب شامل ہے ان سے مشاورت کی گئی ہے مگر ہمارے اس پوائنٹ کو نظرانداز کیا گیا ہے فیصلہ شفاف نہیں، مشرف کو غداری کیس میں سنگل آﺅٹ کرتے ہوئے ٹرائل کرنا درست نہیں مگر عدالت نے کہا ہے کہ ان کے خلاف شواہد موجود ہیں اگر تین نومبر کے اقدام میں مشاورت کرنے والوں کے خلاف ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد ملے تو ان کے خلاف بھی کارروائی ہو سکتی ہے۔ ججز تقرری کے معاملے پر بھی ہم نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ دوسری جانب پراسیکیوشن ٹیم نے کہا ہے کہ فیصلہ آئین و قانون کے مطابق ہے مشرف کو گیارہ مارچ کو عدالت میں پیش ہونا پڑے گا ان پر فرد جرم عائد کی جائے گی وہ پیش نہیں ہوتے تو عدالت کے پاس اختیار ہے کہ وہ ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرے۔ خصوصی عدالت کی سکیورٹی پر بارہ سو اہلکار تعینات ہوتے ہیں عدالت قرار دے چکی ہے کہ وہ دھمکیوں سے ڈرنے والے نہیں کیس کی سماعت جاری رہے۔ طارق حسن نے کہا کہ پرویز مشرف پر فرد جرم عائد کرنے کے علاوہ عدالت کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں سکیورٹی اور کبھی دھمکی آمیز خط کے بہانے بنا کر ٹرائل میں تاخیری حربے استعمال کئے جا رہے ہیں، ساری درخواستیں مسترد ہونے کے بعد مشرف کے پاس عدم پیشی کا کوئی جواز نہیں بچتا۔ اکرام چودھری نے کہا کہ کیس ٹرائل کیلئے مکمل تیار ہو چکا ہے مشرف کی حاضری کے علاوہ کوئی چارہ نہیں یہ عدالت محفوظ ہے عدالت کی منتقلی کا فیصلہ ملزم پرویز مشرف کی خواہشات پر نہیں کیا جا سکتا اگر مشرف گیارہ مارچ کو پیش نہ ہوئے تو عدالت ان کے خلاف ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر سکتی ہے اگر مشرف کے وکلاءبھی عدالت میں مقدمے کی پیروی کیلئے پیش نہیں ہوتے تو عدالت کے پاس اختیار ہے کہ وہ ڈیفنس کونسل کو تبدیل کر دے۔ استغاثہ کے وکلا نے کہا ہے کہ اس فیصلہ کے بعد مشرف کو ہر صورت مقدمہ کا سامناکرنا ہوگا گیارہ مارچ کو وہ عدالت میں پیش نہ ہوئے تو ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرائیں گے مشرف کیس میں تمام طریقہ استعمال کر چکے ہیں اب انہیں عدالت میں پیش ہونا ہی پڑے گا مشرف کے وکلاءعدالت میں پیش نہ ہوئے تو خصوصی عدالت مشرف کے لیے وکیل صفائی کا انتظام کر ے گی۔ طارق حسن نے کہا کہ ملزم یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے یہاں پیش نہیں ہونا ہے وہاں پیش نہیں ہونا، ان کا کہنا کہ میں خصوصی عدالت میں پیش نہیں ہوتا کیونکہ یہ نیشنل لائبریری میں ہے۔ یہ سب سے زیادہ محفوظ جگہ ہے لیکن کچھ بھی ہو یہ ان کی مرضی کے مطابق نہیں ہوسکتا، جتنے سیکورٹی کے انتظامات ہو سکتے ہیں وہ کئے گئے ہیں ہر پیشی پر 1100اہلکار سکیو رٹی پر متعین ہوتے ہیں یہ اخراجات عام عوام ہی برداشت کر رہی ہے یہ کہنا کہ ہم اس عدالت میں پیش نہیں ہوں گے اب ان کے پاس کوئی جواز نہیں رہا ان کو ہر حالت پیش ہونا پڑے گا اور اگر نہیں ہوتے تو استغاثہ عدالت سے استدعا کرے گا کہ مشرف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کئے جائیں۔ طارق حسن ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ مشرف کے وکلاءنے یہ درخواستیں خصوصی عدالت میں ہی دائر نہیں کیں بلکہ اسی طرح کی تین درخواستیں اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی دائر کی گئیں اور وہ وہاں سے بھی مسترد ہو چکی ہیں مشرف کے پاس جو بھی راستے تھے وہ انہوںنے استعمال کر لیے ہیں پراسیکیوٹر کی تقرری پر آئندہ سماعت پر بحث ہو گی ان کا کہنا تھا کہ مشرف کی ہر پیشی پر سکیورٹی کا خصوصی انتظام کیا جاتا ہے میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا کہ کسی شخص کے لیے اتنی سکیورٹی تعینات کی جائے، ان کا کہنا تھا کہ ججز بھی تو عدالت میں بیٹھے ہیں، پراسیکیوشن کی پوری ٹیم یہاں آکر بیٹھی ہوتی ہے وکلاءصفائی یہاں ہوتے ہیں عام عوام اور صحافی آتے ہیں ان کے لیے بھی تو خطرہ موجود ہے ان کا کہنا تھا حکومت نے سخت انتظامات کئے ہوئے ہیں۔ جبکہ استغاثہ کے ایک اور وکیل اکرام چودھری کا کہنا تھا کہ اگر کوئی بھی وکیل پیش نہ ہو تو پھر عدالت کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ مشرف کے لیے وکیل صفائی کا انتظام کر ے میرا یہ خیال ہے کہ مشرف کو اس ٹرائل کا سامنا کرنا ہوگا اور قانون کے مطابق ان کے لیے مزید کوئی بہانہ کرنے کا جواز نظر نہیں آتا۔