سینٹ: اتحادیوں کی بھی مخالفت‘ حکومت سروس کمشن ترمیمی بل منظور نہ کرا سکی‘ طالبان کا دفتر کھولنے کی تجویز زیرغور نہیں: وزیر مملکت
اسلام آباد (وقائع نگار+ ایجنسیاں) سینٹ میں حکومت کی جانب سے جسٹس (ر) رانا بھگوان داس کی بطور چیف الیکشن کمشنر تقرری کیلئے فیڈرل پبلک سروس کمیشن آرڈینس میں مزید ترمیم کے بل پر حکومت اور اپوزیشن ارکان نے سخت احتجاج کرتے ہوئے بل کو من پسند افراد کاقانون قرار دے دیا، بل پاس ہونے سے فیڈرل پبلک سروس کمیشن پر حکومتی اثرورسوخ بڑھ جائیگا، ترمیم سے ایف پی ایس سی کی غیر جانبداری متاثر ہو گی، فخرو بھائی کا الیکشن حکیم اللہ محسود کا الیکشن تھا، رانا بھگوان داس اب متنازع ہو چکے لہٰذا حکومت ایف پی ایس سی کی ساکھ اور اعتماد کو دائو پر نہ لگائے، حکومت لاہوری لک ختم کرکے افراد کو سپریم کرنے کی بجائے آئین و قانون کی بالادستی کو یقینی بنائے۔ اپوزیشن کے احتجاج کے باعث پریزائیڈنگ آفیسر نے بل سینٹ کی متعلقہ کمیٹی کو ریفر کردیا۔ وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد کی درخواست پر پریذائیڈنگ آفسیر نے رولز معطل کرتے ہوئے پبلک سروس کمیشن آرڈینس میں مزید ترمیم کا بل قومی اسمبلی سے منظور ی کے بعد ایوان بالا میں پیش کرنے کی قرار داد پیش جس پر اپوزیشن و حکومتی ارکان نے اس کی مخالفت کی۔ پریزائیڈنگ آفیسر نے ایوان کو بتایا یہ بل پیش کرنے کی تحریک ہے بل نہیں ہے لہذا اس کی مخالفت نہ کی جائے۔ بل پر بات کرتے ہو ئے جمعیت علمائے اسلام کے سنیٹر غلام علی نے کہا موجود ہ حکومت چھوٹے صوبوں کو نظر انداز کررہی ہے۔ اس قرار داد اور بل کے پس منظر میں حکومت کی بدنیتی شامل ہے، اس ملک میں جب بھی اشخاص کو طاقت ور بنایا گیا تو نتائج سنگین نکلے۔ بل کو کمیٹی کوریفر کیا جائے، یہ اہم نوعیت کا ایشو ہے اس میں جلد بازی نہ کی جائے۔ سپریم کورٹ نے اس ضمن میں متعدد فیصلے دے رکھے ہیں۔ سنیٹر افراسیاب خٹک نے کہا حکومت نے اس معاملے پر ہم سے مشاورت نہیں کی، فخروبھائی کے انتخابات کے حکیم اللہ محسود کے انتخابات تھے۔ فخرو بھائی بطور چیف الیکشن کمشنر ایک گھنٹہ تک چیف آف آرمی سٹاف سے ملے ملاقات ختم ہونے پر فخرو بھائی نے ان سے کہا جنرل اس ملاقات کے بارے میں اپنے چیف کو بھی بتانا ہے۔ وقت نے ثابت کیا ان کی عمر کی زیادتی نے انہیں درست انداز میں کام نہیں کرنے دیا۔ عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما حاجی عدیل نے کہا اپوزیشن لیڈر اور دیگر لوگ اس بل کے باعث ایوان سے غائب ہیں، ایف پی ایس سی آرڈینس میں ترمیم غلط اقدام ہے اور غلط کو سپورٹ کرنا ضمیر کے خلاف ہے۔ پیپلزپارٹی کارویہ افسوسناک ہے، اب اپوزیشن اس بات کے لئے تیار ہو جائے ہم چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینٹ بدل دیں گے اور ہم ایسا کرکے دکھائیں گے انہوں نے قائد ایوان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا وہ پھانسی کاایک اور پھندا تیارکر رہے ہیں۔ بابر اعوان نے کہا میں چیف الیکشن کمشنر کے لئے رانا بھگوان داس کی سپورٹ کرتا ہوں تاہم طریقہ کار درست نہیں، انہوں نے حکومتی ارکان کی اس بل کی مخالفت کرنے پر کہا ان کے احتجاج کی قانونی حثیت کو چیک کر لیا جائے۔ مشاہدحسین سید نے کہا حکومت کے ہرکام میں لاہور ی لک زیادہ ہے۔ اس قانون سازی سے یہ تاثر ملتا ہے اشخاص زیادہ سپریم ہیں۔ سنیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا اس بل پر اپوزیشن اور حکومت میں واضح تقسیم ہے۔ اس بل پر ابھی بحث ہونی ہے اسے کمیٹی کو ریفرکیا جائے۔ سنیٹر سعید غنی نے کہا یہ چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کا بل نہیں بلکہ یہ تو ایف پی ایس سی کے آرڈینس میں ترمیم کا بل ہے اسے خواہ مخواہ سکینڈل لائز کیا جا رہا ہے۔ سنیٹر عبدالحسیب خان نے کہا یہ انتہائی اہم معاملہ ہے لہٰذا اس بل کو کمیٹی کو ریفر کیا جائے۔ سنیٹر سعیدہ اقبال، سنیٹر عبدالرئوف، محسن خان لغاری نے بل پر بات کرتے ہوئے کہ اس بل کو کمیٹی کو ریفر کیا جائے۔ قائد ایوان راجہ محمد ظفر الحق نے کہا ارکان اس بل کو کمیٹی کو بھجوانا چاہ رہے ہیں توحکومت کو اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ یہ کسی ایک شخص کے لئے ہیں۔ قبل ازیں حکومت کی جانب سے رولز معطل کرکے ایجنڈ ا لینے کی درخواست پر اپوزیشن نے مخالفت کی جس پر پریذائیڈنگ آفیسر کو تحریک پیش کرنے کے معاملے پر رائے شماری کرانا پڑی۔ تحریک پیش کرنے کے حق میں 23جبکہ مخالفت میں 13 ارکان نے ووٹ دیا۔ ثناء نیوز/ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق حکومت اپوزیشن کی مخالفت پر فیڈرل پبلک سروس کمشن ترمیمی بل سینٹ سے منظور کرانے میں ناکام ہو گئی۔ خیبر پی کے حکومت کی جانب سے طالبان کو پشاور میں دفتر کھولنے کی پیشکش پر اپوزیشن نے شدید احتجاج اور واک آئوٹ کیا۔ سینٹ میں اپوزیشن اور حکومتی اتحادی جماعتوں کی مخالفت پر حکومت کسی بھی شخص کو فیڈرل پبلک سروس کمشن کو نظرانداز کرتے ہوئے براہ راست کسی آئینی ادارے میں تعینات کرنے کا اختیار دینے کے بل کو ایوان بالا سے منظور کرانے میں ناکام ہو گئی۔ بل کے تحت سابق چیئرمین فیڈرل پبلک سروس کمشن جسٹس (ر) رانا بھگوان داس کو مستقل چیف الیکشن کمشنر مقرر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ عدالتی مہلت کے تحت مقررہ وقت تک چیف الیکشن کمشنر کی تقرری نہ ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ اپوزیشن اور حکومتی اتحادی جماعتوں جے یو آئی (ف) اور نیشنل پارٹی نے بل کی مخالفت کی اور واضح کیا ملک میں فرد واحد کے لئے قانون سازی کبھی بھی اداروں اور ملک کے لئے سودمند اور دیرپا ثابت نہیں ہوئی۔ عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر حاجی عدیل نے حکومت سے بل سے دستبردار ہونے کا مطالبہ کر دیا۔ جے یو آئی (ف) کے سنیٹر غلام علی خان نے بھی ان کی حمایت کی۔ حکومتی اتحادی نیشنل پارٹی کے سنیٹر لالہ رئوف نے بھی بل کی مخالفت کی۔ سنیٹر غلام علی اور دیگر ارکان نے کہا بل کو عجلت میں کیوں لایا جا رہا ہے بل پر کھلے طریقے سے بحث ہونی چاہئے۔ ایک فرد کے لئے قانون سازی نہ کی جائے ۔ بل پر کمیٹی میں شق وار بحث کی جائے تاکہ یہ ایسا بل ہو جو سپریم کورٹ کے فیصلوں سے ہم آہنگ ہو۔ سنیٹر زاہد خان نے کہا پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا اس معاملے پر اتفاق ہو گیا ہے، چھوٹے صوبوں خیبر پی کے اور بلوچستان سے بھی چیف الیکشن کمشنر لگایا جا سکتا ہے کیوں ہر عہدے پر پنجاب یا سندھ سے تعیناتی کی جاتی ہے، ایسا کام نہ کیا جائے جس سے فیڈریشن کو نقصان ہو۔ سنیٹر افراسیاب خٹک نے کہا اس بل کے بارے میںہم سے مشورہ نہیں کیا گیا۔ مشاہد حسین نے کہا رانا بھگوان داس ایماندار شخص ہیں لیکن فرد کے لئے قانون سازی نہیں ہونی چاہئے، صدر نشین نے کہا کسی شخصیت کا نام بحث کرتے ہوئے نہ لیا جائے، رانا بھگوان داس کا نام اس طرح بحث میں لینا مناسب نہیں، اداروں کی بات کی جائے۔ دریں اثنا عوامی نیشنل پارٹی سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں کے ارکان نے اجلاس سے طالبان کو پشاور میں دفتر کھولنے کی پیشکش پر صوبائی حکومت کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی نہ کرانے پر احتجاجاً واک آئوٹ کیا۔ وزیر مملکت برائے داخلہ انجینئر بلیغ الرحمن نے کہا طالبان کا دفتر کھولنے کی اجازت دینے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں۔ نہ ہی اس طرح کی کوئی تجویز ہمارے سامنے آئی ہے۔ سینیٹر افراسیاب خٹک کے توجہ مبذول نوٹس پر وزیر مملکت برائے داخلہ نے کہا یہ توجہ مبذول نوٹس اخباری بیان پر دیا گیا ہے، طالبان کا دفتر قائم کرنے کی اجازت دینے کے حوالے سے کوئی تجویز زیر غور نہیں، نہ ہی صوبائی حکومت کی طرف سے کوئی تجویز ہمارے سامنے آئی ہے۔ حکومت آئین و قانون کے خلاف کوئی اقدام نہیں کرے گی۔ سینیٹر زاہد خان نے کہا تحریک انصاف اپنے اوپر حملوں کے ڈر سے ایسے بیانات دیتی ہے، خوفزدہ ہو کر اس طرح کے بیانات نہ دئیے جائیں۔ سینیٹر حاجی عدیل نے کہا دہشت گرد تنظیموں کے اس طرح دفاتر نہیں کھولے جاتے، اگر ٹی ٹی پی کا دفتر کھولنا ہے تو باقی دہشت گرد اور کالعدم تنظیموں کو بھی دفاتر کھولنے کی اجازت دینا ہو گی۔ عوامی نیشنل پارٹی سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان نے ایوان بالا کے اجلاس سے واک آئوٹ کیا۔بعدازاں اجلاس غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کر دیا گیا۔ وفاقی وزرائ، وزراء مملکت اور پارلیمانی سیکرٹری کی تعداد ہمیشہ کی طرح کم رہی۔ آئی این پی کے مطابق سینٹ میں پیپلزپارٹی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کو ایوان سے واک آئوٹ مہنگا پڑ گیا، پریذائیڈنگ آفیسر کرنل (ر) طاہر حسین مشہدی نے اپوزیشن کے واک آئوٹ کے دوران اجلاس غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کرنیکا حکم نامہ پڑھنا شروع کیا تو اپوزیشن ارکان دوڑے دوڑے اپنی نشستوں پر واپس پہنچے اور شور مچایا وہ نکتہ اعتراض پر بات کرنا چاہتے ہیں تاہم طاہر حسین مشہدی نے اجلاس کے غیر معینہ مدت تک ملتوی ہونے کا آرڈر پڑھ کر ہی دم لیا۔ پیپلزپارٹی کے سعید غنی، سعیدہ اقبال اور دیگر ارکان نے شکوہ کیا وہ نکتہ اعتراض پر اہم ایشوز ایوان کے نوٹس میں لانا چاہتے تھے لیکن اجلاس ملتوی کر دیا گیا۔ عوامی نیشنل پارٹی کا اصرار ہے وفاقی حکومت خیبر پی کے حکومت سے طالبان کو دفتر کی پیشکش کرنے پر وضاحت طلب کرے۔ زاہد خان نے ایوان بالا میں توجہ دلائو نوٹس میں وفاقی حکومت سے پوچھا بتایا جائے طالبان کو دفتر کھولنے کی پیشکش کون کر رہا ہے اور وفاقی حکومت کا اس پر کیا موقف ہے؟ کیا یہ آئین اور قانون کے مخالف تو نہیں۔نیشن رپورٹ کے مطابق وزیر مملکت برائے داخلہ بلیغ الرحمن نے کہا دہشت گردوں کو دفتر کھولنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔