• news

الطاف بھائی کی۔ ”ڈُوھنگی باتیں؟“

 لاہور کے ”ڈُوھنگی یا ڈُونگی گراﺅنڈ“ کا نام جِس پنجابی نے رکھا ہوگا وہ مَدان یا مَیدان کا انگریزی متبادل "Ground" بھی جانتا ہو گا۔ انگریزی میں کرِکٹ کے مَیدان کوCricket Ground کہا جاتا ہے اور مچھلی کے شکار کی جگہ کو"Fishing Ground" پنجابی کے لفظ ”ڈُوھنگا“ کا مطلب ہے جِس کی تہہ بہت زیادہ نیچی ہو۔ یعنی گہرا ”ڈُونگھا پن“ (گہرائی) ندی یا تالاب کی ہوتی ہے، مَیدان اگر ڈُونگھا ہو تو وہ مَیدان تو نہ ہُوا؟ ”ڈُونگھے وَہن وِچّ غوطے کھانا“ کا مطلب ہے گہری سوچ میں غرق ہونا۔”وَہن“۔ پنجابی میں دریا کو کہا جاتا ہے ۔ تو صاحبو!۔ جناب الطاف حسین نے لندن میں ۔ ڈُونگھی (گہری)سوچ میں غوطے کھانے کے بعد لاہور کی ڈُوھنگی گراﺅنڈ میںصُوفیائے کرام ؒکانفرنس میں موجود ۔ ایم۔ کیو۔ ایم۔ کے قائدین ، کارکنوں اور عوام سے ٹیلی فونک خطاب میں اُنہیں”صُوفی ازم“پر عمل پَیرا ہونے اور معاشرے میں تبدیلی کے لئے خُود کو تبدیل کرنے پر زور دِیا ہے“۔”صُوفی“پہلے صِرف(پشم۔ اون) پہننے والے شخص کو ہی کہا جاتا تھا، پھر۔ غیر حق سے دِل صاف کرنے والے درویش کو صُوفی کہا جانے لگا۔ اور چھُپ کر عبادت کرنے والے اور اِسرارِ الہی ظاہر کرنے والے کو۔” ملامتی صُوفی“۔ دُنیا والوں کی پروانہ کرتے ہُوئے ایسے درویش جان بُوجھ کر ایسی حرکات کرتے تھے/ہیںکہ لوگ اُن پر ملامت کریں۔ مِرزا غالب ملامتی صُوفی نہیں تھے لیکن انہوں نے کہا تھا۔ ....
”یہ مسائلِ تصّوف، یہ ترابیان غالب!
تجھے ہم ولی سمجھتے، جو نہ بادہ خوار ہوتا!“
ملامتی صُوفیا میں حضرت سرمد شہیدؒ شاہ حسین لاہوریؒ (القادری) اور بابا بُلھے شاہ قصوریؒ (القادری) بہت مشہور ہیں۔ ادارہ منہاج اُلقرآن کے بانی چیئرمین علّامہ طاہر اُلقادری ”ملامتی صُوفی“ نہیں کہلاتے۔ ”شیخ اُلاسلام“ کہلاتے ہیں اور جو کوئی اُن سے اختلاف کرے تو وہ اُسے ٹیلی ویژن پر (اعضاءکی شاعری کرتے ہُوئے) بہت بددُعائیںدیتے ہیں۔ 23دسمبر 2013ءکو جب علّامہ طاہر اُلقادری نے مِینارِ پاکستان کے زیرِ سایہ منعقدہ جلسہ عام میں صدر زرداری، وزیرِاعظم راجا پرویز اشرف اور وزیرِاعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف سمیت کئی حُکمرانوں کی ملامت کی تھی تو جلسہ گاہ میں جناب الطاف حسین کے حُکم پر صدر زرداری کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کے اعلیٰ سطح وفد کے ارکان بھی بیٹھے تھے۔ بعد ازاں علّامہ اُلقادری کراچی میں نائِن زِیرو پر بھی گئے اور الطاف بھائی سے ٹیلی فون پر بات کر کے اُن کے بڑے بھائی بن گئے۔ ہندو ایک تہوار مناتے ہیں ۔”بھیّا دُوج“ لیکن علّامہ طاہر اُلقادری نہیں مناتے حالانکہ موصوف بَین اُلمذاہب ہم آہنگی کے علم بردار ہیں۔
2008ءکی منتخب قومی اسمبلی اور سینٹ میں 85کی تعداد میں پِیر صاحبان، مشائخِ عُظّام اور مخدُوم زادگان تھے۔ (شاید اب کُچھ کم ہوں) اُن میں یقیناًکچھ صُوفی بھی ہوں گے جنہیں نظرانداز کرکے صدر جنرل پرویز مشرف نے چودھری شجاعت کی سربراہی میں پاکستان صُوفی کونسل“ بنوا دی تھی لیکن کسی ”سِکّہ بند صُوفی“ نے اعتراض نہیں کیا تھا۔ پھر وزیرِاعظم جناب شوکت عزیز نے کہا تھا کہ ”چودھری شجاعت پاکستان کے سب سے بڑے صُوفی ہیں“۔ اُس دَور میں مُغل بادشاہ اکبر اور اُس کی ہندو مہارانی جودھا بائی کے نام پر بھارتی فِلم ”جودھا اکبر“ پاکستان کے سینماﺅں میں دکھائی گئی جس میں صُوفیوں کی طرح رُومی ٹوپیاں پہنے کچھ لوگوں کو رقص کرتے ہُوئے بھی دکھایا گیا تھا۔ آل پاکستان مسلم لیگ کی مِیڈیا ایڈوائزر فِلم /ٹیلی وژن سٹار عتیقہ اوڈھو نے عوام کو نوِید دی تھی کہ ”فلم جودھا اکبر سے پاکستان اور بھارت کے ثقافتی رشتے بہت مضبوط ہُوئے“ پھر لاہور ائر پورٹ پر عتیقہ اوڈھو سے شراب کی بوتلیں برآمد ہوئیں اور وہ گھر بیٹھ گئی۔ شادی شدہ تو وہ پہلے سے ہی تھی۔
ایک فارسی ضرب اُلمثل ہے کہ خُوردن برائے زیستن و ذِکر کردن است“ یعنی کھانا زندہ رہنے اور عبادت کرنے کے لئے ہے“۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ”کم کھانے کم بولنے اور کم سونے والا شخص ولی ہوتا ہے“۔ مہنگائی روز بروز بڑھ رہی ہے۔ جِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگوں کی قوتِ خرید بھی اسی رفتار سے کم ہو رہی ہے۔ وہ کھاتے بھی کم ہیں۔ کم کھانے سے بولتے بھی کم ہیں اب بھُوکے پیٹ انہیں نیند کہاں آئے گی؟ اگر ایسا ہی ہوتا رہا تو پاکستان کے سبھی غریب لوگ صوفی سے ترقی کرکے ”ولی“ کے رُتبے پر پہنچ جائیں گے۔ ”ہر بُو الہوس“ کے واسطے (یعنی پیٹ بھر کر کھانے والوں کے لئے) دارو رسن ہی رہ جائے گا۔ لے جائیں ایک دوسرے کو دارو رسن تک باری باری۔ پھر عمران خان بھی نہیں کہیں گے ”میاں جی جان دیو، ساڈی واری آن دیو“۔ پنجابی کے پہلے شاعر بابا فرید شکر گنجؒ نے اپنے دَور کے غریب غُربا کے لئے پُرامن زندگی بسر کرنے کا ایک آسان نُسخہ تجویز کِیا تھا جب کہا....
”روٹی میری کاٹھ کی لاون میری بھُکھّ
جِنہاں کھادی چوپڑی، گھنے سہن گے دُکھّ“
یعنی میری روٹی لکڑی کی ہے اور بھوک ہی میرا سالن ہے اور جو لوگ چُپڑی روٹی کھاتے ہیں (وہ آخرت میں) بہت دُکھ برداشت کریں گے“۔ بابا فرید شکر گنجؒ ہندوستان کے بادشاہ سُلطان غیاث اُلدّین بلبن کے داماد تھے اور سادہ روٹی کھاتے تھے۔ مَیں حیران ہوں کہ بابا جی نے سُلطان بلبن کا ”رُوحانی فرزند“ ہونے کے باوجود اُس کا ”سیاسی وارث“ بننے کے لئے جدوجہد کیوں نہ کی؟ جنرل (ر) پرویز مشرف کی وطن واپسی کے بعد جو کچھ اُن کے ساتھ ہو رہا ہے بجا طور پر اُنہیں آج کے دَور کا ”ملامتی صوفی نمبر ون“ کہا جا سکتا ہے۔ خاص طور پرجب سے "Non Functional" پاکستان صُوفی کونسل کے صدر چودھری شجاعت نے اُن کی حمایت کرنا شروع کی ہے۔ پاکستان سے باہر مقیم جناب پرویز مشرف کو اُن کے دوستوں نے مشورہ دِیا تھا کہ....
”طوافِ کُوئے ملامت کو اب نہ جا اے دِل!
نہ اپنے ساتھ ہماری بھی خاک اڑا اے دِل!“
گدّی نشِین اور مخدُومِین یوسف رضا گیلانی، مخدُوم امین فہیم، مخدُوم شہاب اُلدّین، صاحبزادہ حامد سعید کاظمی اور نہ جانے اور کِس کِس ”ملامت مآب“ صُوفی کا تذکرہ کِیا جائے؟ بہرحال جناب الطاف حسین نے سات سمندر پار سے، لاہور کی ڈُوھنگی گراﺅنڈ میں اپنے سامعِین سے ”ڈُوھنگی باتیں“ کرکے وقت کی اہم ضرورت کو پورا کِیا ہے۔ عام طور پرعوام کو پُرامن رکھنے کے لئے حکمران اِس طرح کی۔ ”ڈُونگھی باتیں“ کِیا کرتے ہیں۔ اصولی طور پر عوام کو”صُوفی اِزم“ کی طرف راغب کرنے کا فریضہ وزیرِاعظم میاں نواز شریف کو سنبھالنا چاہئے تھا۔ یُوں بھی ڈُونگھی گراﺅنڈ“ لاہور میں ہے۔ کراچی یا لندن میں نہیں۔

ای پیپر-دی نیشن