تھر میں گیارہ لاکھ افراد خشک سالی سے متاثر‘ ڈیڑھ لاکھ سے زائد کی نقل مکانی‘ خیرپور میں 6 جاں بحق‘ 9 اصلاع کیلئے ریڈالرٹ جاری
خیرپور + کراچی (نوائے وقت رپورٹ +نیٹ نیوز + بی بی سی) خیرپور میں خوراک کی کمی کے باعث بیماریوں میں مبتلا 6 افراد دم توڑ چکے ہیں۔ نجی ٹی وی کے مطابق خیرپور کے ریگستانوں میں خشک سالی نے ڈیرے ڈال دیئے ہیں۔ مختلف بیماریوں سے 6 افراد دم توڑ گئے جب کہ متعدد افراد بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ دوسری جانب خیرپور میں 400 مویشی بھی مر گئے ہیں۔ صوبہ سندھ میں قدرتی آفات سے نمٹنے والے ادارے این ڈی ایم کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق تھر میں گیارہ لاکھ لوگ خشک سالی سے متاثر ہوئے ہیں جبکہ ڈیڑھ لاکھ سے زائد لوگ نقل مکانی کر چکے ہیں۔ سندھ حکومت نے حالیہ بحران کے پیشِ نظر علاقے میں گندم کی ایک لاکھ بیس ہزار بوریاں تقسیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ محکمہ خوراک کے ضلعی کنٹرولر محمد حنیف ابڑو نے بی بی سی کو بتایا ہے وہ اس وقت تک 33 ہزار 300 بوریاں گندم تقسیم کرچکے ہیں، ستائیس ہزار بوریاں گوداموں میں موجود ہیں۔ یاد رہے اس سے پہلے آٹھ ماہ میں گندم کی ساٹھ ہزار بوریاں تقسیم نہیں ہو سکی تھیں۔ قحط سالی کی اطلاعات کے بعد حکومت نے مزید ساٹھ ہزار بوریاں بھیجنے کا اعلان کیا تھا، لیکن خود حکومتی اعداد وشمار اس بات کی تصدیق کرتے ہیں ابھی تک یہ گندم پہنچ نہیں سکی۔ اب ٹھیکیداروں کی مدد سے گندم کی تقسیم کی جا رہی ہے، جس کے لیے مختلف سینٹر بنائے گئے ہیں، لیکن موصول ہونے والی شکایات کے مطابق اس مفت تقسیم پر بھی ٹھیکیدار لوگوں سے پیسے مانگ رہے ہیں۔ دوسری جانب سندھ حکومت نے 1998 کی مردم شماری کے بجائے موجودہ آبادی کے تحت گندم کی تقسیم کا فیصلہ کیا ہے، جس کے تحت تھر میں دو لاکھ 59 ہزار خاندان رجسٹرڈ ہیں ہر گھرانہ دس سے پندرہ افراد اور بچوں پر مشتمل ہے۔ حکومت فی خاندان پچاس کلو گرام گندم فراہم کر رہی ہے، جو حکام کے خیال میں ایک ماہ کے لیے کافی ہے۔ غیر سرکاری تنظیمیں صرف گندم کی تقسیم کی مخالفت کر رہی ہیں۔ سکوپ نامی تنظیم کے مقامی رہنما بھارو مل کا کہنا ہے کہ سیلاب اور زلزلے میں جس طرح لوگوں کو حکومت آٹا، دال، چاول، گھی فراہم کرتی ہے یہاں بھی ایسے ہی پیکیج کی ضرورت ہے۔ ’لوگ روٹی کس سے کھائیں گے، حکومت کو اس کا بھی خیال کرنا چاہئے۔‘ بھارو مل نے بتایا کہ تھر کے لوگ جانوروں کے دودھ پر گزارہ کرتے تھے مگر اب جانور بڑی تعداد میں ہلاک ہو چکے ہیں یا پھر کمزور ہیں، اس لئے لوگوں کو دودھ اور دہی دستیاب نہیں ہے۔ تھرپارکر میں خشک سالی اور قحط کے باعث پیدا ہونے والی صورتحال کے تناظر میں این ڈی ایم اے امدادی کارروائیاں تیز کر دی ہیں، مختلف جگہوں پر کولیکشن پوائنٹ بنا دیئے گئے۔ امدادی سامان متاثرہ علاقوں تک پہنچایا جا رہا ہے، 1404 ٹن گندم کے تھیلے، 1277 ٹن خوراک، 1151 ٹن چاول ایک لاکھ چالیس ہزار منرل واٹر کی بوتلیں، بسکٹس کے پندرہ ہزار پیکٹ اور طاقت دینے والے بسکٹس کے پانچ ہزار پیکٹس متاثرہ علاقوں میں پہنچا دیئے گئے۔ نجی ٹی وی کے مطابق خشک سالی کے باعث تھر میں جنم لینے والے حالات کو لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے، اس المیہ نے پوری قوم کو حکمرانوں کی بے حسی اور کارکردگی کے بارے میں سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔تھر کی قحط سالی کی کہانی نے دکھ کے جذبے کو جھنجھور کر رکھ دیا ہے، ماں نے کس دل سے اپنے بچوں کو خالی پیٹ نیند کی تھپکیاں دی ہوں گی، کس طرح اپنے لخت جگر کو شہر خموشاں کی جانب بھیجا ہو گا۔ بھوک سے نڈھال بچو ں کی سسکتی ہوئی آوازیں دل کو دہلا دیتی ہے۔امداد سرگرمیاں جاری، مگر امداد صرف شہری علاقوں تک ہی محدود ہے،دیہی علاقوں کے باسی اب تک صوبائی حکومت کی آنکھوں سے اوجھل ہیں۔ تپتی دھوپ اور کچی جھونپڑیوں میں زندگی گزارنے والے متاثرین کی آنکھوں میں امید کی کرنیں بجھتی نظر آرہی ہیں، تھر کی خشک سالی کی سنگین صورتحال نے معصوم لوگوں کو جس اذیت میں مبتلا کر دیا ہے، اس کے ذمے دار اپنا احتساب کرنے کو تیار نظر نہیں آتے۔ اس المیہ نے پوری قوم کو حکمرانوں کی بے حسی اور کارکردگی کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ دریں اثنا تھرپارکرکی صورت حال پر غور کیلئے اپوزیشن نے سندھ اسمبلی کا اجلاس بلانے کی درخواست جمع کرا دی ہے۔ سندھ اسمبلی میں اپوزیشن کی جماعتیں متحدہ قومی مومنٹ، تحریک انصاف، مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ فنکشنل کے اراکان نے اجلاس کیلئے درخواست اسمبلی سکیرٹیریٹ میں جمع کرا دی۔ درخواست جمع کرانے کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف فیصل سبزواری کا کہنا تھا کہ تھرپارکر میں حکومت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی، معصوم بچوں کی ہلاکت اور حکومت کی غفلت کی پوری تحقیقات ہونی چاہئے۔ سندھ کے خشک سالی سے متاثرہ علاقے تھراور اسکے نواحی علاقوں میں تمام تر امدادی کاروائیوں کے باوجود دور دراز علاقے اب بھی امداد سے محروم ہیں۔ کیتار، جیتراڑ، کیسراڑ سمیت متعدد دیہات تک امدادی ٹیمیں نہ پہنچ سکیں۔ غذائی قلت کے باعث مزید 30 مقامی ہسپتال میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ حکومت سندھ نے تھرکی صورت حال کے بعد مزید اضلاع میں کسی بھی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کیلئے 9اضلاع کیلئے ریڈ الرٹ جاری کردیا ہے۔ سیکرٹری مالیات روشن علی شیخ کے مطابق تھر کی صورتحال کے بعد سانگھڑ، بدین، ٹھٹھہ، سجاول، گھوٹکی، سکھر، خیرپور، عمرکوٹ اور لاڑکانہ کیلئے ریڈالرٹ جاری کیا گیا ہے۔ سپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی نے ایم کیو ایم سمیت دیگرا پوزیشن جماعتوں کی درخواست پر سندھ اسمبلی کا اجلاس 21مارچ کو سندھ اسمبلی بلڈنگ میں طلب کرلیا ہے ۔قبل ازیں سندھ اسمبلی میں بدھ کو میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے سپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی نے کہا کہ تھر کی صورت حال پر وزیر اعلیٰ سندھ کو گمراہ کیا گیا اور اس حوالے وزیر اعلیٰ کو غلط رپورٹ پیش کی گئی۔ سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید فیصل سبزواری نے کہا ہے کہ چہرے تبدیل کرنے سے تھر کی صورت حال بہتر نہیں ہو گی۔ حکومت کو تھر میں حالات معمول پر لانے کے لئے جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا۔ وزیراعلیٰ سندھ کے کورآرڈی نیٹر اور تھر پار کر میں امدادی سرگرمیوںکے نگران تاج حیدر نے کہاہے کہ گذشتہ چار روز کے دوران 30701 گندم کی بوریاں تقسیم کردی گئی ہیں۔ وزیر مملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر علی نے قحط سالی سے متاثرہ تھرپارکر میں لوڈ شیڈنگ کے مکمل خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے حیسکو کے افسروں کو ہدایت کی ہے تھرپارکر میں بجلی کی بلاتعطل فراہمی کو ہر صورت یقینی بنایا جائے۔تھرپارکر کے دور دراز علاقے اب بھی امداد سے محروم ہیں۔ غذائی قلت کے باعث مزید 30 بچے ہسپتال میں داخل کرا دیئے گئے ہیں، بیماریوں سے جاں بحق افراد کی تعداد ایک سو تینتالیس ہو گئی ہے، ٹھٹھہ کے بنیادی مرکز صحت میں کروڑوں کی ادویات ضائع ہو گئیں لیکن دم توڑتے مریضوں کو نصیب نہ ہوئیں۔ تھر کی صورتحال سے نمٹنے کیلئے گورنر ہائوس میں اجلاس ہوا جس میں اعلیٰ حکام نے گورنر سندھ کو جاری ریلیف سرگرمیوں سے آگاہ کیا۔ وزیراعلی سندھ سید قائم علی شاہ نے اعتراف کیا ہے کہ تھرپارکر میں غذائی قلت کی ذمہ دار ضلعی انتظامیہ ہے۔ میڈیا کو میرے استعفی کا انتظار ہے لیکن ایسا نہیں ہوگا۔ مٹھی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سید قائم علی شاہ نے کہا کہ وزیراعظم کے دورہ تھرپارکر اور امداد دینے پر ان کے شکرگزار ہیں۔ آئندہ چھ روز میں تھرپارکر کے ہر گھر میں گندم پہنچ جائیگی۔ غذائی قلت کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سرپرست اعلیٰ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ تھر میں ہلاکتوں کے ذمہ دار افسروں کو نہیں بخشا جائے گا۔ انہوں نے وزیراعلیٰ سندھ سے تھر میں ہلاکتوں کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ ذمہ دار حکام کے خلاف کارروائی کی رپورٹ دیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے آصف علی زرداری کو دورہ تھرپارکر کے حوالے سے رپورٹ پیش کرتے ہوئے آگاہ کیا کہ انہوں نے تھر کے حالات کا تفصیلی مشاہدہ کیا ہے اور قحط سالی سے متاثرہ افراد سے خود ملاقات کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت سندھ نے انہیں بریفنگ میں بتایا ہے کہ تھر میں گندم کی صحیح تقسیم نہ ہونے کے باعث موجودہ صورتحال پیش آئی ہے۔ زیادہ تر بچوں کی ہلاکتیں غذائی اشیاء کی کمی اور بیماری کے باعث ہوئی ہے۔ ضلع سانگھڑ کی چار یونین کونسلوں میں بھی شدید خشک سالی سے قحط کے آثار ہیں، خوراک نہ ملنے اور بیماریوں کے باعث بکریوں اور بھیڑوں کی ہلاکتیں شروع ہو گئیں۔ پانی کی شدید قلت ہے، کنویں خشک ہو گئے ہیں۔ بارشیں ہونے کے باعث مویشیوں کا چارہ ناپید ہو گیا۔