سپریم کورٹ نے پنجاب حکومت سے 19 مارچ تک بلدیاتی انتخابات کا ٹائم فریم مانگ لیا
اسلام آباد(نمائندہ نوائے وقت‘ ایجنسیاں) پنجاب اور سندھ حکومتیں بلدیاتی انتخابات سے متعلق کوئی تاریخ نہ دے سکیں۔ سپریم کورٹ نے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد‘ حد بندیوں کے حوالے سے حکومت پنجاب کو ٹائم فریم دینے کیلئے 19 مارچ تک مہلت دے دی ہے‘ عدالت نے سندھ اور پنجاب سے جواب طلب کیا ہے کہ عدالت کو بتایا جائے کہ اگر ان کی مرضی کے قانون کے مطابق فیصلہ کردیا جائے تو وہ کتنے عرصے میں بلدیاتی انتخابات کرادیں گے جبکہ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم عام لوگوں تک ان کے حقوق پہنچانے کیلئے قانون پر عملدرآمد چاہتے ہیں‘ حکومت پنجاب اور سندھ بلدیاتی انتخابات نہیں کرانا چاہتیں اسلئے زیادہ سے زیادہ وقت مانگنے میں لگے ہوئے ہیں‘ حکومت پنجاب اگر رضامند ہے تو پھر حد بندیاں الیکشن کمشن کو کرنے دے اور بلدیاتی انتخابات کرانے کا ٹائم فریم دے دے‘ اگر الیکشن کمشن قومی اسمبلی کیلئے حد بندیاں کرسکتا ہے تو بلدیاتی انتخابات کیلئے کیوں نہیں کرسکتا ۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہاکہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے زیادہ مشکل نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی ہے جو موجودہ حکومتوں کیلئے کرنا بہت حد تک قابل قبول نہیں۔ پیپلزپارٹی کی طرف سے لطیف کھوسہ خود پیش ہوئے اور نہ ہی پارٹی کی جانب سے کوئی جواب عدالت میں پیش کیا۔ اکرم شیخ ایڈووکیٹ نے کہا کہ آرٹیکل 222 کے تحت حد بندیاں الیکشن کمشن کا اختیار ہے۔ اٹھارہویں ترمیم اس حوالے سے خاموش ہے۔ مقامی حکومت بھی اسی زمرے میں لائی جاسکتی ہے۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ قانون بنانا مجلس شوریٰ کا کام ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت پنجاب میں اب ویکیوم آگیا ہے۔ کوئی حد بندی کی شق نہیں۔ کیا الیکشن کمشن خود اس خلا کو پر کرسکتا ہے۔ اکرم شیخ نے کہا کہ یہ فارمولا موجود ہے‘ سوال یہ ہے کہ لاگو کون کرے گا۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ ہم نے فیصلہ چیلنج نہیں کیا۔ دوسری جماعتوں نے کیا ہے۔ ہم لارجر بنچ کے فیصلوں کے مطابق حد بندیاں کرنا چاہتے ہیں۔ الیکشن کمشن نے بھی دو فیصلے دیئے ہیں ان کو چیلنج نہیں کیا۔ حکومت اپنے فرائض سے لاعلم نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم قانون پر عملدرآمد چاہتے ہیں۔ فرض کریں کہ ہم فیصلے کو اپ ہولڈ کردیتے ہیں تو آپ کتنا عرصہ بلدیاتی انتخابات کرانے کیلئے لیں گے اور قانون سازی کریں گے۔ اے جی پنجاب نے کہا کہ وہ حکومت کی جانب سے اس کا تو جواب نہیں دے سکتے‘ مناسب وقت ضرور لگے گا۔ جسٹس خلجی نے کہا کہ دو سال کا وقت بھی آپ کیلئے مناسب ہی رہا۔ جسٹس عظمت نے کہا کہ سات سال کی بات کریں۔ جسٹس خلجی نے کہا کہ آپ معلوم کرلیں کتنا وقت لیں گے۔ دو سال کی اجازت نہیں دیں گے۔ اے جی پنجاب نے کہا کہ ہم نے دو سال نہیں لگانے اور نہ ہی یہ خواہش ہے۔ جسٹس خلجی نے کہا کہ آپ کی خواہش تو ضرور ہے مگر آپ کرتے ہی نہیں یہ اور بات ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس دیکھ لیں الیکشن کمشن قومی اسمبلی کیلئے حد بندیاں کرتا ہے۔ حکومت پنجاب اور سندھ کے اپنے اپنے ایکٹ ہیں اور وہ صوبائی حکومتوں کو اس کا اختیار دیتے ہیں۔ اگر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اپیلٹ اتھارٹی ہو، سیکشن 7‘ سیکشن 19 سے متصادم ہو تو پھر کیا کریں گے۔ سندھ ایکٹ میں روپا کو ایکٹ بنادیا گیا ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ 1974ء ایکٹ میں ترمیم کئے بغیر کچھ ممکن نہیں اور قانون سازی اور ترمیم کا اختیار مجلس شوریٰ کے پاس ہے۔ صوبائی حکومت کو عدالتی رہنمائی میں نئی قانون سازی کیلئے کہا جائے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس مسئلے کا حل نکالا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ چھ ماہ کا وقت دیا گیا تھا اس حوالے سے کام کیوں نہیں کیا گیا۔ کتنا وقت باقی رہ گیا ہے جو ضروری ہوگا۔ اے جی پنجاب نے کہا کہ اگر میں حکومت سے بات کئے بغیر بات کروں تو مناسب نہیں ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ حکومت سے ہدایات لے لیں آپ ہمیں الیکشن کے حوالے سے ٹائم فریم دے دیں اس کے مطابق فیصلہ کرلیں گے۔ الیکشن کمشن نے سیکشن 7‘ 8‘ 9 کا سیکشن 19 سے مقابل ہونے بارے تحریری جواب داخل کیا ہے۔