غداری کیس میں ناقابل ضمانت وارنٹ جاری‘ مشرف انکار کریں تو گرفتار کر کے 31 مارچ کو پیش کیا جائے : خصوصی عدالت
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ نیٹ نیوز+ ایجنسیاں) سابق صدر پرویزمشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کے دوران ملزم کی عدالت میں عدم پیشی پر خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے فرد جرم عائد کرنے کے لئے انہیں 31 مارچ کو عدالت میں طلب کر لیا ہے ، عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ قانون کے مطابق فرد جرم عائد کرنے کے لئے ملزم کا عدالت میںموجود ہونا ضروری ہے اگر مشرف عدالت میں آنے سے انکار کریں تو انہیں گرفتار کر کے پیش کیا جائے، آئی جی یا اس سطح کا کوئی افسر وارنٹ پر عملدرآمد کرائے، عدالت 13 دسمبر سے اب تک 8بار مشرف کو طلب کر چکی ہے، وزارت داخلہ کو بھی ہدایت کی گئی ہے کہ31 مارچ کو فول پروف سکیورٹی انتظامات کو یقینی بنایا جائے سماعت کے موقع پر سیکرٹری داخلہ عدالت میں موجود رہیں جبکہ دائر درخواستوں پر دلائل کے لئے کیس کی سماعت 20مارچ تک ملتوی کر دی گئی۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ فوجداری مقدمات کو زیادہ دیر تک لٹکایا نہیں جا سکتا۔ 31 مارچ کو سماعت کے موقع پر سیکرٹری داخلہ عدالت میں موجود رہیں۔ سماعت شروع ہوئی تو مشرف کے وکلاء نے سکیورٹی کو نامکمل سمجھتے ہوئے اسے ناکافی قرار دیا، دوران سماعت پرویز مشرف کے وکیل انور منصور نے موقف اختیار کیا کہ 13 دسمبر 2013 کو پرویز مشرف کی طلبی کے احکامات غیرقانونی تھے جس پر وکیل استغاثہ اکرم شیخ نے کہا جو عدالتی حکم دیا گیا پہلے اس پر عملدرآمد کرایا جائے کیا عدالتی حکم پر نظرثانی کی جا رہی ہے۔ عدالت کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کا اختیار نہیں اس پر جسٹس فیصل عرب نے اکرم شیخ سے کہا آپ بیٹھ جائیں پہلے انور منصور کو دلائل مکمل کرنے دیں ہم نے فیصلہ کرنا ہے کہ ہمارے کیا اختیارات ہیں۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا آج کی سماعت ملزم کی پیشی کے لئے مختص کی گئی۔ انہوں نے انور منصور کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا پرویز مشرف عدالت نہیں آ رہے تو دلائل دیں کہ فرد جرم پڑھ کر سنائی جا سکتی ہے۔ انور منصور نے آرٹیکل 264 کی رو سے ترمیمی ایکٹ کے ذریعے ملزم کی طلبی کا اختیار ختم ہو گیا۔ انور منصور نے اپنے دلائل میں کریمنل ایکٹ 1977,1957-56، آرٹیکل 239,264, کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ فرد جرم پڑھ کر سنانے کے لئے ملزم کی طلبی ضروری نہیں، وفاق نے فرد جرم مرتب کر لی محض اسے پڑھا جانا ہے، وفاق کی شکایت قانون کے مطابق درست نہیں۔ انہوں نے استدعا کی عدالت پرویز مشرف کی طلبی کے احکامات پر نظرثانی کرے۔ مشرف کی طلبی کے سمن ہائیکورٹ میں بھی چیلنج کیے جا چکے ہیں پراسیکیوٹر اکرم شیخ کا کہنا تھا سکیورٹی الرٹ وقت حاصل کرنے کا بہانہ ہے۔ بلیو بک کے تحت سکیورٹی الرٹ کسی کی صوابدید پر جاری نہیں ہو سکتا۔ مشرف کی سیکورٹی پر 2500 اہلکار تعینات اور 3 روٹ متعین ہیں۔ اب تک مشرف کی سیکورٹی پر 20 کروڑ روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ سکیورٹی پر اتنے زیادہ اخرجات کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ پرویز مشرف کو من پسند سکیورٹی حاصل ہے خرچہ بچانا ہے تو پرویز مشرف کا جیل میں بھی ٹرائل ہو سکتا ہے۔ مشرف کے وکیل انور منصور نے ایک اور استثنیٰ کی درخواست دائر کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ پرویز مشرف کو سنگین خطرات لاحق ہیں تمام اہلکاروں کی سکریننگ مکمل ہونے تک مشرف پیش نہیں ہو سکتے۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ آج کی سماعت ملزم کی پیشی کے لئے مختص کی گئی جو درخواست آپ نے دائر کی اس پر دلائل کی ضرورت پڑی تو فریقین کو نوٹس جاری کریں گے، عدالت نے انور منصور سے پرویز مشرف کی پیشی سے متعلق جواب طلب کرتے ہوئے کہا کہ ملزم کی عدم پیشی پر ان کے وکیل کو چارج شیٹ پڑھ کر سنانے سے متعلق تجویز پر بھی رائے مانگ لی۔ وقفے کے بعد ایڈووکیٹ انور منصور نے کہا کہ ملزم کی عدم پیشی پر وکلاء کے سامنے فرد جرم پڑھ کر سنایا جانا اکرم شیخ کی تجویز ہے ہم نے تو ان کی تقرری ہی چیلنج کر رکھی ہے انور منصور نے کہا کہ حکومت نے ایک آدمی کیلئے 10 پراسیکیوٹر تعینات کر رکھے ہیں عوام کا پیسہ خرچ ہو رہا ہے۔ جس پر عدالت نے سماعت ملتوی کر دی اور کہا کہ اس کا فیصلہ ڈیڑھ بجے پر رجسٹرار پڑھ کر سنائیں گے۔ بعدازاں خصوصی عدالت کے رجسٹرار عبدالغنی سومرو نے وفاقی شرعی عدالت کے سامنے نماز جمعہ کے بعد عدالتی فیصلہ پڑھ کر سنایا جس میں پرویز مشرف کے 31مارچ کو طلبی کے لئے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردئیے ہیں، دائر درخواستوں پر دلائل کے لئے کیس کی سماعت 20مارچ تک ملتوی کردی گئی ہے۔ عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ 30 مارچ کو رات 12 بجے کے بعد ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری پر عملدرآمد شروع ہو جائیگا۔ اگر اس دوران مشرف رضامندی ظاہر کر دیں تو اس فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہو گا۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ملزم کی 31 مارچ کو عدم پیشی کی صورت میں وفاقی پولیس انہیں گرفتار کر کے عدالت کے سامنے پیش کرے۔ وارنٹ پر عملدرآمد 31 مارچ کو صبح 9 بجے ہو گا۔ فیصلہ میں سیکرٹری داخلہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ملزم کی پیشی کے حوالے سے تمام سکیورٹی ایجنسیز کے ساتھ کوآرڈینیٹ کر کے سکیورٹی کے مناسب اقدامات کو یقینی بنائیں اور ملزم کی پیشی کے دن خود بھی عدالت میں موجود رہیں۔ جسٹس طاہرہ صفدر اور جسٹس یاور علی پر مشتمل تین رکنی خصوصی عدالت نے جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں غداری مقدمہ کی سماعت کی۔ سماعت کے موقع پر جسٹس فیصل عرب نے وکیل صفائی انور منصور سے استفسار کیا کہ کیا ملزم پیش ہور ہے ہیں جس پر انور منصور نے کہا کہ مشرف کی طرف سے نئی درخواست دائر کی گئی ہے جس میں عدالت پیشی سے انہوں نے استثنیٰ مانگا ہے کیونکہ سکیورٹی خدشات کے باعث وہ عدالت میں پیش نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے مذکورہ درخواست پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف کی سکیورٹی پر 15 سے16 سو اہلکار تعینات ہیں جن کی سکریننگ بہت ضروری ہے کیونکہ وزارت داخلہ کی جانب سے جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مشرف پر سلمان تاثیر طرز پر حملہ ہو سکتا ہے اور ان کی اپنی سکیورٹی پر مامور اہلکاروں میں کالعدم تنظیموں کے ہمدرد موجود ہو سکتے ہیں جو ان کی خواہش پر مشرف کو نشانہ بنا سکتے ہیں لہذا مشرف کی سکیورٹی پر مامور اہلکاروں کی سکریننگ کے لئے 6 ہفتوں کا ٹائم دیا جائے اور اس وقت تک مقدمہ کی سماعت ملتوی کی جائے۔ خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ کو سنجیدگی سے لیا جائے جس کے بعد وکیل استغاثہ اکرم شیخ نے مشرف کی جانب سے حاضری پر استثنی کی مخالفت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف کی سکیورٹی کے حوالے سے تمام انتظامات کو مکمل کیا گیا ہے۔ 2500 سے زائد اہلکار ان کی سکیورٹی پر تعینات کئے گئے ہیں اور ان کی عدالت میں پیشی کے موقع پر تین مختلف روٹس لگائے گئے مگر ملزم پیش ہی نہیں ہونا چاہتا۔ عدالت نے 30 دسمبر2013 سے اس مقدمے کا ٹرائل شروع کیا ہے اور اب تک تین ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اس عرصہ کے دوران پہلے تین ماہ عدالت کی آئینی حیثیت پر ضائع کر دیئے گئے۔ گزشتہ صرف 8 سماعتوں پر قوم کا 20 کروڑ سے زائد کا پیسہ خرچ ہوا ہے۔ پہلے سکیورٹی کا بہانہ کیا گیا، پھر بیماری کا بہانہ کیا گیا اور اب ایک بار پھر سکیورٹی کو ایشو بنا لیا گیا ہے۔ اگر ملزم کو ہماری تحویل میں دے دو تو ہم انہیں باحفاظت عدالت میں پیش کرنے کے لئے تیار ہیں۔ انہوں نے تجویز دی کہ ملزم کا ان کی مرضی کے مطابق اڈیالہ جیل، اٹک جیل اور حیدر آباد جیل سمیت کسی بھی جیل میں ٹرائل کیا جا سکتا ہے اور اس بات کا اختیار خصوصی عدالت کے پاس موجود ہے۔ بصورت دیگر ملزم کو ہر صورت خصوصی عدالت کے سامنے پیش ہونا پڑے گا۔ انہوں نے عدالت کے سامنے فرد جرم عائد کرنے کے لئے تجویز پیش کی کہ اس سے قبل وکلاء صفائی پرویز مشرف کو عدالت کے سامنے پیش کر چکے ہیں مگر اب ملزم صرف فرد جرم سے بچنے کے لئے عدالت کے سامنے پیش نہیں ہو رہے ہیں لہذا ان کے وکلاء کے سامنے ان کی غیر موجودگی میں ہی فرد جرم کی چارج شیٹ پڑھ کر سنائی دی جائے اس حوالے سے قانون موجود ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے PLD379/1998 کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ عدالت ملزم کے وکلاء کے سامنے بھی فرد جرم کی چارج شیٹ پڑھ کرسنا سکتی ہے جس پر جسٹس فیصل عرب نے مقدمہ کی سماعت 15 منٹ کے لئے ملتوی کرتے ہوئے مذکورہ تجویز پر فریقین کے وکلاء سے رائے طلب کرنے کے لئے انہیں اپنے چیمبر میں طلب کیا اور وقفے کے بعد محفوظ فیصلہ سنا دیا۔ خصوصی عدالت کے رجسٹرار عبدالغنی سومرو نے مشرف کی طلبی کا فیصلہ سنایا۔
اسلام آباد (آئی این پی+این این آئی) سابق صدر پرویز مشرف کے وکلاء نے خصوصی عدالت کی جانب سے مشرف کے ناقابل وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کے فیصلے کو چیلنج کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ پرویز مشرف کی سکیورٹی سے متعلق تمام معاملات خصوصی عدالت کے سامنے ہیں اس کے باوجود ایسے حالات میں ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرنا ثانوی سا فیصلہ لگتا ہے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے غداری کے مقدمے میںسابق صدر کے وکیل فیصل چودھری نے کہا ہے کہ سابق صدر کی ناقابل ضمانت گرفتاری وارنٹ کے فیصلے کو چیلنج کریں گے۔ پرویز مشرف کی سکیورٹی سے متعلق تمام معاملات خصوصی عدالت کے سامنے ہیں اس کے باوجود ایسے حالات میں ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرنا ثانوی سا فیصلہ لگتا ہے۔ سابق صدر ہسپتال میں ہیں وہ پاکستان چھوڑ کر کہیں نہیں جارہے۔ پرویز مشرف اپنے اوپر لگائے گئے تمام الزامات کا سامنا کریں گے، ہماری قانونی ٹیم خصوصی عدالت کے فیصلے کے تمام قانونی نکات کا جائزہ لے کر فیصلہ کرے گی کہ خصوصی عدالت کے فیصلے کو چیلنج کیا جائے۔ مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری نے کہا ہے کہ سابق صدر کے خلاف غداری کا مقدمہ حکومت کے گلے میں ہڈی کی طرح پھنس چکا ہے، سمجھدار لوگوں کے لئے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے، اس مقدمے پر آرمی اور سول گورنمنٹ ایک پیج پر نہیں ہے اگر کسی کو یہ پتہ نہیں تو وہ احمقوں کی دنیا میں زندگی گزار رہے ہیں۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے احمد رضا قصوری نے کہا کہ یہ مقدمہ حکومت کے گلے میں ہڈی کی طرح پھنس چکا ہے جسے اگل اور نہ ہی نگل سکتے ہیں۔ وزارت داخلہ کے خط میں یہ لکھا تھا کہ پرویز مشرف پر سلمان تاثیر طرز کا حملہ ہو سکتا ہے اور انہیں ان کا گارڈ نشانہ بناسکتا ہے، سکیورٹی اہلکاروں کی سکریننگ 72گھنٹوں میں نہیں ہوسکتی یہ ایسا کام ہے جس میں ایک سے دو ہفتے لگیں گے جس کے بعد سکیورٹی انچارج سرٹیفکیٹ دے سکتا ہے لہٰذا ایسے حالات میں پرویز مشرف کے لئے عدالت آنا ممکن نہیں۔