جنرل پرویز مشرف کو بچانے کی خفیہ منصوبہ بندی
افتخار محمد چوہدری پاکستان کے طاقتور، نڈر اور دلیر چیف جسٹس تھے۔ انہوں نے خوف و ہراس کو مسترد کرتے ہوئے سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کیخلاف آئین کے آرٹیکل نمبر 6 کے تحت مقدمہ چلانے کا فیصلہ دیا۔ صدر پاکستان آصف علی زرداری خفیہ ڈیل کے تحت خاموش رہے۔ نگران حکومت کے پاس مینڈیٹ نہ تھا۔ شیر انتخابی میدان میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ کر اقتدار میں آیا تھا اس نے مقدمہ چلانے کی حامی بھر لی۔ سابق سپہ سالار جنرل اشفاق پرویز کیانی نے سیاسی شیر کو بتایا کہ کورکمانڈرز اپنے سابق آرمی چیف کیخلاف غداری کا مقدمہ چلانے کے حق میں نہیں ہیں۔ حکومتی شیر نے کہا کہ ببر شیر عدلیہ میں بیٹھا ہے اسے ڈکٹیٹ نہیں کیا جاسکتا البتہ خاکی شیر اگر عدلیہ سے ریلیف لے سکے تو حکومت رکاوٹ نہیں بنے گی۔ اس یقین دہانی کے بعد خفیہ ایجنسیوں نے اپنے سابق چیف کو بچانے کیلئے خفیہ منصوبہ بندی شروع کردی۔ عدلیہ کا سامنا کرنے کیلئے تجربہ کار اور سینئر وکلاءکی ایک ٹیم کی خدمات بھاری معاوضے پر حاصل کی گئیں۔ اس ٹیم میں ہر مزاج اور فطرت کے وکیل شامل کیے گئے تاکہ بوقت ضرورت ججوں کو ہراساں بھی کیا جاسکے اور سرعام ان کی توہین بھی کی جاسکے۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنی جان بچانے کیلئے دولت سے بھری بوریوں کے منہ کھول دئیے۔یہ کون سی محنت کی کمائی تھی عالمی معیار کی تجربہ کار اور طاقتور خفیہ ایجنسی جنرل پرویز مشرف کی پشت پر ہے۔ یہ ایجنسی پورے ملک کا ماحول اور بااثر افراد کا ذہن بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ ایجنسی 1965ءکی پاک بھارت جنگ میں بھارتی افواج کا سراغ تو نہ لگا سکی اور اس نے اچانک لاہور پر حملہ کردیا۔ البتہ پی این اے اور آئی جے آئی اسکے شاہکار ہیں۔ خفیہ ایجنسی نے طلسماتی اور کرشماتی طاقت سے ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگانے والوں کو بھٹو اور بے نظیر کے مقابلے میں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کردیا۔
پاکستان کے صدر غلام اسحق خان کے ذہن میں تعصب اور نفرت پیدا کرنے کیلئے بے نظیر بھٹو کی کتاب ”دختر مشرق“ میں غلام اسحق کیخلاف جعلی مواد شامل کرکے کتاب کا مسخ شدہ نسخہ صدر پاکستان کو پیش کیا گیا۔ انہوں نے صرف بیس ماہ بعد خاتون وزیراعظم کو گھر بھیج دیا۔ سردار فاروق خان لغاری کو مشتعل کرنے کیلئے انکی فیملی کی خفیہ ٹیپ تیار کی گئی جسے بے نظیر اور آصف علی زرداری کا ”کارنامہ“ قرار دے کر صدر پاکستان کے پاس بھیجا گیا۔ بھائی نے جوش میں آکر بہن کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا۔ 2002ءکے انتخابات کے بعد جنرل پرویز مشرف کو مسلم لیگ(ق) کی حکومت بنانے کیلئے ایک درجن اراکین اسمبلی کی ضرورت تھی۔ خفیہ ایجنسیوں نے ”وزارت کی گاجر یا نیب کی چھڑی“ دکھا کر پی پی پی کے سینئر اراکین قومی اسمبلی کی وفاداریاں تبدیل کرالیں۔ طاقتور ایجنسیوں کا معجزہ اور کرشمہ دیکھئیے کہ جنرل پرویز مشرف چھ بار عدلیہ کی حکم عدولی کرچکے ہیں۔ کبھی انکے گھر کے سامنے جعلی بم رکھ دیا جاتا ہے کبھی جنرل مشرف کو فوجی ہسپتال میں پناہ دی جاتی ہے اور کبھی شکایت کنندہ وزارت داخلہ سے سکیورٹی الرٹ کا لیٹر جاری کرادیا جاتا ہے جس کی ٹائمنگ اور خفیہ الرٹ کی تفصیل نے خفیہ عزائم کا پول کھول دیا ہے۔ جنرل مشرف کے وکیل دیدہ دلیری کے ساتھ ججوں کی توہین کرتے ہیں مگر حکمران ”خفیہ ڈیل“ کی وجہ سے خاموش ہیں۔ جو مسلم لیگی لیڈر بڑے پرجوش تھے وہ بھی اب سمجھ چکے ہیں۔ بت اپنے ہی بت تراش کے سامنے کیسے بول سکتے ہیں۔ سیاسی اور مذہبی رہنما بولنے سے قاصر ہیں ان کے ”کرتوت“ ایجنسیوں کے ریکارڈ میں ہیں۔ میڈیا خوف کا شکار ہے۔ پاکستان صحافیوں کیلئے خطرناک ملک بن چکا ہے۔ دوبار وزیراعظم منتخب ہونے والی لیڈر بے نظیر سکیورٹی نہ ہونے کی بناءپر شہید ہوگئیں۔ جنرل مشرف کی جان قیمتی ہے انکی سکیورٹی کیلئے 2100 اہلکار ڈیوٹی دے رہے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان پر آج بھی جنرل پرویز مشرف کی حکومت ہے۔ ثابت ہوا کہ یہ پاکستان کی فوج نہیں ہے بلکہ فوج کا پاکستان ہے۔ فوج قومی سلامتی اور دفاع کا ادارہ ہے اسکے بارے میں لکھتے ہوئے دل بے چین ہوتا ہے مگر کیا کیجئے فوج کے اعلیٰ افسر ایک ریٹائرڈ جرنیل کو پاکستان اور آئین سے زیادہ اہمیت دے رہے ہیں۔
فرد واحد پاکستان سے زیادہ اہم بن چکا ہے۔ پاکستان کے قومی مفادات اور 18کروڑ عوام کی تمنائیں کچھ اہمیت نہیں رکھتیں۔ ادارہ جاتی مفادات بالادست اور غالب ہیں۔ سوال یہ ہے کہ سیاسی شیر نے قومی اسمبلی میں بلند بانگ دعوے کیوں کیے تھے۔ اسی وقت قوم کو بتادیا جاتا کہ پاکستان کے حالات غداری کیس کیلئے سازگار نہیں ہیں۔ آثار بتا رہے ہیں کہ حکومت دوبار آئین شکنی کرنے والے آمر جرنیل کو سزا نہیں دینا چاہتی بس عدالتی کاروائی مکمل کرنا چاہتی ہے۔ ایک سروے کے مطابق 86 فیصد پاکستانیوں کی رائے ہے کہ جنرل پرویز مشرف اور انکے معاونین کیخلاف مقدمہ چلنا چاہیئے۔ حکمرانوں اور خفیہ ایجنسیوں کے نزدیک عوامی رائے کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ عوام تو صرف ووٹ کی پرچی پر مہر لگانے کی مشین ہیں۔ امریکہ اور سعودی شہزادوں کیلئے حکمران ہر قسم کی قربانی دینے پر تیار ہیں۔ وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار نے جنرل مشرف کو آرمی چیف بنانے کی سفارش کی تھی ان کی عسکری خاندانوں کے ساتھ عزیزداری ہے وہ جرنیل کو بچانے کیلئے خاموش تعاون کرینگے جیسا انہوں نے جنرل مشرف کو فوجی ہسپتال لے جانے کی اجازت دے کر اور سکیورٹی الرٹ کا لیٹر جاری کرکے کیا۔جنرل پرویز مشرف کو سنگین غداری کے جرم سے بچانے کیلئے تاخیری حربے استعمال کیے جارہے ہیں۔ صحت کا بہانہ بنایا گیا، انسانی ہمدردی حاصل کرنے کیلئے بیمار ماں کا نام استعمال کیا گیا۔ سکیورٹی کے خطرات کا اظہار کیا گیا اور وقت حاصل کرنے کیلئے مختلف عدالتوں میں متفرق درخواستیں دائر کی گئیں۔ یہ مو¿قف بھی اختیار کیا گیا کہ خصوصی عدالت کو فوجی کا مقدمہ سننے کا اختیار نہیں ہے اور جنرل کیخلاف مقدمہ فوجی عدالتی میں چلنا چاہیئے۔ جب سب درخواستیں مسترد ہوگئیں تو ایک نئی درخواست دائر کردی گئی جس میں مو¿قف اختیار کیا گیا کہ آئین کے آرٹیکل نمبر 6 کی شق نمبر 2 کیمطابق ان افرادکے خلاف بھی مقدمہ چلایا جائے جنہوں نے جنرل پرویز مشرف کو مشورے دئیے اور اعانت کی۔ خصوصی عدالت کے ججوں نے خوف وہراس اور جان کی دھمکیوں کے باوجود پروقار انداز میں سماعت جاری رکھی ہے۔ قوم کو اپنے ججوں پر فخر ہے جب تک جج انصاف فراہم کرتے رہیں گے پاکستان کی قومی سلامتی اور یکجہتی محفوظ رہے گی۔
پاکستان کے عوامی اور انقلابی شاعر حبیب جالب کو ہم سے جدا ہوئے 21 سال ہوگئے۔ وہ ہر دور میں عوام کی منظوم وکالت کرکے سکوت توڑتے تھے۔ انکی رحلت کے بعد عوام لاوارث ہوگئے ہیں۔ آج اگر حبیب جالب زندہ ہوتے تو تھر کے بچوں کا نوحہ لکھتے اور بے حس حکمرانوں کو للکارتے۔ انہوں نے کبھی ضمیر کا سودا نہ کیا۔ مفلسی اور تنگ دستی کے باوجود آخری دم تک اصولوں اور نظریات کے ساتھ کھڑے رہے۔ حبیب جالب کے بارے میں دلچسپ اور یادگار یادیں قلب و ذہن میں موجزن ہیں۔ بھٹو شہید میاں محمود علی قصوری سے سیاسی حالات پر مشاورت کررہے تھے حبیب جالب بھی وہاں پر موجود تھے۔ بھٹو شہید کی خواہش تھی کہ حبیب جالب پی پی پی میں شامل ہوجائیں۔ کہنے لگے حبیب جالب میرے مشکل وقت کا دوست ہے نواب کالاباغ کی دہشت سے جب فلیٹز ہوٹل میں کوئی میرے پاس نہیں بیٹھتا تھا تو یہ جالب تھا جو جلسے اور جلوسوں میں میرے ساتھ ہوتا تھا میں اسے قومی اسمبلی کا ٹکٹ دوں گا۔ اس کیلئے الیکشن میں پیسہ لگاﺅں گا اور تقریریں کروں گا۔ حبیب جالب نے کہا بھٹو صاحب میں پی پی پی میں شامل نہیں ہورہا سمند رکبھی دریا میں نہیں گرتا۔ حبیب جالب نے یہ اشعار چالیس سال پہلے کہے تھے جو آج بھی تازہ اور پرتاثیر ہیں۔
اے چاند یہاں نہ نکلا کر
بے نام سے سپنے دیکھا کر
یہاں اُلٹی گنگا بہتی ہے
اس دیس میں اندھے حاکم ہیں
نہ ڈرتے ہیں نہ نادم ہیں
نہ لوگوں کے وہ خادم ہیں
اس دیس میں گردے بکتے ہیں