احرار الہند کیخلاف کارروائی پر طالبان کو اعتراض نہیں ہو گا : پروفیسر ابراہیم
پشاور (آئی این پی+ نوائے وقت رپورٹ+ آن لائن) طالبان مذاکراتی کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم نے کہا ہے کہ طالبان کالعدم تنظیم احرار الہند کے بارے میں تحقیقات کررہے ہیں، طالبان نے جنگ بندی پر مکمل عمل کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ مذاکرات محسود علاقے میں کامیاب ہوسکتے ہیں تاہم تین مقامات زیرغور ہیں، طالبان کی حکومت کو دی گئی تجاویز میں تشدد میں ملوث نہ ہونیوالے افراد کی رہائی شامل ہے۔ حکومت کو جذبہ خیرسگالی کے تحت قیدیوں کو رہا کردینا چاہئے۔ وہ پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ خفیہ ہاتھ مذاکرات کو ناکام بنانے کی کوششیں کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کو حکومت کی تجاویز پیش کی ہیں۔ طالبان نے خیرسگالی کیلئے خواتین اور بچوں کی رہائی کیلئے کہا ہے اور انکے بارے میں طالبان نے کچھ فہرستیں بھی دی ہیں۔ پروفیسر ابراہیم نے کہا کہ طالبان سے مذاکرات کیلئے ابھی تک جگہ کا تعین نہیں ہوا، اس کیلئے میرانشاہ، بنوں ائرپورٹ اور ایف آر بنوں کے مقامات زیرغور ہیں، جگہ کے تعین کے بعد حکومتی کمیٹی کو وزیرستان لے جائیں گے لیکن طالبان نے محسود علاقے کے بارے میں کہا ہے کہ وہاں کامیاب مذاکرات ہوسکتے ہیں اور اسے فوج سے خالی کرانے کی تجویز دی ہے کیونکہ محسود کے علاقے میں طالبان کو آنے جانے میں کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ بی بی سی کے مطابق انہوں نے کہا کہ حکومت اگر احرار الہند کے مرکز پر حملے کرتی ہے تو اس پر طالبان کو اعتراض نہیں ہوگا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ طالبان سے میرا کوئی تنظیمی تعلق نہیں ہے اور طالبان کو پشاور، کوئٹہ کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی پر اعتراض نہیں۔ طالبان شوریٰ نے بتایا کہ فضائی حملوں میں معصوم لوگوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، انکو اجمل خان کی رہائی کا کہا ہے جس پر انہوں نے بتایا ہے کہ میرانشاہ میں حافظ گل بہادر کا معاہدہ ہے، ہم اسکا بھی خیال رکھتے ہیں۔ پروفیسر ابراہیم نے کہا ہے کہ طالبان کی تجاویز حکومت تک پہنچا دی ہیں، قوم کو جلد امن کا تحفہ دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات کیلئے جگہ کا تعین جلد کرلیا جائیگا، طالبان نے یقین دلایا ہے کہ آپ کو مشکل میں نہیں ڈالیں گے۔ دریں اثناء ایک بیان میں خواجہ آصف نے کہا کہ وہ وزیر دفاع کی حیثیت سے یہ بات ذمہ داری سے کہہ رہے ہیں کہ سکیورٹی فورسز کی حراست میں بچے اور خواتین نہیں ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ طالبان یا انکی رابطہ کار کمیٹی ثبوت یا فہرست فراہم کرے، حکومت اسکی تحقیقات کریگی۔ طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم نے کہا تھا کہ حکومت خیرسگالی کے طور پر قید بچوں اور خواتین کو رہا کرے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل عاصم باجوہ کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ سکیورٹی فورسز کی حراست میں کوئی خاتون اور بچہ نہیں ہے۔ آن لائن کے مطابق حکومت اور طالبان میں مذاکرات کیلئے مقام کے حوالے سے مذاکرات آج پیر کو اسلام آباد میں ہونے کا امکان ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان کی کمیٹی کے ایک سینئر رکن اور حکومتی کمیٹی کے درمیان ہونیوالے مذاکرات میں آج فیصلہ کرلیا جائیگا کہ مذاکرات کہاں کئے جائیں گے۔