لاڑکانہ میں مقدس اوراق کی بیحرمتی کا کوئی واقعہ نہیں ہوا : ابتدائی رپورٹ
لاڑکانہ (وقت نیوز+ ایجنسیاں) لاڑکانہ میں مقدس اوراق کی بے حرمتی کا واقعہ ثابت نہیں ہوا۔ دوسری جانب مختلف مذہبی جماعتوں نے ہندوئوں کے مندر اور املاک پر حملے کرنے والوں سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا ہے۔ واقعہ کی تفتیش کیلئے انتظامیہ، علما اور ہندو رہنمائوں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دیدی گئی ہے جو اس واقعہ کی شواہد اکٹھے کر کے رپورٹ مرتب کریگی۔ ابتدائی طور پر معلوم ہوا ہے کہ جرائم پیشہ افراد نے پیسوں کے لین دین کے واقعہ کو مذہبی رنگ دیا۔ مندر اور دھرم شالہ پر حملے کرنیوالوں میں مذہبی جماعتوں کے لوگ شامل نہیں تھے۔ رکن قومی اسمبلی فریال تالپور نے متاثرہ مندر کی تعمیر اور مرمت کا اعلان کیا ہے جس کیلئے اخراجات وہ خود برداشت کریں گی۔ اطلاعات کے مطابق 40 سالہ بالو عرف سنجیت لاڑکانہ کے محلے مراد واہن کا رہائشی ہے۔ اسکی دو بہنیں بیوٹی پارلر چلانے کا کاروبار کرتی ہیں۔ بالوکے گھر پر پندرہ روز قبل ڈاکہ مارکر مسلح افراد سات لاکھ کی نقدی، سونے کے زیورات چھین کر فرار ہوئے تھے جس میں اسکی بہنوں کا جہیز بھی شامل تھا۔ گھر میں لوٹ مار کا مقدمہ دڑی تھانے میں درج کیا گیا تھا۔ لاڑکانہ یونین آف جرنلسٹ کے صدر مرتضیٰ کلہوڑو کے مطابق صحافیوں کی ایک ٹیم نے بالو کے محلے کا دورہ کیا۔ محلے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ایک روز قبل کچھ لوگ انکے پاس قرآن شریف لائے تھے کہ وہ انکو رقم معاف کردے لیکن انہوں نے شرط رکھی تھی کہ انکی بہنوں کا جہیز بھی ہے اسلئے وہ رقم معاف نہیں کر سکتے۔ ایک نامعلوم ملزم نے مقدس اوراق کی بے حرمتی کا شوشہ چھوڑا اور ایس ایم ایس چلائے۔ اس واقعہ کی غیر مصدقہ خبر ایک ٹی وی چینل نے کچھ اس وثوق کیساتھ نشر کی کہ مقدس اوراق کی بے حرمتی کی گئی ہے جس کے بعد 20 موٹر سائیکلوں پر سوار مسلح افراد نے شہر کے مختلف علاقوں میں جاکر ہندوئوں کی املاک، مندر اور دھرم شالہ پر حملہ کیا اور لوٹ مار کی۔ لوگوں نے مشتعل ہو کر شہر کے مصروف علاقے رائل روڈ پر ہندوئوں کے دھرم شالہ اور مندر پر حملہ کر کے دھرم شالہ کو آگ لگا کر تباہ کردیا اس سے مندر کا کافی حصہ متاثر ہوا۔ واقعہ کی شدت کی وجہ سے پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری کو تعینات کیا گیا۔ پولیس بالو عرف سنجیت کو بہنوں سمیت بکتربند گاڑی میں گھر سے نکال کر لائے اور حراست میں لے لیا۔ لاڑکانہ پولیس کے مطابق بالو کے گھر سے کچھ جلے ہوئے اخبار کے ٹکڑے ملے ہیں لیکن ان میں کوئی مقدس ورق نہیں۔ لاڑکانہ سرکٹ ہائوس میں پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی محمد ایاز سومرو، رکن قومی اسمبلی رمیش لال، لاڑکانہ ڈویژن اور ضلعی انتظامی افسروں، جمعیت علمائے اسلام، جمعیت علماء پاکستان، جماعت اہلسنت، شیعہ علما کونسل، پاکستان سنی تحریک، جسقم سمیت دیگر سیاسی اور مذہبی جماعتوں کا ایک گھنٹے تک اجلاس ہوا جس میں مذہبی جماعتوں کے مقامی رہنمائوں نے انتظامیہ پر واضح کیا کہ مندر پر حملہ کرنے والے شرپسندوں سے انکا کوئی تعلق نہیں سازش کو بے نقاب کیا جائے۔ مذہبی جماعتیں ہندو برادری کے ساتھ ہیں۔ ہندوئوں کے ہولی کے دن ہندو اور مسلمانوں کو لڑانے کی سازش کی گئی۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ شرپسندوں کی نشاندہی کی جائے چاہے اس کا تعلق جس سے بھی ہو۔ بعد میں مسلمانوں کی بڑی تعداد نے دھرم شالہ پہنچ کر ہندوئوں کو ہولی کی مبارکباد دی۔ جئے سندھ محاذ کی جانب سے مذہبی انتہاپسندی کیخلاف شہر میں امن ریلی نکالی گئی۔ جناح باغ چوک پر مختلف سیاسی، سماجی جماعتوں کی جانب سے مندر پر حملے اور مذہبی انتہاپسندی کیخلاف احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔ سندھ کے علاوہ بلوچستان کے علاقوں اوستہ محمد میں بھی ہندو کمیونٹی کی چار دکانوں کو نذر آتش کیا گیا۔ لاڑکانہ میں جناح باغ میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا شہر میں ہڑتال رہی۔ جعفرآباد میں پولیس اور مظاہرین میں تصادم ہوا، ہندوئوں کی عبادت گاہوں کو بچانے کیلئے انتظامیہ میدان میں آ گئی، شیلنگ فائرنگ پتھرائو سے 20 سے زائد افراد شدید زخمی 16 دکانیں نذر آتش کردی گئیں، ایف سی طلب کر لی گئی۔ شہر میں بکتر بند گاڑیوں کا گشت سارا دن جاری رہا، جعفرآباد، صحبت پور اور اوستہ محمد میں مکمل ہڑتال کی گئی، احتجاج کیا اور ریلیاں نکالیں۔ عرصہ دراز سے قائم ہندووں کی عبادتگاہوں کی حفاظت کیلئے پولیس کی بھاری نفری نے کمان سنبھال لیا۔ مظاہرین جونہی مندروں کو جلانے کیلئے آگے بڑھے پولیس نے مظاہرین کو روکنے کیلئے آنسو گیس کی شیلنگ اور سیدھی گولیاں فائر کیں جس سے ایک پولیس ا ہلکار سمیت تین افراد زخمی ہوگئے۔ پولیس پر مظاہرین نے پتھرائو کیا پتھرائو لاٹھی چارج کے نتیجے میں ڈیرہ اللہ یار اور صحبت پور میں 20 افراد زخمی ہوگئے۔ بلوچستان کے ضلع جعفرآباد کے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ڈیرہ الہ یار، اوستہ محمد، صحبت پور اور مانجھی پور میں بعض افراد نے اقلیتی برادری کی عبادتگاہوں پر حملے کی کوشش کی۔ مظاہرین کو روکنے کیلئے پولیس نے لاٹھی چارج کیا اور آنسو گیس کے استعمال کے علاوہ ہوائی فائرنگ بھی کی۔ جھڑپوں کے دوران ڈیرہ اللہ یار میں پولیس اہلکار سمیت 3 جبکہ صحبت پور میں ایک پولیس اہلکار سمیت 2 افراد زخمی ہو گئے۔ پولیس نے ذمہ دار شخص کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام پرمنتقل کردیا۔ سندھ اور بلوچستان میں واقع عبادت گاہوں کی سکیورٹی کو مزید سخت کردیا ہے۔ لاڑکانہ میں مشتعل افراد نے ایک ہندو کمیونٹی سینٹر کو نذر آتش کر دیا گیا۔ جیکب آباد میں حفاظتی انتظامات سخت کر دئیے گئے۔ پولیس اور رینجر ز نے شہر میں گشت کیا جبکہ ایم این اے میر اعجاز خان جاکھرانی نے ڈی سی کے ساتھ شہر کے مندروں کا دورہ کرکے ہندو رہنمائوں سے ملاقات کی اور انکے تحفظ کی یقین دہانی کرائی۔ جے یو آئی اور جماعت اہلسنت نے کارکنوں اور شہریوں کو پرامن رہنے کی اپیل کی۔ وزیراعظم ڈاکٹر نوازشر یف کا لاڑکانہ میں اقلیتوں کے مقدس مقام پر پیش آنیوالے ناخوشگوار واقعے پر اظہار افسوس‘ چاروں صوبائی حکومتوں کو اقلیتوںکا تحفظ یقینی بنانے کیلئے سخت اقدامات کرنے کی ہدایت کردی ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق وزیراعظم نوازشریف نے لاڑکانہ کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے سندھ حکو مت کو یہ بھی ہدایت کی کہ ذمہ داروں کے خلاف سخت کاروائی کی جائے، اسکے ساتھ ساتھ وزیر اعظم نے لاڑکانہ جیسے واقعات کے تدارک کیلئے تمام صوبائی حکو مت کو سخت انتظامات اور اقلیتوں کے مقدس مقامات کیلئے سیکورٹی انتظامات کر نے کی بھی ہدایت کی۔ کمشنر لاڑکانہ ڈاکٹر سعید نے تحقیقات کیلئے 4 رکنی کمیٹی قائم کر دی ہے، جعفر آباد میں پولیس کی فائرنگ سے 3 مظاہرین زخمی ہوگئے۔ احتجاج اور ہڑتال کے باعث نظام زندگی معطل ہو کر رہ گیا۔ انتظامیہ نے صورتحال قابو میں رکھنے کیلئے ضلع بھر میں موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی لگا دی ہے۔ گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے لاڑکانہ میں مقدس اوراق کے بے حرمتی کے واقعہ کا نوٹس لے لیا۔ انہوں نے متعلقہ حکام کو ہدایت دی کہ عوام کی جان و مال اور املاک کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے قائم الطاف حسین نے بھی واقعہ پر اظہار افسوس کیا ہے۔ لاڑکانہ میں ابھی تک غیر اعلانیہ کرفیو نافذ ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے واقعہ کی رپورٹ طلب کر لی ہے۔ سندھ کے وزیر اطلاعات و بلدیات شرجیل انعام میمن نے کہا ہے کہ اسلام امن، اخوت اور محبت کا مذہب ہے۔ لاڑکانہ سانحہ کے بعد اقلیتوں کی عبادت گاہ پر حملہ قابل مذمت ہے۔ لاڑکانہ پولیس نے بے حرمتی کرنیوالے شخص کو گرفتار کر لیا ہے اور اسکے خلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی عمل میں لائی جائیگی۔