یو ایس ایف کیس: عدالت کو سرکار چلانے پر مجبور کیا جا رہا ہے‘ عوام کے ایک ایک ٹکے کا حساب ہو گا: سپریم کورٹ
اسلام آباد(آن لائن) سپریم کورٹ میں یو ایس ایف فنڈز کیس میں تین رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت کو سرکار چلانے پر مجبور کیا جارہا ہے‘ ہمیں اچھا نہیں لگتا کہ ہم سرکار چلائیں اور نہ ہی آڈیٹر جنرل کو چلانا ہمارا کام ہے‘ آرٹیکل 170 کے تحت آئی ایس آئی اور وفاقی وزارت اطلاعات کے تحت تمام خفیہ فنڈز سمیت تمام اداروں کا آڈٹ کرنے کا آڈیٹر جنرل کو اختیار ہے اور اس حوالے سے عدالت پہلے ہی فیصلہ دے چکی ہے کہ عوام کے ایک ایک ٹکے کا حساب لیا جائے گا‘ سات مالی سال گزر چکے ہیں اور 37 سرکاری ادارے اپنا آڈٹ کرانے کو تیار نہیں‘ یو ایس ایف فنڈز کمپنی نہیں ہے کہ جس کا آڈٹ نہ ہوسکے‘ قانون بنے ہوئے بھی آٹھ سال کا عرصہ گزر گیا مگر ادارے آڈٹ کرانے سے گریزاں ہیں‘ عدالت عوامی فنڈز کے حوالے سے شفافیت چاہتی ہے‘ عدالت اور آڈیٹر جنرل عوامی فنڈز کے نگران ہیں اور جب بھی ادارے قانون کی خلاف ورزی کریں گے عدالت اور آڈیٹر جنرل اپنا کردار ادا کرنے پر مجبور ہوں گے‘ حکومت بتادے کہ پبلک اکائونٹس عوام کا پیسہ نہیں ہے تو پھر ہم کسی شفافیت پر اصرار نہیں کریں گے۔ پچھلے سال یو ایس ایف ساڑھے پانچ ارب روپے کما رہا تھا اب یہ فنڈز وفاق کے پاس جانے کے بعد یہ ایک ٹکا بھی نہیں کمارہا ہے۔ اس طرح کی اجازت تو نہیں دیں گے۔ ان فنڈز کے نتائج کیا ہوں گے یہ بھی دیکھنا ہوگا۔ ابھی تو یہ بھی دیکھنا ہے کہ رولز میں کیا تھا اور اٹھارہویں ترمیم میں کیا کردیا گیا ہے۔ اگر وفاقی حکومت قانون کے مطابق بھی یہ پیسہ لے گی تب بھی اس کا فائدہ یو ایس فنڈز کو نہیں ہوگا۔ جسٹس جواد نے کہا ہم نے وضاحت مانگی تھی کہ کیا یہ فنڈز کنسالیڈیٹڈ فنڈز میں منتقل کئے جاسکتے ہیں یا نہیں۔ آڈیٹر جنرل کو یہ ایشو سمجھ میں آگیا ہے یا نہیں۔ آڈیٹر جنرل نے کہا کہ اس کا معاملہ قانون کے مطابق ہی چلانا ہے۔ عدالت نے پوچھا کہ کیا آپ یو ایس ایف کا آڈٹ کرتے ہوں گے۔ آڈیٹر جنرل نے کہا کہ فنڈز کے حوالے سے رولز 2006 بنے ہوئے ہیں۔ اس کا آڈٹ نہیں ہوا۔ ہمارے دو فیز ہوتے ہیں۔ ایک جولائی سے دسمبر اور دوسرا جنوری سے جون تک ہوتا ہے۔ ہم نے سب کا آڈٹ کرنا ہوتا ہے۔ 37 اداروں کی فہرست میں یو ایس ایف شامل نہیں تھا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آڈیٹر جنرل عوام کے ایک ایک ٹکے کے نگران ہیں۔ ایک ایک ٹکے کا آپ نے حساب لینا ہے۔ سرکار کے اوپر آپ کو اور ہمیں نگران کے طور پر بٹھایا گیا ہے۔ 62 ارب روپے منتقل ہوئے ہیں ان کی آپ نے نگرانی کرنی ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ شفاف معاملات ہوں تو کسی کو کوئی عذر نہیں ہوسکتا۔ یہاں شفافیت تو نظر آئے۔ کچھ بھی تو واضح نہیں ہے۔