• news

مشرف نے اسامہ کی حفاظت کیلئے آئی ایس آئی میں ڈیسک بنایا تھا : نیویارک ٹائمز‘ دعوی بے بنیاد ہے : انٹیلی جنس حکام

اسلام آباد (سپیشل  رپورٹ) نیویارک  ٹائمز میں  شائع ہونے والی رپورٹ میں جہاں اسامہ  بن لادن کی پاکستان میں موجودگی کا  آئی ایس آئی کو علم ہونے کا  دعویٰ کیا گیا ہے وہاں یہ  بھی کہا گیا ہے کہ  2009 ء میں اسامہ  بن  لادن  پاکستان کے مختلف شہروں میں گھومتا رہا اس  کا کانوائے سکیورٹی چیک پوسٹس سے   آسانی سے گزر جاتا تھا۔ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ امریکی صحافی شارلٹ گال کی کتاب سے  لی گئی ہے جو جلد شائع  ہو گی۔ کتاب میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ  پاکستانی جہادی لیڈر قاری سیف اﷲ اختر 1988ء میں خوست میں  اسامہ  بن لادن پر  حملے کے  بعد اسے  بچا کر لے گیا تھا۔  قاری سیف اﷲ اختر نے  اسامہ  بن  لادن سے درخواست کی کہ پاکستانی فورسز کے خلاف جنگ میں اس کی اور اس کے  ساتھیوں کی مدد کی جائے  لیکن رپورٹ کے مطابق اسامہ  بن لادن نے قاری سیف اﷲ اختر کی درخواست  یہ کہہ کر مسترد کر دی تھی کہ پاکستان کی فوج پر حملے نہ کئے جائیں‘ اس طرح  وہ  اپنی بنیاد کو کمزور  کر دیں گے۔ رپورٹ کے مطابق اسامہ نے  قاری سیف اﷲ اختر سے کہا کہ ’’آپ جہاز میں چھید کریں گے تو وہ  ڈوب جائے گا‘‘ اسامہ  بن لادن کی خواہش تھی کہ  طالبان مزید جنگجوؤں کو ریکروٹ کریں تاکہ افغانستان میں امریکہ کے خلاف لڑائی کو پھیلا کر اسے  پھنسایا جائے۔ رپورٹ کے مطابق اسامہ  بن لادن نے کہا تھا کہ   مستقبل میں پاکستان ‘ افغانتسان‘ صومالیہ‘ بحر ہند جنگ کے میدان ہوں گے۔  اسامہ نے  یہ  بھی کہا تھا کہ القاعدہ اور اس کے مخالفین کے درمیان مستقبل کی بڑی جنگیں سمندروں میں ہوں گی۔ اسامہ  بن لادن نے عسکریت پسندوں کو   بحری جنگوں کی تربیت دینے پر زور دیا تھا۔  رپورٹ کے مطابق قاری سیف اﷲ اختر نے بے نظیر  بھٹو کے قتل کی منصوبہ  بندی کی تھی۔ اسامہ بن لادن کے حافظ سعید اور  ملّاعمر کے  ساتھ گہرے رابطے  تھے۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ واشنگٹن میں بعض لوگوں کو معلوم تھا کہ  آئی ایس آئی کے سابق سربراہ  لیفٹیننٹ جنرل (ر) شجاع پاشا کو اسامہ  بن  لادن کی موجودگی کا علم تھا۔ رپورٹ کے  مصنف کا کہنا ہے کہ اس نے اکوڑہ خٹک کے  مدرسہ کا دورہ  کیا۔  افغانستان میں برسرپیکار ہزاروں جنگجو اکوڑہ خٹک کے مدرسے میں زیر تعلیم رہے ہیں۔ نیویارک ٹائمز نے پاکستان مخالف مہم میں حصہ لیتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف نے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کے تحفظ کیلئے آئی ایس آئی میں سپیشل ڈیسک قائم کیا تھا اور  سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل پاشا کو پاکستان میں اسامہ بن لادن کے ٹھکانے کا علم تھا، امریکی حکام جنرل پاشا کے اس اقدام پر حیران تھے۔ نیویارک ٹائمز کی نمائندہ شارلٹ گالز نے اپنے ایک مضمون میں الزام عائد کیا ہے سابق صدر پرویز مشرف نے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو پاکستان میں تحفظ فراہم کیا۔ سابق صدر نے اسامہ بن لادن کے تحفظ کے لئے پاکستان میں سپیشل ڈیسک قائم کیا تھا۔ اسامہ بن لادن کے تحفظ کے لئے قائم کیا جانے والے سپیشل ڈیسک صرف ایک شخص نے بنایا تھا جو کسی دوسرے کو جوابدہ نہیں تھا۔ اخبار میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکہ اور پاکستانی حکومتوں کے ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل پاشا کو پاکستان میں اسامہ بن لادن کے ٹھکانے کا علم تھا۔ امریکی حکام جنرل پاشا کے اس معاملے میں ملوث ہونے پر حیران تھے کیونکہ جنرل پاشا امریکیوں کے ساتھ مل کر طالبان کے خلاف سرگرم عمل تھے تاہم امریکہ نے اس وقت یہ معاملہ اس لئے نہیں اٹھایا کہ اس دوران پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پہلے ہی مشکلات کا شکار تھے۔ اخبار نے دعویٰ کیا کہ پاکستان انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی کے کچھ سیل شدت پسندوں اور طالبان کے خلاف کام کر رہے تھے جبکہ کچھ سیل ان کی حمایت کر رہے تھے۔ پاکستانی انٹیلی جنس اداروں نے نیویارک ٹائمز کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی اخبار کے دعوے بے بنیاد ہیں ان دعووں میں کسی قسم کی حقیقت نہیں پاکستان میں اسامہ بن لادن کے ٹھکانوں سے متعلق کسی کو بھی علم نہیں تھا۔ اخبار کے مطابق اسامہ کے بچاؤ کیلئے آئی ایس آئی میں بنایا گیا سپیشل ڈیسک صرف ایک شخص نے بنایا، جو کسی دوسرے کو جوابدہ نہ تھا۔ مضمون میں کہا گیا  ہے کہ اسامہ بن لادن کا حافظ سعید سے براہِ راست رابطہ تھا۔ اخبار نے دعوی کیا کہ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کا منصوبہ  القاعدہ  کی میٹنگ  میں کیا گیا انہیں  راہ سے ہٹانے کی سازش میں پرویزمشرف کا ہاتھ ہے۔ اسٹیبلشمنٹ  نے طالبان کے ہاتھوں بے نظیر بھٹو کو مروا دیا۔  اسٹیبلشمنٹ  نے طالبان کو ہمیشہ اپنے مقصد کیلئے استعمال کیا۔ میجز جنرل (ر) راشد قریشی نے کہا ہے کہ پرویز مشرف سے متعلق امریکی اخبار کی رپورٹ بے بنیاد ہے۔ امریکی اخبار کی رپورٹ میں کوئی حقیقت نہیں۔ اس خبر میں کوئی صداقت نہیں کہ پرویز مشرف القاعدہ اور طالبان کے حامی تھے۔  طالبان نے 3 بار پرویز مشرف پر حملہ کیا۔ امریکہ جانتا ہے کہ نواز حکومت پرویزمشرف کو پسند نہیں کرتی۔ احمد شجاع پاشا جنرل مشرف کے دور میں ڈی جی آئی ایس آئی نہیں تھے۔ امریکہ کو اگر شک ہوتا تو اسامہ بن لادن کو زندہ گرفتار کیا جاتا۔   بی بی سی کے مطابق رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ پاکستانی فوج کے اعلیٰ افسروں کو اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی کے بارے میں علم تھا اور آئی ایس آئی میں ایک ’سپر سیکرٹ سیل‘ قائم تھا جو اسامہ بن لادن کو ہینڈل کرتا تھا۔ رپورٹ مکمل طور پر ذرائع کے حوالے سے ہے۔ اس رپورٹ میں صرف ایک مرتبہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل ضیاء الدین بٹ کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ان کے خیال میں پرویز مشرف نے اسامہ بن لادن کے ایبٹ آباد میں چھپنے کے انتظامات کئے ہوں گے۔ البتہ جنرل ضیاء الدین بٹ نے واضح انداز میں کہا کہ ان کے پاس اسامہ بن لادن کو چھپانے کے کوئی شواہد موجود نہیں۔ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد ایک پاکستانی اہل کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر رپورٹر کو بتایا کہ اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ شجاع پاشا کو اسامہ بن لادن کی پاکستانی سرزمین پر موجودگی کا علم تھا۔ رپورٹ میں یہ بھی کہاگیا ہے کہ امریکی اہل کاروں نے نیویارک ٹائمز کے صحافیوں کے پوچھنے پر بتایا کہ ان کے پاس ایسے کوئی شواہد نہیں ہیں جن سے ثابت ہوتا ہو کہ پاکستان کے اعلیٰ فوجی یا سویلین اہل کاروں کو اسامہ بن لادن کی موجودگی کا علم تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے اسامہ بن لادن کے گھر سے ملنے والی ہاتھ سے لکھی ہوئی تحریروں، خطوط اور کمپیوٹر کی فائلوں سے یہ ظاہر نہیں ہوتا ہے کہ اسامہ بن لادن کا پاکستان کے کسی اہل کار سے تعلق تھا۔ البتہ اسامہ بن لادن کے گھر سے ملنے والی دستاویزات سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کے لشکر طیبہ کے سربراہ حافظ محمد سعید اور ملا محمد عمر سے روابط تھے۔ حافظ سعید اور ملاعمر آئی ایس آئی کے وفادار ملڑی کمانڈر ہیں اور آئی ایس آئی کو اسامہ بن لادن کے خط و کتابت کا یقیناً علم ہو گا۔ اسامہ بن لادن صرف گھر تک محدود نہیں تھے بلکہ وہ کبھی کبھار شدت پسندوں سے ملاقات کے لئے جاتے تھے۔ اسامہ بن لادن نے 2009 میں شدت پسند رہنما قاری سیف اللہ اختر سے ملاقات کے لیے رات کی تاریکی میں وزیرستان کا دورہ کیا تھا۔ قاری سیف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ملاعمر کو موٹر سائیکل پر بٹھا کر افغانستان فرار کروایا تھا اور 1998 میں اسامہ بن لادن کو امریکی میزائل حملے سے بچنے میں مدد کی تھی۔ رپورٹ کے مطابق قاری سیف اللہ آئی ایس آئی کا ’قیمتی اثاثہ‘ مانا جاتا ہے۔ قاری سیف اللہ پر الزام لگتا رہا ہے کہ انھوں نے بینظیر بھٹو کے قتل کی منصوبہ بندی کی تھی۔ قاری سیف اللہ کو کئی بار پاکستان کے سرکاری اداروں نیگرفتار کیا لیکن ہر بار انھیں چھوڑ دیا گیا۔ جب اسامہ بن لادن نے وزیرستان میں قاری سیف اللہ کیگھر کا دورہ کیا تو وہاں ان سے راولپنڈی میں پاکستانی فوج کے ہیڈکوارٹر پر حملے کی اجازت مانگی تھی جسے اسامہ بن لادن نے نامنظور کیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق وزیرستان میں ہونے والی اس میٹنگ میں اسامہ بن لادن نے نہ صرف جی ایچ کیو پر حملے کو نامنظور کیا تھا بلکہ جہادی گروہوں کو ہدایت کی تھی کہ وہ پاکستان کے خلاف جنگ نہ کریں اور اپنی پوری توجہ امریکہ کے خلاف جنگ پر مرکوز کریں۔ اسامہ بن لادن نے شدت پسندوں کو بتایا کہ اگر وہ پاکستان کے اندر جنگ کریں گے تو وہ اپنے ٹھکانے کوتباہ کر دیں گے۔ رپورٹ کے مطابق اسامہ بن لادن نے میٹنگ کو بتایا: ’اگر آپ جہاز میں سوراخ کریں گے تو اس سے جہاز ڈوب جائے گا۔‘ اسامہ بن لادن نے سیف اللہ اختر کو ہدایت کی کہ وہ امریکی افواج کے خلاف جنگ کے لیے نئے لوگوں کو بھرتی کرنے پر توجہ دیں۔ قاری سیف اللہ اختر پاکستان میں کئی مدرسے چلاتے ہیں۔ اسامہ بن لادن نے کہا کہ آنے والے برسوں میں افغانستان، پاکستان، صومالیہ اور بحیرہ ہند القاعدہ کا میدان جنگ ہوگا اور القاعدہ کو اس کے لیے اور جنگجوؤں کی ضرورت ہے۔ اسامہ بن لادن نیجنگجوؤں کو سمندر میں لڑنے کی تربیت کی بھی پیشکش کی۔ اسامہ بن لادن نے کہا کہ امریکہ جلد ہی افغانستان سے چلا جائے گا اور اگلی جنگ سمندروں میں لڑی جائے گی۔ رپورٹر نے دعویٰ کیا ہے کہ اسے ایک ذریعے نے بتایا کہ آئی ایس آئی میں اسامہ بن لادن کو ہینڈل کرنے کے سپیشل ڈیسک قائم تھا۔ یہ ڈیسک ایک ایسا افسر چلاتا تھا جو مکمل طور پر خود مختار تھا اور وہ اپنے فیصلے خود کرتا تھا اور اس کے فرائض میں صرف اور صرف ایک شخص کو ہینڈل کرنا تھا جس کا نام اسامہ بن لادن تھا۔ آئی ایس آئی کا یہ مکمل طور پر خود مختار شخص اپنے اعلیٰ افسروں کو بھی رپورٹ نہیں کرتا تھا۔ دو سابق امریکی اہلکاروں نے رپورٹر کی معلومات کی تائید کی اور بتایا کہ اس سیل کے بارے ان کی معلومات رپورٹر کی معلومات سے مطابقت رکھتی ہیں۔ رپورٹر کا کہنا ہے کہ افغانوں اور طالبان فائٹروں کو اس سیل کے بارے میں معلوم تھا لیکن آئی ایس آئی کا ہر شخص اس ’سپر سیکرٹ‘ سیل کی تردید کرتا ہے۔ رپورٹر نے دعویٰ کیا ہے کہ اسے اندرونی ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ پاکستانی فوج کی اعلی کمانڈ کو اس بارے میں علم تھا۔
لاہور (خصوصی نامہ نگار) امیر جماعۃ الدعوۃ پروفیسر حافظ سعید نے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی اس رپورٹ کہ’’ اسامہ بن لادن کا حافظ سعید سے براہ راست رابطہ تھا‘‘ کو سراسر بے بنیاد اور جھوٹ کا پلندہ قرار دیا ہے اور کہا ہے میرا اسامہ بن لادن سے کبھی کوئی رابطہ نہیں رہا۔ امریکہ کے پاس اس حوالہ سے کوئی تحریری یا دستاویزی ثبوت ہے تو وہ پیش کرے۔ ہم کسی بھی بین الاقوامی عدالت میں ان الزامات کا جواب دینے کے لئے تیار ہیں۔ اپنے بیان میں انہوں نے کہا جھوٹ کی بنیاد پر میڈیا میں پروپیگنڈے کرنا امریکیوں کا پرانا وطیرہ ہے۔ امریکہ نے بغیر کسی ثبوت کے عراق میں لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کیا لیکن بعد میں کہہ دیا گیا کہ وہاں سے کوئی کیمیائی ہتھیار نہیں ملے۔ جب امریکہ نے ایبٹ آباد میں آپریشن کرکے اسامہ بن لادن کے قتل کا دعویٰ کیا تھا اور کسی کو دکھائے بغیر اس کی نعش سمندر برد کر دی تھی اس وقت بھی نیویارک ٹائمز نے یہ الزام لگایا تھا کہ حافظ سعید کا اسامہ سے رابطہ تھا۔ اسی طرح امریکہ نے میرے سر کی دس ملین ڈالر قیمت مقرر کی لیکن جب میں نے چیلنج کیا کہ میرے خلاف اس کے پاس کوئی ثبوت ہے تو سامنے لائے تو امریکہ نے ساتھ ہی پینترا بدل لیا اور کہا  ہم نے تمہارے خلاف معلومات حاصل کرنے کیلئے انعام کا اعلان کیا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کے پاس اب بھی کوئی معلومات نہیں وہ صرف اور صرف جھوٹا پروپیگنڈا کرکے دنیا کو گمراہ کرنا چاہتا ہے۔ ان حالات میں کہ جب حکومت ‘ طالبان کے درمیان مذاکرات جاری ہیں اور جماعۃ الدعوۃ ملک میں اتحاد و یکجہتی کی فضا پیدا کرنے اور فکری انتشار کے خاتمہ کیلئے ملک گیر سطح پر احیائے نظریہ پاکستان مہم چلارہی ہے۔ مذہبی و سیاسی جماعتوں سے رابطے و ملاقاتیں کی جارہی ہیں اور 23مارچ کو پورے ملک میں نظریہ پاکستان مارچ، جلسوں اور کانفرنسوں کا انعقاد کیا جا رہا ہے‘ امریکہ کی طرف سے نئے الزامات کے تحت جھوٹے اور بے بنیاد پروپیگنڈے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ امریکہ پاکستان میں کسی صورت امن و امان نہیں چاہتا اور پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار رکھنا چاہتا ہے۔ ہم صاف طور پر کہتے ہیں کہ امریکہ کے پاس کوئی ثبوت نہیں تو اسے الزامات کا یہ سلسلہ ختم کرنا چاہئے۔ 

ای پیپر-دی نیشن