• news

بغلگیری کے لمحات میںعمران کی ذاتی”سرگوشی “

 عمران خان اور نواز شریف کے بغلگیر ہونے کے بانکپن کے بے ساختہ پن کی تصویر کے سامنے کوئی تحریر بلکہ ” میری تحریر“ بھی کمتر ہے۔لمبے تڑنگے اپنے طورپر عالمی سطح کے ملک حسن ( ملکہ حسن کے مذکر) عمران خان درمیانے قدو قامت والے نواز شریف سے ملے کہ لطف آگیا۔ عمران خان نواز شریف سے گلے ملنے کیلئے بڑی لجاجت شرمندگی اور احترام سے جھکے ہوئے ہیں تاکہ نواز شریف کے سینے سے لگ سکیں۔ اس طرح تو کبھی عمران خان اپنے محترم والد اکرام اللہ خان سے نہ ملے تھے۔نواز شریف بازی لے گئے۔ وہ ” صدر“ زرداری کی سیاست سے آگے نکل گئے۔ وہ عمران سے عمر میں ایک دو سال چھوٹے ہونگے مگر اس تصویر میں بڑے لگ رہے ہیں۔ یوں بھی یہاں احترام اور شرمندگی مل جائیں تو عجیب ادائے عاجزانہ پیدا ہوتی ہے وہ بہت بڑے لگ رہے ہیں اس تصور کے لئے میں کس کس کو مبارکباد دوں۔ وزیر اطلاعات پرویز رشید کو مگر وہ میری اچھی بات پر بھی ناراض ہوجاتے ہیں۔ ہم گارڈن کالج پنڈی میں ایک ساتھ تھے۔ وہ مجھے استاد محترم کہتے ہیں اور میں اُن کو ” بڑا استاد“ سمجھتا ہوں۔ ان کی صدارت میں سرکاری محفلوں کے اندر مجھے ” سزا“ کے طورپر نہیں بلایاجاتا جبکہ میں اسے جزا سمجھتا ہوں کہ کاغذی اور عارضی حکمرانوں سے ملنا میرے لئے بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ برادرم محی الدین وانی کو مبارکباد دوں مگر اصل مبارکباد کا مستحق وہ فوٹو گرافر ہے جس نے یہ تصویر عمران خان کی سیاسی تقدیر بنادی مگر اس کی تقدیر تو وزیراعظم پاکستان بننا ہے۔
 عمران خان کو نواز شریف بھی وزیراعظم بنادے تو وہ خوشی سے قبول کرلیں گے مگر انہیں اصل افسوس جنرل مشرف پر ہے کہ انہوں نے وعدہ کرکے عمران کو وزیراعظم نہ بنایا تھا۔ اپنی کچن کیبنٹ میں عمران نے کہا کہ جنرل مشرف کو اسی وعدہ خلافی کی سزا مل رہی ہے ۔عمران نے اپنے پہلے مصنوعی بڑے جلسے میں کہا تھا۔ نواز شریف جان دیو۔ ساڈی واری آن دیو....” وادی“ کے لئے ” واری صدقے “ ہونے کا موقعہ آیا ہے تو عمران نے بڑی فیاضی سے نواز شریف کے لئے ایک معمولی کارکن کی طرح خدمت گزاری کا حق ادا کردیا ہے۔ جبکہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ نواز شریف جیسی فیاضی کوئی نہیں کرسکتا۔اس کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ ” صدر “ زرداری کئی بار رائے ونڈ میں نواز شریف سے گلے ملنے جاچکے ہیں۔بنی گالا اسلام آباد بھی رائے ونڈ لاہور محل سے اتنا کم نہیں ہے۔ توفیق بٹ نے بنی گالا کوبنی گالی کہا ہے۔
بغلگیری کے تاریخ ساز لمحوں میں عمران نے ” ذاتی سرگوشی“ کی جو ” مزیدار شرگوشی“ سے مختلف نہ تھی جو بہت پرائیویٹ ملاقاتوں میں عمران کیا کرتے ہیں۔ مگر جو خبر ملی ہے وہ یہ ہے کہ عمران نے وزیراعظم نواز شریف سے ” انصاف محل“ کے اردگرد تجاوزات ہٹانے کی درخواست پیش کی اور یہ بھی کہا کہ میرے اور محکوم علاقے صوبہ خیبر پختون خواہ میں چیف سیکرٹری اس کو لگائیں جو بے چارے پرویز خٹک کو میری ہدایت کے مطابق حکمرانی کرنے دے۔ من مانی کرنے دے۔ چیف سیکرٹری ارباب شہزاد کے لئے سنا ہے وہ نہایت دلیر دیانت دار زبردست افسر ہیں۔تحریک انصاف والوں کے علاوہ سب اُن کی تعریف کرتے ہیں اگلی ملاقات میں عمران نواز شریف سے آئی جی پولیس خیبر پختون خواہ کے تبادلے کا مطالبہ بھی کریں گے۔ وہ بھی بہت خود دار اور جینوئن پولیس افسر ہیں۔ ان سے توفیق بٹ کے گھر پر ملاقات بھی ہوئی ہے۔ اچھے آدمی ہیں۔ اس دوران دھاندلی کی شکایت نہ کی اور نہ 35 پنکچرز کی بات کی ۔ جبکہ نجم سیٹھی کا حال چال پوچھا اور دعا کی کہ ان کی قیادت میں ہم اگلا کرکٹ ورلڈ کپ جیت کے لائیں۔ اس پر صرف چوہدری نثار نے آمین کہا کہ ان کی بھی تعریف عمران خان نے کی ہے۔ چوہدری صاحب بھی زبردست سیاستدان بن کے سامنے آئے ہیں۔ وہ بھی قومی اسمبلی میں عمران سے بغلگیر ہوتے تھے۔ شیخ رشید نے کہا تھا بغل میں چھری منہ میں رام رام مگر یہ بات چودھری نثار کے ساتھ شیخ صاحب کے شکست خوردہ حسد کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اب بھی نواز شریف کے ساتھ ملاقات کی دعوت میں عمران نے شیخ صاحب کو نہیں بلایا۔ جس کا اندر سے شیخ صاحب نے برا منایا ہے۔ عمران خان کم از کم یہ تو کرتے کہ مولانا فضل الرحمن کو بلا لیتے یا نواز شریف اپنے ساتھ مولانا صاحب کو لے جاتے۔ اس سے بھی عمران بغلگیر ہوتے اور اپنا کوئی ”ذاتی“ کام کہہ دیتے۔ میری سکیورٹی کے لئے طالبان کو مقرر کیا جائے۔ جو مذاکرات کے حامی ہوں مگر لڑنے کے لئے تیار ہوں۔ اب شیخ رشید لال حویلی میں نواز شریف کو بلائیں اور اس دعوت میں عمران کو نہ بلائیں۔ یہاں وہ چودھری شجاعت کو ضرور بلائیں شیخ صاحب بنی گالا کے آس پاس چائے پانی پکوڑے بیچنے والوں کو لال حویلی میں جگہ دیں جو ناجائز تجاوزات کے نام پر ظلم کا شکار ہوئے ہیں۔ 100 کنال کے محل میں رہنے والے کو معلوم نہیں کہ ان لوگوں کے پاس پانچ سوانچ زمین بھی نہیں ہے۔ رائے ونڈ محل کے رہنے والے نواز شریف نے عمران کے محل کی تعریف کی ہے تو سوچیں کہ یہ کیسا محل ہو گا۔ محل میں رہنے والوں کو گلی محلے میں رہنے والوں کی زندگی کی کوئی خبر نہیں ہوتی۔ نواز شریف نے طالبان خان کے جوتوں کی تعریف کی۔ اور پوچھا کہ یہ جوتے یقیناطالبان نے تحفے میں دیئے ہوں گے بنی گالا میں جو بھاری اسلحہ ہے وہ بھی طالبان نے دیا ہے۔ خدا کی قسم اگر طالبان کمیٹی میں شرکت سے عمران اپنی سیاست کے ڈر سے انکار نہ کرتے تو کوئی نہ کوئی نتیجہ ضرور نکلتا مگر عمران روایتی سیاستدان ہے وہ طالبان کو بھی اپنی سیاست کے لئے استعمال کر رہا ہے۔ طالبان اس سے بڑے ”خان“ ہیں۔ انہوں نے طالبان لانگ مارچ کے لئے عمران کو وزیرستان میں داخل نہیں ہونے دیا تھا۔ وہ بھی اس پر اعتبار نہیں کرتے۔ اس پر دوست دشمن اعتبار نہیں کرتے پھر بھی وہ اپنے آپ کو معتبر سمجھتا ہے۔ مجھے نواز شریف معاف رکھیں تو میں کہوں کہ وہ بھی عمران کو قابل اعتبار نہیں سمجھتے۔ جنرل پاشا کے علاوہ کوئی جرنیل اسے قابل اعتبار نہیں سمجھتا۔ البتہ اس نے نواز شریف سے ملاقات کسی نہ کسی جرنیل کے حکم پر کی ہے۔ نواز شریف کو بھی کسی ہدایت پر عمل کرنا پڑا ہے۔ نواز شریف کامیاب ہوا ہے بلکہ اس نے عمران کو سب سے بڑی ناکامی سے دوچار کر دیا ہے۔
جاوید ہاشمی تو اس دن ناکام ہو گیا تھا جب اس نے ن لیگ چھوڑی تھی۔ اب وہ عمران سے پوچھے کہ نواز شریف میرا لیڈر ہے یا آپ کا لیڈر ہے۔ کاش عمران کی دھمکی پر جاوید ہاشمی اپنا بیان واپس نہ لیتا۔ اس کا نقصان یہ بھی ہوا کہ جاوید ہاشمی کے ساتھ میری دوستی نہیں رہی۔
نواز شریف دیر تک جاوید ہاشمی سے ہاتھ ملا کے مسکراتے رہے۔ دل ہی دل میں یہ ضرور کہا ہو گا اور یہ بات ہاشمی کے دل تک بھی پہنچی ہو گی۔ ”ہور چوپو“
جن لوگوں نے عمران کے ساتھ مل کر تحریک انصاف کی بنیاد رکھی تھی۔ ان میں سے ایک آدمی بھی اب عمران کے ساتھ نہیں رہا۔ اس کے سارے ساتھی اس چھوڑتے جا رہے ہیں۔ توفیق بٹ عمران خان کا دوست کالم نگار ہے۔ وہ ہارون الرشید کی طرح کپتان کا کالم نگار نہیں ہے۔ کپتان کا کالم نگار اب تحریک انصاف سے رن آ¶ٹ ہو چکا ہے۔ یہ سوچنے کی بات ہے کہ جسے اپنے قریبی ساتھی چھوڑ جائیں وہ نہ دوست ہوتا ہے نہ لیڈر ہوتا ہے۔ توفیق بٹ نے اپنے دوست عمران کے لئے بہت زبردست مخالفانہ کالم لکھا ہے اس نے میرے اس خیال کی تصدیق کی ہے کہ اب عمران ایک روایتی سیاستدان ہے۔ زرداری‘ نواز شریف‘ مولانا فضل الرحمن‘ اسفند یار ولی اور عمران خان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جب زرداری اور نواز شریف ملتے تھے تو عمران کہتا تھا کہ دونوں آپس میں ملے ہوئے ہیں اب عمران اور نواز شریف کی ملاقات کے حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ دونوں آپس میں ملے ہوئے ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن