علی ہجویری فری ڈرگ بنک اور آنکھوں کا اکائونٹ
میڈیکل کے علاقے سے دو خبریں آئی ہیں ایک تو فلاحی خوشخبری ہے اور دوسرا سیاسی بیان ہے۔ ڈاکٹر فلاحی کائنات کا نمائندہ ہوتا ہے، مسیحائی اس کی دلربائی ہوتی ہے مگر کچھ ڈاکٹر سیاستدان بھی ہو گئے ہیں۔ میو ہسپتال کے اے ایم ایس ڈاکٹر ظہیر اسلام درویش صفت انسان ہیں۔ انہوں نے داتا گنج بخش کی روحانی ہدایت پر غریب اور مستحق مریضوں کے لئے مفت دوائیں فراہم کرنے کی خدمت کا کام غیر سرکاری بنیادوں پر شروع کیا ہے۔ یہ ثواب کا کام ہے کہ میں اس حوالے سے دوستوں کو آگاہ کروں۔
کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے پرو وائس چانسلر آنکھوں کے ڈاکٹر اسد اسلم نے کہا ہے کہ پاکستان میں اندھے پن کا علاج دریافت کر لیا گیا ہے، ہم نابینا لوگوں کو بینائی واپس کرنے کا اہتمام کر رہے ہیں۔ یہ ایک سیاسی بیان ہے اس پر کون اعتبار کرے گا۔ بینائی واپس کرنے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو بینائی سے محروم کرنے کا فریضہ بھی ہمیں نے انجام دیا ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ جن بدقسمت لوگوں کے لئے ڈاکٹروں کی لاپروائی اور دوستانہ لاپروائی سے آنکھیں ضائع ہوئی ہیں ان کی بینائی کون واپس کرے گا۔
ہمارے ملک میں دل کے اندھے بھی بہت موجود ہیں، ان کے لئے اسد اسلم جیسے ڈاکٹر کیا کریں گے کہ دولت کے لالچ نے جن کی آنکھوں پر بے دردی کی پٹی چڑھا دی ہے۔ میں نے پہلے ایک کالم کے لئے ڈاکٹر صاحب کی دوستانہ لاپروائی کا ذکر کیا تھا تو مجھے ایک دل والے دوست ڈاکٹر اظہر وحید نے روحانی سکالر اور نامعلوم جہانوں کے مسافر مرحوم واصف علی واصف کا یہ جملہ سُنایا ’’دوستوں کی لاپروائی دشمنوں کی اصل قوت ہے‘‘ ڈاکٹر صاحب کو ایک لطیفہ سُنانے کو بھی جی چاہتا ہے‘‘ ایک انھا (اندھا) کہنے لگا۔ مجھے وزیر شذیر بنا دو۔ پوچھا گیا کہ تم تو انھے ہو، کیا کرو گے۔ اس نے کہا کہ ’’میں انھی پا دیاں گا‘‘ اس سے کہا گیا کہ پہلے اس ’’کام‘‘ سے آنکھوں والوں کو فارغ ہونے دو پھر تمہاری باری آئے گی۔‘‘ ہمارے ملک میں حکمرانی، من مانی اور کرپشن کہانی کے لئے باریاں مقرر ہیں۔ ابھی ڈاکٹر صاحب تھوڑا سا انتظار کریں۔
مجھے لگتا ہے کہ جو دیکھ نہیں سکتے وہ ایسا کچھ دیکھ لیتے ہیں جو ہم نہیں دیکھ سکتے ہیں۔ جو باہر نہیں دیکھ سکتے وہ اندر دیکھ لیتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ اندھوں کے لئے کوئی اور نور اندر ہوتا ہے اور نور روشنی سے آگے کی چیز ہے۔
ایسے لوگ بھی تھے جیسے داتا گنج بخش علی ہجویریؒ جو دل والے تھے جن کے پاس دل کی آنکھیں بھی تھیں۔
جن کی نگاہ دیکھ لے صدیوں کے پار بھی، بصارت سے کہیں زیادہ صلاحیت بصیرت ہے۔ آدمی وہی بڑا ہے جو بصارت اور بصیرت دونوں رکھتا ہو۔ ڈاکٹر ظہیر اسلام نے علی ہجویری فری ڈرگ بنک داتا صاحب کی روحانی ہدایت کے مطابق بنایا ہے۔
یہ فری ڈرگ بنک بھرا ہوا ہے۔ یہ خزانہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔ اس کے لئے لالچی حکمرانوں کی طرح کشکول لے کے دنیا بھر میں پھرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لوگ خود اپنی دولت اور دل کی دولت اپنے اپنے کشکول میں بھر کے لاتے ہیں اور اللہ کے بندوں کے قدموں میں ڈھیر کر دیتے ہیں۔ مفت دوائوں کے انبار ڈاکٹر ظہیر اسلام کے پاس لگے ہوئے ہیں۔ دو سال سے 35 لاکھ سے زیادہ کی دوائیں غریب اور مستحق لوگوں میں تقسیم کی جا چکی ہیں۔ اس سے اب تک 36 ہزار لوگوں کو فائدہ ہوا ہے۔
کینسرکے مریضوں کا علاج خاصا مہنگا ہے۔ عمران خان کا شوکت خانم اب ایک تجارتی ہسپتال بن چکا ہے جبکہ اس کے لئے عمران خان دنیا بھر میں کشکول لئے پھرتے ہیں اور پاکستان میں شوکت خانم ہسپتال کے سامنے تڑپتے ہوئے مریضوں کا ہجوم بڑھتا جاتا ہے۔ خطرہ ہے کہ کہیں یہاں بھی مظاہرے نہ شروع ہو جائیں۔ ڈاکٹر شہریار نے لاہور میں ایک کینسر ہسپتال کی بنیاد رکھی ہے۔ ہماری ادیبہ محترم خاتون فرحت پروین بھی امریکہ سے پاکستان میں ان کے ساتھ شریک ہو چکی ہیں، اُن کا دعویٰ ہے کہ کینسر کے کسی مریض کو واپس نہیں بھیجا جائے گا، سب کا علاج یہاں ہو گا۔ ڈاکٹر ظہیر اس کینسر ہسپتال کے لئے بھی دوائیں فراہم کریں گے۔
مجھ سے ایک بار کسی صحافی خاتون نے گفتگو کرتے ہوئے پوچھا تھا کہ لاہور آپ کو کیوں پسند ہے؟ میں نے کہا کہ یہاں داتا دربار ہے اور دربار ایسے ہی ہوتے ہیں جہاں ہر شخص حاضری کو حضوری بناتا ہے، جہاں کسی مایوس ترین انسان کی امید پھر سے قائم ہو جاتی ہے۔ وہ جن کی محفل بھی آباد ہے، جن کا مرقد بھی آباد ہے، جن کا قلب بھی زندہ ہے، جن کی قبر بھی زندہ ہے۔
باہو ایتھے اوہو جیندے قبر جنہاں دی جیوے ہو
لاہور میں میو ہسپتال ہے جو پرانے لاہور اصل لاہور کے درمیان موجود ہے۔ ملک بھر کے مایوس، لاوارث مریض یہاں آتے ہیں اور شفا پاتے ہیں۔ یہاں اکثر ڈاکٹر، اکثر نرسیں، اکثر اہلکار درویش ہیں اور داتا کے ماننے والے ہیں۔ یہاں ڈاکٹر ارشاد، ڈاکٹر خالد گوندل، ڈاکٹر طیبہ، ڈاکٹر عدنان شاہد، ڈاکٹر خواجہ خورشید موجود ہیں۔ میں میو ہسپتال کو اپنا محبوب ہسپتال سمجھتا ہوں اور اسے غریب فقیر مریض لوگوں کے لئے داتا دربار کی نشانی کہتا ہوں۔ یہاں اللہ نے ڈاکٹر ظہیر اسلام کو بھیجا ہے، یہاں دیر تک ڈاکٹر زاہد پرویز کو ایم ایس کے طور پر رکھا گیا ہے۔ یہ بھی قدرت کی خاص کرمفرمائی تھی۔ وہ دل کے درویش ہیں اور بہترین منتظم ہیں۔ داتا صاحب کے ساتھ خاص نسبت رکھتے ہیں، لوگ ان کے زمانے کو یاد کرتے ہیں۔
پچھلے دنوں ڈاکٹر ظہر اسلام نے علی ہجوری فری ڈرگ بینک کی طرف سے کچھ دوستوں کو اکٹھا کیا تو اس میں خاص طور پر ڈاکٹر زاہد پرویز کو بُلایا۔ مشیرِ صحت سلمان رفیق کو بُلایا۔ سلمان رفیق بھی پرانے لاہور کے آدمی ہیں۔ نئے لاہور کے دکھوں کو پرانے لاہور کی یادوں کے ساتھ مربوط کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری تمنا ہے کہ سب دوست علی ہجویری فری ڈرگ بینک میں اپنا اکائونٹ کھولیں۔ اس سے اتنا فائدہ ہو گا کہ کسی بینک میں اپنے سرمائے کا اتنا فائدہ نہ ہو گا۔ دس گنا فائدے کا وعدہ اللہ نے کیا ہے۔ اللہ کے ایک بہت برگزیدہ بندے علی ہجویری داتا گنج بخش کے نام پر اس بینک کی نگرانی کے لئے ڈاکٹر ظہیر اسلام کو مقرر کیا گیا ہے جو واقعی ایک دل والے فقیر انسان ہیں۔ ایک ڈاکٹر کو ایسا ہی ہونا چاہئے جو اپنے مریض کے دل پر نظر رکھے اور اس کے دکھ کو جان سکے، اس کی عزت کرے ؎
الٰہی آرزو میری یہی ہے
میرا نورِ بصیرت عام کر دے
بصارت اور بینائی واپس کرنے کے سیاسی بیانات کو خاطر میں نہیں لانا چاہئے اور اہل خدمت کی طرف دھیان رکھنا چاہئے۔
دل کی آنکھ رکھنے والے ڈاکٹر عبدالحئی نے بتایا کہ میو ہسپتال میں آنکھوں کے ڈاکٹر کسی مریض کی آنکھوں کا معائنہ کرتے تو پوچھتے کہ تمہاری اس آنکھ کا کس ڈاکٹر نے بیڑہ غرق کیا ہے۔ مریض ڈرتے ڈرتے کہتا کہ جناب آپ نے خود کیا ہے۔ تو ڈاکٹر صاحب کہتے کہ میں نے تو دوسری آنکھ کا بیڑہ غرق کیا ہو گا۔ مریض کہتا کہ اس آنکھ کا بیڑہ بھی آپ ہی نے غرق کیا ہے۔ اس دعا کے ساتھ کالم ختم کرتا ہوں کہ اللہ سب کا بیڑہ پار لگائے۔