• news

بلوچستان اسمبلی میں تین قراردادوں کو متفقہ منظور کر لیا گیا

کوئٹہ (این این آئی) بلوچستان صوبائی اسمبلی کا اجلاس دو روزہ وقفے کے بعد جمعرات کے روز ڈپٹی سپیکر میر عبدالقدوس بزنجو کی صدارت میں ایک گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا۔ اجلاس میں تین قراردادیں متفقہ طور پر منظور کی گئی۔ پہلی قرارداد نمبر8  جمعیت علماء اسلام کے رکن صوبائی اسمبلی مفتی گلاب خان کاکڑ نے ایوان میں پیش کی انہوںنے قرارداد میں کہا اغبرگ جو 19کلیوں پر مشتمل ضلع کوئٹہ کا ایک حصہ ہے لیکن اس دور جدید میں بھی گیس جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے لہذا یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وفاقی حکومت سے رجوع کریں ایوان نے متفقہ طور پر ان کی قرارداد منظور کرلی۔ مشترکہ قرارداد نمبر 20 جو مسلم لیگ ن کے رکن صوبائی اسمبلی سردار صالح بھوتانی طاہر محمود راحیلہ حمید خان درانی فتح محمد بلیدی اور ڈاکٹر شمع اسحاق نے ایوان میں پیش کی قرارداد میں صوبائی حکومت سے سفارش کی گئی تھی  صوبے میں تمام پرائیویٹ کمپنیوں بینکوں اور موبائل کمپنیوں کو این او سی جاری کرتے وقت مقررہ 70  فیصد کوٹے پر عمل کرانے کی سختی سے عملدرآمد یقینی بنایا جائے نیز حب شہر جو صنعتی لحاظ سے ایک تجارتی مرکز کی حیثیت رکھتا ہے اور وہاں پر مذکورہ کمپنیوں نے مقامی نوجوان کو مقررکردہ کوٹے پر ملازمت دیں ایوان نے طویل بحث کے بعد قرار داد کو متفقہ طور پر منظور کر لیا۔ قرارداد نمبر24  جمعیت علماء اسلام کی رکن صوبائی اسمبلی حسن بانو رخشانی نے پیش کرتے ہوئے کہ صوبائی حکومت سے سفارش کی جاتی ہے کہ وہ وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ بلوچستان کی مخدوش صورتحال معاشی اور تعلیمی پسماندگی کی وجہ سے نوجوانوں کی اکثریت سی ایس ایس کے امتحان میں شمولیت کیلئے عمر کی موجودہ بالائی حد 28  سال مقرر ہے پر پورا نہیں اترتے۔ عمر کی بالائی حد 28  سال سے بڑھا کر 35 سال مقرر کی جائے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اجلاس میں پوائنٹ آف آرڈر پر تقریر کرتے ہوئے انکشاف کیا میرے حلقے انتخاب تربت میں لیویز اہلکاروں نے لڑنے کی بجائے سرکاری ہتھیار بھی دے دئے ہم اس سلسلے میں بھی کام کررہے ہیں ہم نے پولیس اہلکاروں کو  ٹریننگ دی ہے اب ہماری کوشش ہے کہ لیویز اور بی سی کے اہلکاروں کو بھی ٹریننگ دیں۔ لورالائی سے ایک بیج ٹریننگ کے بعد فارغ ہوچکا ہے 15  دن میں دوسری ٹریننگ شروع کر رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ بلوچستان  ڈاکٹر عبدالمالک  نے کہا ہے کہ  موجودہ لیویز وہ  نہیں جو انگریز دور میں تھی۔ لیویز آرگنائز فورس  نہیں نہ وردی پہنتی ہے موجودہ لیویز امن و امان کو بحال نہیں کر سکتی۔ موجودہ لیویز  سیاسی ہو گئی ہے۔کیچ  میں 2  سال سے جتنے سرکار کے ہتھیار تھے لیویز  نے سب  دیدیئے۔  لیویز غیر تربیت یافتہ ہے صرف  تنخواہ لینے آتے ہیں۔ اسمبلی کا اجلاس کل 22 مارچ تک ملتوی کر دیا گیا۔

ای پیپر-دی نیشن