نئے آبی ذخائر بنانے سے ملکی معیشت کو 45 ارب ڈالر سالانہ کا نقصان
لاہور (جاوید اقبال/دی نیشن رپورٹ) ماضی کی حکومتوں کی جانب سے نئے آبی ذخائر تعمیر نہ کرانے کے باعث ملکی معیشت کو 45 ارب ڈالر سالانہ کا نقصان ہورہا ہے۔ دی نیشن کو ملنے والے اعدادوشمار کے مطابق اوسطاً 30.35 ملین ایکڑ فٹ (مکعب ایکڑ) پانی ہر سال کوٹری بیراج کے ذریعے سمندر میں چلا جاتا ہے۔ آبی ماہرین کے مطابق اگر ایک ملین ایکڑ فٹ پانی استعمال میں لایا جائے تو اس سے ملکی معیشت میں ایک سے 1.5 ارب ڈالر شامل ہوتے ہیں جبکہ عالمی طور پر ایک مکعب ایکڑ فٹ پانی 2 بلین ڈالر کا ہے۔ سالانہ 45 ارب ڈالر نقصان کا مطلب یہ ہے کہ ہم سالانہ 30.35 ملین ایکڑ فٹ پانی ضائع کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ، ایشیائی ترقیاتی بنک اور دوسرے اداروں نے خبردار کیا ہے کہ پانی کی سکیورٹی کا معاملہ سے توانائی کا بحران مزید مشکل ہو سکتا ہے اس سے پیداوار برآمدات اور تجارت کے شعبوں میں کمی واقع ہو سکتی ہے اور بیروزگاری بہت زیادہ بڑھے گی۔ تربیلا اور منگلا کے بڑے ڈیم کے بعد پاکستان نے اب تک 1110 ملین ایکڑ فٹ پانی ضائع کر چکا ہے۔ اس صورتحال میں 20 ملین ایکڑ اراضی بنجر ہو گئی۔ 37 سال میں پاکستان نے 1665 بلین ڈالر کا پانی ضائع کیا۔ پاکستان میں آبی ذخیرہ کی صلاحیت 9 فیصد ہے جبکہ عالمی طور پر یہ صلاحیت 40 فیصد ہے۔ ہم 100 دنوں سے زیادہ دیر پانی ذخیرہ نہیں رکھ سکتے جبکہ بھارت میں یہ صلاحیت 120 روز، امریکہ میں 900 دن، آسٹریلیا میں 600 دن، جنوبی افریقہ میں 500 دن ہے۔ چین میں اس وقت 95 بڑے ڈیم، ایران میں 48، جاپان میں 40 اور بھارت میں 10 بڑے ڈیم زیرتعمیر ہیں جبکہ پاکستان تربیلا اور منگلا ڈیم کے بعد کوئی بڑا ڈیم نہیں بنا سکا۔ معروف آبی ماہر اور پنجاب حکومت کے کنسلٹنٹ محمودالحق صدیقی کے مطابق پاکستان بڑی بے رحمی سے پانی ضائع کر رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صوبوں کو یہ چھوٹے مسائل حل کرنے چاہئیں اور بڑے ذخائر کی تعمیر کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننا چاہئے ورنہ بہت دیر ہو جائیگی۔ ایک اور آبی ماہر کا کہنا ہے کہ تھر میں مرنے والے بچوں کی ایف آئی آر ان جاگیرداروں کے خلاف کٹنی چاہئے جو آبی ذخائر بنانے کیخلاف ہیں۔ 1960ء کے سندھ طاس معاہدے پر نظرثانی ہونی چاہئے اور عالمی برادری پاکستان کو صحرا بنانے کی بھارتی کوششوں کو روکے۔