سرکاری محکموں کی عدم دلچسپی ‘ ناقص حکمت عملی ‘ غیر معیاری اور جعلی ادویات کی بھرمار
لاہور (ندیم بسرا) متعلقہ سرکاری محکموں کی عدم دلچسپی اور ناقص حکمت عملی کے باعث مارکیٹ میں غیر معیاری اور جعلی ادویات کی بھرمار ہو گئی۔ میڈیکل سٹورز پر ایک ہی نام کی کئی کئی ادویات دستیاب ہونے لگیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں بھی سب سے کم نرخ کی ادویات خریدی جانے لگیں۔ پنجاب میں واحد ڈرگ ٹیسٹنگ لیب (DTL) ہونے سے صرف 30 فیصد ادویات چیک ہونے لگی۔ ڈرگ ٹیسٹنگ لیب ادویات میں صرف سٹیرائیڈ چیک کر سکنے لگی۔ ادویات کی افادیت چیک کرنے کا کوئی معیار نہیں۔ پی آئی سی میں ایک سال قبل ہونے والی 28 اموات جیسا سانحہ کسی بھی وقت کسی سرکاری ہسپتال میں جنم لے سکتا ہے۔ تفصیلات کے مطابق پنجاب میں محکمہ صحت‘ محکمہ انڈسٹریز‘ لا اینڈ آرڈر محکموں‘ انٹیلی جنس‘ ڈرگ انسپکٹریٹ اور ٹائون کے دفاتر کی ملی بھگت سے لاہور میں اس وقت 510 کے قریب ایسی چھوٹے بڑی یونٹس ہیں جو اقبال ٹائون‘ سبزہ زار‘ ٹھوکر نیاز بیگ‘ فیروز پور روڈ‘ اندرون‘ بادامی باغ‘ بند روڈ‘ ملتان روڈ‘ شاہدرہ‘ جی ٹی روڈ پر واقع میں ان میں انتہائی غیر معیار ادویات تیار ہو رہی ہیں۔ لاہور کے سرکاری ہسپتالوں میں گنگا رام‘ پی آئی سی جناح‘ سروسز‘ جنرل‘ چلڈرن‘ لیڈی ولنگڈن‘ لیڈی ایچی سن‘ گلاب دیوی اور دیگر میں سب سے سستی ترین ادویات سپلائی ہوتی ہیں۔ مذکورہ ہسپتالوں کی انتظامیہ لوکل کمپنیوں کو ادویات کی فراہمی کے ٹھیکے دیتے ہیں‘ ٹھیکوں میں من پسند کمپنیوں کو نوازا جاتا ہے‘ ان کمیٹیوں کی ادویات کی چیکنگ کا مکمل نظام محکمہ صحت کے پاس نہیں ہے جن کمپنیوں کی ادویات فراہم کی جاتی ہیں ان کی افادیت صرف 30 فیصد تک ہوتی ہیں کیونکہ اس میں سارا میٹریل انتہائی ناقص استعمال ہوتا ہے۔ ڈیڑھ برس قبل پی آئی سی میں ادویات کی ری ایکشن سے 28 سے زائد قیمتی جانوں کے ضیاع ہو گیا تھا۔ اس وقت وزیر اعلیٰ پنجاب نے اعلان کیا تھا کہ ادویات کا معیار چیک کرنے کیلئے ایک مکمل لیبارٹری تیار ہوئی جہاں تمام ادویات کی چیکنگ کوالٹی یک کرنے کیلئے ایک مکمل لیبارٹری تیار ہوئی جہاں تمام ادویات کی کوالٹی چیک کی جائے گی مگر اس اعلان کے بعد سے اب تک ایسی لیبارٹری تیار نہیں ہو سکی جس کی وجہ سے کسی بھی وقت سانحہ ہو سکتا ہے کیونکہ لاہور شہر میں غیر معیاری ادویات کی تیاری اور فروخت کا دھندہ عروج پر ہے۔ تمام محکمے اس وقت مکمل خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ لاہور شہر کے میڈیکل سٹورز پر ایک ہی نام کی مختلف کمپنیوں کی مختلف قیمتوں کے ساتھ ادویات فروخت ہوتی ہیں۔ ڈرگ انسپکٹرز لاہور کی سب سے بڑی میڈیسن مارکیٹ (لاہوری مارکیٹ) میں غیر معیاری ادویات فروخت ہوتی ہیں۔ لاہور کی اس مارکیٹ میں متعلقہ اداروں کا چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔ ان ادویات کا کوئی معیار نہ ہونے کی وجہ سے مریضوں کی زندگیاں دائو پر لگی رہتی ہیں۔ ایک طرف تو سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کے قیام میں اضافہ ہو جاتا ہے دوسری طرف میڈیکل سٹورز پر فروخت سے بھی زندگیاں خطرے میں رہتی ہیں۔ لاہور میں قائم 12 ہزار کے قریب میڈیکل سٹورز میں سے ڈرگ انسپکٹر صرف چند ایک کو چیک کرتے ہیں جبکہ باقی میڈیکل سٹورز پر اپنے کاروبار میں مصروف رہتے ہیں۔ اس حوالے سے ڈرگ انسپکٹر ایاز علی خان کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس جتنے وسائل ہیں اس کے تحت مکمل کارروائی کرتے ہیں تمام میڈیکل سٹورز پر سٹاک کو چیک کیا جاتا ہے۔ شہریوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب سے مطالبہ کیا ہے کہ ادویات کی اچھی کوالٹی کے ساتھ فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے جدید ترین ڈرگ ٹیسٹنگ لیب بنائی جائے۔ اس کے ساتھ تمام مشینری کو حرکت میں رکھا جائے تاکہ جو فیکٹریاں اس موت کے کاروبار میں ملوث ہیں ان کو ختم کیا جا سکے۔