قحط سالی کے ذمہ دار 3 افسر 8 اپریل کو طلب‘ افسوس! تھر میں اب تک گندم کی تقسیم کا فارمولا نہیں بنا: سندھ ہائیکورٹ
کراچی (این این آئی) سندھ ہائی کورٹ نے تھر پارکر میں قحط سالی کے ذمے دار 3 افسروں کو 8 اپریل کو طلب کر لیا۔ قحط سے اموات پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران عدالت میں محکمہ صحت، محکمہ خوراک ،محکمہ ریلیف اور چیف سیکرٹری کی جانب سے رپورٹ جمع کرائی گئی۔ سیکرٹری خوراک نے کہا کہ 22 ہزار587 خاندانوں میں تاحال ریلیف کا سامان نہیں پہنچ سکا۔ عدالت نے تمام رپورٹس پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بڑے افسوس کا مقام ہے اب تک گندم کی تقسیم کا کوئی فارمولا نہیں بنایا گیا، پیش کی جانے والی رپورٹس میں ہزاروں سوال اٹھتے ہیں لیکن افسوس ہے ان سوالوں کا کوئی جواب دینے والا نہیں ہے۔ یہ سندھ کے عوام کے ساتھ ظلم نہیں تو اور کیا ہے؟ چیف جسٹس نے تھر کے 22 ہزار خاندانوں کو فوری گندم فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا یہ ثابت ہوچکا ہے کہ تھر میں زیادہ تر اموات خوراک کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہوئی ہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ عبدالفتح ملک نے عدالت کے سامنے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ افسر تو موجود ہیں لیکن وہ زیادہ تر وقت کراچی اور حیدرآباد میں گزارتے ہیں، افسر پوری رات جاگتے ہیں جب کہ دن کے وقت سوتے رہتے ہیں۔ گزشتہ سماعت میں دیئے گئے احکامات میں کسی ایک پر عمل نہیں کیا گیا ۔گندم 6ماہ تک گوداموں میں سڑتی رہی اور تھر کے لوگ بھوک سے مرتے رہے۔ چیف جسٹس کے استفسار پر سیکرٹری خوراک نصیر جمالی نے بتایا کہ محکمہ خوراک کا کام گندم کو گودام کی حد تک محفوظ رکھنا ہے۔ لوگوں میں اس کو تقسیم کرنا محکمہ ریلیف کا کام ہے۔ 23جنوری کو وزیرا علیٰ سندھ کی جانب سے احکامات دیئے گئے کہ تھر میں 60ہزار گندم کے تھیلے تقسیم کئے جائیں۔ ایک ہفتے میں 21ہزار تھیلے تقسیم کئے گئے۔ چیف جسٹس کے استفسار پر سیکرٹری خوراک اور سیکرٹری بورڈ آف ریونیو گندم کی تقسیم اور ریلیف کے طریقہ کار پر کوئی خاطر خواہ جواب نہ ملنے پر عدالت نے شدید اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ سخت احکامات جاری کرے۔ قحط اور اس سے نمٹنے کے اسباب سے آگاہ کیا جائے ورنہ ہم ایسا کمیشن تشکیل دیں گے جو حکومتی خامی کو سب کے سامنے رکھ دے گا۔ سیکرٹری صحت اقبال درانی نے عدالت کو بتایا کہ سندھ کے مختلف اضلاع میں تعینات ڈاکٹرز کئی بار شوکاز نوٹس جاری کرنے کے باوجود اپنی ڈیوٹیوں پر نہیں آئے۔ اس لیے 99ڈاکٹروں کے خلاف اخبارات میں اشتہارات دے دیئے گئے ہیں۔ عدالت نے چیف سیکرٹری کو حکم دیا کہ تھر کے حوالے سے ڈی آئی جی حیدر آباد ثناء اللہ عباسی کی فیکٹس اینڈ فگرز پر مشتمل رپورٹ عدالت میں کیوں پیش نہیں کی گئی۔ اگلی سماعت پر وہ رپورٹ بھی عدالت میں پیش کی جائے۔ کوئی کوتاہی برتی گئی ہے تو ہم آرڈر کریں گے کہ وہ کوتاہیاں بھی دور ہوجائیں گی اور اگر ضرورت پڑی تو آرمی کو بھی ریلیف کے کاموں میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ عدالت نے جن افسروں کو طلب کیا ہے ان میں ریلیف کمشنر فضل الرحمن لالہ، کمشنر میرپور خاص غلام مصطفی، ڈپٹی کمشنر مخدوم عقیل الزمان شامل ہیں۔