گھسِیٹا گھساٹی میں”خُوش خبری !“
لڑائی‘ رَن‘ جنگ‘ قتلِ عام اور خون ریزی کو ہندی زبان میں (اردو میں بھی) ”گھمسان“ کہا جاتا ہے۔ پرنٹ مِیڈیا اور الیکٹرانک مِیڈیا میں اُس وقت گھمسان کا رَن پڑتا ہے جب مُتحارب سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے قائدین ایک دوسرے پر تنقید کر کے لہو گرم رکھنے کا بہانہ تلاش کرتے ہیں۔ اُستادمصحفی نے کہا تھا۔
”گھمسان پڑا عشِق کے مَیدان میں دیکھا“
تو صاحبو! مَیں نے کل پرنٹ اور الیکٹرانک مِیڈیا پر خبروں کا گھمسان دیکھا۔ گھمسان کا رَن کہاں کہاں پڑا؟ دیکھتے ہیں۔
خبر ہے کہ ایک کیس کی سماعت کے دَوران چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس عُمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہُوئے کہا کہ”سیاستدان اپنے جھگڑوں میں عدلیہ کو نہ گھسِیٹیں“- چیف جسٹس صاحب کسی ہائی کورٹ کے ہوں یا سپریم کورٹ کے۔ اُن کا فرمایا مُستند سمجھا جاتا ہے، لیکن چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے اِس بات کی وضاحت نہیں کہ ”اگر سیاستدانوں نے اپنے جھگڑوں میں عدلیہ کو گھسِیٹنے کا کام جاری رکھا تو عدلیہ اُن کے خلاف کیا کارروائی کرے گی؟۔ یُوں بھی آئیِن میں تو اِس بات کی بھی اجازت نہیں ہے کہ کوئی سیاستدان کسی مخالف سیاستدان کو بھی گھسِیٹے۔ 11 مئی 2013 ءکے عام انتخابات سے قبل خادمِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف عام جلسوں سے خطاب کرتے ہُوئے کہا کرتے تھے کہ”اگر عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کو اکثریت حاصل ہو گئی تو مَیں قوم کی لُوٹی ہُوئی دولت وصول کرنے کے لئے آصف زرداری کو سڑکوں پر گھسِیٹوں گا“- لیکن اُس کے بعد خادمِ اعلیٰ موذی مچھر ڈینگی کے خاتمے اور میٹرو بس کے منصوبے کی تکمیل میں مصروف ہو گئے۔
5 نومبر 1996 ءکو جب صدر غلام اسحاق خان نے وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو کی حکومت برطرف کی اوراُس کے بعد لاہور کے گورنر ہاﺅس سے جناب آصف زرداری کو کرپشن کے مختلف مقدمات میں گرفتار کر لِیا گیا تو جناب حاکم علی زرداری(مرحوم) نے کراچی اور پھر اسلام آباد میں پریس کانفرنسوں سے خطاب کرتے ہُوئے کہا تھا کہ”بے نظیر بھٹو آصف زردای کو زبردستی گھسِیٹ کر سیاست میں لائی تھیں۔ میرا بیٹا بے قصور ہے۔ ان کے اور بے نظیر بھٹو کے نکاح نامے میں یہ شرط تو درج نہیں تھی کہ آصف زرداری بھی سیاست میں آئے گا“لیکن جب آصف زرداری صدرِ پاکستان منتخب ہُوئے تو حاکم علی زرداری صاحب اُس دِن کو بابرکت قرار دیتے تھے کہ جب جناب زرداری کو، گھسِیٹ کر سیاست میں لایا گیا تھا۔ قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف سیّد خورشید شاہ نے کہا کہ”اگر کوئی تِیس (30) مار خان ہے تو ہم ساٹھ (60 )مار خان ہیں“-ممکن ہے شاہ صاحب درست فرماتے ہوں، لیکن آج تک کسی نے بھی نہیں کہا کہ”مَیں ساٹھ (60 ) اصحاب کو گھسِیٹ کر سیاست میں لایا تھا اِس لئے مجھے گھسِیٹے خان کہا اور لکِھا جائے۔ صدر جنرل ضیاءاُلحق اقتدار میں آئے تو انہوں نے کہا کہ ”سیاستدانوں کا کیا ہے ؟ مَیں جب کہوں گا تو وہ دُم ہلاتے ہُوئے میرے پاس آجائیں گے“۔ اُس وقت پتہ چلا کہ دُم دارسِتاروں کی طرح سیاستدان بھی دُم دارہوتے ہیں؟۔ اُستاد ظریف نے کہا تھا۔
”ہمیشہ ناقہ¿ لیلیٰ کی دُم کے ساتھ رہے
جنابِ قیس کو کچھ سُدھّ نہیں تھی ، گھر دَر کی“
سیاستدان دُم دار ہو تو اُسے ( دُم سے پکڑ کر) گھسِیٹنے میں فوجی حکمران کو آسانی رہتی ہے۔ کئی سدا بہار سیاستدانوں کی خواہش ہوتی ہے کہ انہیں فوجی یا جمہوری حکمران جتنا چاہے گھسِیٹ لے لیکن جھنڈے والی گاڑی کا سوار ضرور بنا دے خواہ قلمدانِ وزارت بھی الاٹ کرے یا نہ کر ے۔ جناب حیدر علی آتشنے اپنی خوش بختی پر ناز کرتے ہُوئے کہا تھا۔
”دِیدہ و دِل نے گھسِیٹا، مجھ کو کُوئے یار میں
کھینچ کر مُجھ کو فرِشتے، سُوئے جنتّ لے گئے“
وہ لوگ خوش قسِمت ہیں کہ جِن کو گھسِیٹے جانے کے بعد وزارت یا کوئی اُس سے بڑا منصب حاصل ہو جاتا ہے۔ عوام کا لانعام کو دیکھ لیں۔ آزادی کے بعد سے ابھی تک اُن کے ساتھ ”گھسِیٹا گھساٹی“ ہو رہی ہے۔ گھسِیٹا خان سیاستدان بھیس بدل بدل کر اقتدار میں آتے ہیں اور ”قدم بڑھاﺅ گھسِیٹا خان ہم تمہارے ساتھ ہیں“ کے نعروں کی گونج میں عام جلسوں میں دونوں ہاتھ بلند کر کے اپنے چاہنے والوں سے داد پاتے ہیں۔ 50 ءکی دہائی میں فلم”بَیجُو باورا“ میں دکھِایا گیا تھا کہ ایک مسخرہ بوڑھا مُغل بادشاہ اکبر کے درباری گوئیے”تان سین“ کا موسیقی میں مقابلے کرنے والے بَیج ناتھ عرف بَیجُوکا زبردستی اُستاد بن بیٹھتا تھا۔ اُس کا نام”اُستاد گھسِیٹے خان“ تھا فلم کے مطابق بَیجُو باورا (دیوانہ) تان سین کو ہرا دیتا ہے۔
ہمارے یہاں بادشاہت نہیں ہے۔ جمہوریت بھی کہاں ہے؟- پہلے 20 گھرانے بدنام تھے اب 220 گھرانے نیک نام ہیں۔ طبقاتی گھسِیٹا گھساٹی میں مدرسوں نے طالبان پیدا کئے۔ یہ کسی کے بیٹے ہیں اور کسی کے بھائی- لیکن اُن کے ہاتھوں 8 ہزار فوجیوں سمیت جو 50 ہزار معصوم اور بے گناہ لوگ مارے گئے، وہ کِس کے بیٹے اور بھائی تھے؟- یہ مسئلہ اب قابل ِ بحث نہیں رہا -مرزا غالب نے کہا تھا کہ۔
”جانا پڑا رقِیب کے در پر ، ہزار بار
اے کاش جانتا نہ تیری رہ گُذر کو مَیں“
مسائل در مسائل میں پھنسے مفلُوک اُلحال لوگوں کو تسلّی دی جا رہی ہے کہ”رقِیب کے در پر صِرف ایک بار جانا پڑے گا۔ بس آپ لوگ دُعا کریں!“ روٹی، کپڑا اور مکان سے محروم لوگ خوش لباس عُلما¿ اور مراعات یافتہ وزراءکی طرف حسرت سے دیکھتے ہیں اور آپس میں کہتے ہیں کہ ”اگر ہماری دُعاﺅں میں کوئی اثر ہوتا تو ہمیں غُربت، جہالت اور بیماری سے نجات نہ مِل جاتی“ لال مسجد فیم مولانا عبداُلعزیز نے، وُکلا اور ججوں کو طعنہ دیا تھا کہ ”انہیں عربی زبان نہیں آتی“ اور موصوف خودلفظ ”حیرانی“ کو”حیرانگی“ کہتے شرمندہ نہیں ہوتے۔ ہمارے وزراءاور حکمران طبقہ کے لوگ تو خیر ”زبان و بیان کے ماہر نہیں ہوتے لیکن مولانا سمیع اُلحق، سیّد منور حسن، مولانا فضل اُلرحمن، پروفیسر محمد ابراہیم اور مولانا یوسف شاہ تو عربی زبان کے ماہر اور”علّامہ فہامہ“ کہلاتے ہیں۔ پھر یہ سب اور اُن کے نائبین خوش خبر(Good News) کو غلط اُلعوام یا غلطِ عوام ”خوش خبری“ کیوں کہتے ہیں؟- مولوی نُور اُلحسن نیّر کی”نُور اللغات“ کے مطابق غلط اُلعوام یا غلطِ عوام“ کا مطلب ہے- وہ غلطی جو عوام اور بازاری لوگ اپنی جہالت کی وجہ سے کرتے ہیں“۔
چند دِن قبل ”وفاق اُلمدارس“ کے ایک ترجمان، مولانا صاحب”بِیڑا اٹھانا“ کو بیڑا اُٹھانا (جہاوزں کا بیڑا اُٹھانا) کہہ رہے تھے۔ پرانے زمانے میں راجا یا راجپوت سردار کسی مُشک کام کی ذمہ داری قبول کرتے ہُوئے پان کا بِیڑا (گلوری) مُنہ میں ڈال کر اور تلوار اُٹھا کر عہد کرتے تھے۔ اب اگر مذہبی جماعتوں کے راہنما اور عُلماءبھی غلط اُلعوام یا غلطِ عوام میں ”خوش خبر“ کو خوش خبری کہیں گے تو ”گھسِیٹا گھساٹی“ کا سلسِلہ تو جاری ہی رہے گا؟۔
(26-03-2014)