• news

مہنگائی بڑھی مگر دبائو کم ہوا، حکومت آئی ایم ایف کیساتھ طے شدہ حدود کے مطابق قرضوں کو محدود نہ کر سکی : سٹیٹ بنک

کراچی (کامرس رپورٹر+ نوائے وقت رپورٹ) سٹیٹ بینک آف پاکستان نے رواں مالی سال کی دوسری سہ ماہی رپورٹ جاری کردی ہے جس کے مطابق 31 دسمبر 2013ء کو ختم ہونیوالی رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران معاشی صورتحال بہتر ہوئی ہے۔ جی ڈی پی بالخصوص بڑی صنعتوں کی پیداوار میں 6.8 فیصد اضافہ ہوگیا جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں محض 2.3 فیصد تھا۔ زرمبادلہ کے ذخائر بہتر ہوئے ٹیکس ریونیو میں 16.8 فیصد اضافہ ہوا مگر مہنگائی کی شرح 8 فیصد کے ہدف سے بڑھ کر 8.9 فیصد ہوگئی۔ سٹیٹ بینک کی معیشت کی کیفیت پر اپنی دوسری سہ ماہی رپورٹ برائے مالی سال 2014ء کے مطابق 2014ء کی پہلی ششماہی کے آخر تک ملک کے معاشی اظہاریوں میں واضح بہتری پیدا ہوگئی تھی۔ گرانی کا دباؤ گھٹ گیا (نومبر کے بعد)، زر مبادلہ کے ذخائر اور دسمبر 2013ء میں پاکستانی روپے کی مساوات پر دباؤ کم ہوگیا۔ بڑے پیمانے کی اشیا سازی میں بہتری دکھائی دے رہی ہے جسے نجی شعبے کے قرض سے مزید سہارا مل رہا ہے جیسا کہ وزارت خزانہ نے بتایا ہے۔ جی ڈی پی کی فیصد کے لحاظ سے مالیاتی خسارہ 2014ء کی پہلی ششماہی میں کم ہوگیا۔ 2014ء کی دوسری ششماہی میں مالیاتی اور بیرونی حسابات میں بہتری کا انحصار تھری جی لائسنسوں کی نیلامی کی متوقع آمدنی اور اتحادی سپورٹ فنڈ کی رقوم کی آمد پر ہے تاہم اگر متوقع سرکاری بیرونی رقوم 2014ء کی دوسری ششماہی میں آگئیں تو سٹیٹ بینک کے زر مبادلہ کے ذخائر کا پورے سال کے ابتدائی تخمینے سے متجاوز ہونے کا امکان ہے۔ رپورٹ میں بیرونی حوالے سے حاصل ہونیوالے حالیہ فائدے کو سٹیٹ بینک کے ذخائر میں 1.5 ارب ڈالر کی غیر متوقع آمد سے منسوب کیا گیا جس سے منڈی میں توقعات پیدا ہوئی ہوں گی کہ پاکستان کو 14ء کی چوتھی سہ ماہی میں تیل کی ادائیگیاں موخر کرنے کی سہولت مل سکتی ہے۔ ’’اس کی وجہ سے 2014ء کی بقیہ مدت میں گرانی کی توقعات کی شدت کم ہونے کے ساتھ بازار میں شرح سود کا منظرنامہ بھی بدل گیا ہے۔ سٹیٹ بینک کا تخمینہ ہے کہ 14ء میں اوسط گرانی 8.5 سے 9.5 فیصد کے درمیان رہے گی‘‘۔ رپورٹ کے مطابق کپاس کی پیداوار میں کمی کے باعث 2014ء میں جی ڈی پی نمو کا ہدف حاصل کرنے کے امکانات متاثر ہوسکتے ہیں۔ تاہم بڑے پیمانے کی اشیا سازی بدستور مضبوط نمو کی حامل ہے جو ملک کی مجموعی اقتصادی نمو کیلئے اچھا شگون ہے۔ بڑے پیمانے کی اشیا سازی کی بحالی کو توانائی کے متبادل ذرائع میں سرمایہ کاری، (گردشی قرضے کے تصفیے کے بعد) بجلی کی بہتر رسد، پچھلے چند برسوں کے دوران (سٹیل، کاغذ، کھاد، مشروبات اور ربڑ کے شعبوں میں) استعداد میں اضافے اور نجی شعبے کے کاروبار کو ملنے والے قرضوں خصوصاً معینہ سرمایہ کاری قرضوں میں اضافے سے مزید تقویت ملی ہے۔ کمرشل بینکوں سے حکومتی قرض گیری بھی دوسری سہ ماہی میں بڑھی۔ حکومت نے 2014ء کی دوسری سہ ماہی کے دوران کمرشل بینکوں سے 188.1 ارب روپے حاصل کیے جبکہ سال کی پہلی سہ ماہی میں 179.1 ارب روپے کی خالص واپسی ہوئی تھی۔ حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ حد کے مطابق سٹیٹ بینک سے قرض گیری کو محدود نہ کرسکی۔ ’’بہرکیف، فروری اور مارچ 2014ء میں دو طرفہ رقوم کی آمد اور 2014ء کی دوسری ششماہی میں متوقع دیگر بیرونی رقوم سے ان اہداف کا حصول آئندہ آسان ہونا چاہئے۔‘‘رپورٹ کے مطابق اخراجات گھٹنے اور محاصل بڑھنے کی وجہ سے 2014ء کی پہلی ششماہی کے دوران مالیاتی خسارہ کم ہوکر جی ڈی پی کے 2.1 فیصد تک رہ گیا جبکہ پچھلے برس اسی مدت میں 2.7 فیصد تھا جیسا کہ وزارت خزانہ نے بتایا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مالیاتی کفایت شعاری کا اثر وفاقی اور صوبائی سطح دونوں کے ترقیاتی اخراجات پر پڑا۔ اس کا سبب بیرونی رقوم کے فقدان سے منسوب کیا جاسکتا ہے۔ ’’ہمارے نقطہ نظر کے مطابق مالیاتی استحکام کے اس پہلو پر معیشت کے طویل مدتی امکانات کے تناظر میں ازسرنو غور کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔ بجٹ خسارے میں کمی سے ملکی قرضے کے جمع ہونے کی رفتار 2014ء کی دوسری سہ ماہی میں کم ہوگئی۔ اس کے ساتھ 14ء کی دوسری سہ ماہی میں آئی ایم ایف کو 1.2 ارب ڈالر کی بھاری ادائیگی اور سازگار شرح مبادلہ نے اس عرصے کے دوران سرکاری قرضے کے سٹاک میں تھوڑی کمی کو ممکن بنایا۔ رپورٹ میں پاکستان کے قرضے کے خاکے کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا گیا کیونکہ اس کی ہیئت ترکیبی میں قلیل ترین میعادوں کی طرف تیزی سے رجحان بڑھا ہے۔ اس کی وجہ سے حکومت کیلئے اجرائے ثانی اور شرح سود کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ اگرچہ سٹیٹ بینک اپنے اس نقطہ نگاہ پر قائم ہے کہ ملکی قرضے کو از سر متوازن کرکے طویل مدتی پیپر کی طرف لانا ضروری ہے تاہم 2014ء کی دوسری سہ ماہی میں بہتری کا رجحان تھا جو تیسری سہ ماہی میں برقرار ہے۔ اس سہ ماہی میں حکومت نے پی آئی بیز کے ذریعے 105.6 ارب روپے حاصل کئے جو چار سہ ماہیوں بعد جمع کی جانے والی بلندترین رقم تھی۔ منڈی کے احساسات میں یہ تبدیلی گرانی کے گرتے ہوئے امکانات سے منسوب کی جاسکتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ بازار میں شرح سود مزید بڑھنے کی توقع نہیں کی جارہی۔ رپورٹ کے مطابق عمومی گرانی 2013ء کی پہلی ششماہی کے 8.3 فیصد کے مقابلے میں 2014ء کی پہلی ششماہی کے دوران اوسطاً 8.9 فیصد ہوگئی۔ گرانی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت دسمبر 2014ء میں گر کر 9.2 فیصد رہ گئی جبکہ نومبر 2013ء میں یہ دو ہندسی ہوگئی تھی۔ مہنگائی میں کمی کا یہ رجحان جاری رہنے کا امکان ہے۔ملک کے زر مبادلہ کے ذخائر آمد رقوم نہ ہونے اور آئی ایم ایف کو بھاری ادائیگیوں کے باعث آخر نومبر 2013ء تک دباؤ میں رہے۔ تاہم دسمبر 2013ء میں صورتحال بہتر ہوئی جب آئی ایم ایف سے 554 ملین ڈالر کی توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کی دوسری قسط ملی اور اس ماہ جاری کھاتے میں فاضل دیکھا گیا‘‘۔ درحقیقت دسمبر 2013ء میں پاکستانی روپے کی قیمت میں 3.0 فیصد اضافہ ہوا جبکہ جولائی سے نومبر 2013ء کے دوران اس میں ڈالر کی نسبت 8.2 فیصد کمی ہوچکی تھی۔‘‘مارچ 2014ء میں سٹیٹ بینک کے ذخائر پر دباؤ خاصا کم ہوگیا ہے۔ پاکستان نے نہ صرف آئی ایم ایف کے قرضے کی بھاری قسطیں ادا کی ہیں اور آخر جون 2014ء سے قبل عالمی مالی اداروں سے خاصی رقوم متوقع ہیں بلکہ مارکیٹ نے خلیج تعاون کونسل کے ایک ملک سے 1.5 ارب ڈالر کی رقم غیر متوقع طور پر ملنے پر بہت مثبت ردعمل ظاہر کیا ہے۔ نتیجتاً بازار مبادلہ کے احساسات میں تبدیلی کے بعد پاکستانی روپیہ جنوری اور فروری 2014ء کے مہینوں میں مستحکم رہا مارچ میں اس کی قیمت خاصی بڑھ گئی۔ نجی شعبے کو قرض سے بڑی صنعتوں میں بہتری آئی۔

ای پیپر-دی نیشن