ہتھیار بردار ڈرون عالمی قوانین کے مطابق استعمال کئے جائیں‘ اقوام متحدہ انسانی حقوق کونسل میں پاکستانی قرارداد بھاری اکثریت سے منظور، امریکہ، برطانیہ اور فرانس سمیت6 ملکوں کی مخالفت
نیویارک +اسلام آباد(نوائے وقت رپورٹ/ سٹاف رپورٹر/ نیٹ نیوز/ بی بی سی) اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے ڈرون حملوں کیخلاف پاکستان کی قرارداد کثرت رائے سے منظور کرلی ہے۔ قرارداد میں پاکستان نے تمام رکن ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ ہتھیاورں سے لیس ڈرونز کے استعمال کو عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق بنایا جائے۔ ڈرونز کے استعمال میں بین الاقوامی انسانی قانون کا خیال رکھا جائے۔ انسانی حقوق کونسل ستمبر میں ڈرونز کے استعمال کا قانونی جائزہ لے گی۔ دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ ڈرون سے متعلق یہ قرارداد ہمارے سفارتخانے کی کوششوں سے ممکن ہوئی ہے۔ بی بی سی کے مطابق اقوام متحدہ نے تمام ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ ڈرون طیارے استعمال کرتے وقت بین الاقوامی قوانین کو ملحوظ خاطر رکھیں۔ اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کے کونسل میں پاکستان کی اس قرارداد کو یمن اور سوئٹزر لینڈ نے مشترکہ طور پر پیش کیا جس میں کسی ملک کا نام لئے بغیر ڈرون ٹیکنالوجی کے استعمال میں بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرنے کی بات کی گئی تھی۔ واضح رہے کہ امریکہ اس وقت دنیا میں ڈرون ٹیکنالوجی کو سب سے زیادہ استعمال کر رہا ہے اور جن ملکوں میں اہداف کو نشانہ بنانے کیلئے ڈرون استعمال کئے جا رہے ہیں ان میں پاکستان، صومالیہ، افغانستان اور یمن شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل میں پاکستان کے سفیر ضمیر اکرم نے کہا کہ انکا مقصد کسی ملک کا نام لیکر اسے شرمندہ کرنا نہیں بلکہ یہ ایک اصول کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ امریکہ القاعدہ اور طالبان شدت پسندوں کیخلاف ڈرون کے استعمال کو اس لئے بہت اہمیت دیتا ہے کہ ڈرون کا نشانہ عین نشانے پر لگتا ہے۔ پاکستان کا مﺅقف ہے کہ ڈرون حملوں میں عام شہری مارے جاتے ہیں اور ڈرون حملے اس کے جغرافیائی خودمختاری کی خلاف ورزی ہیں۔قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ڈرون استعمال کرنے کے بارے میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے کی رپورٹ کے تحت اس موضوع سے منسلک سوالات پر ماہرین کے درمیان قانونی بحث کرائی جائے۔ دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ ہم خیال دوست ملکوں کے ساتھ قریبی روابط کی بدولت یہ تاریخی کامیابی حاصل کی گئی ہے۔ پاکستان کی اس قرارداد میں مسلح ڈرون کرنے والے ملک امریکہ کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ 47 رکنی انسانی حقوق کونسل کے 27 ارکان نے پاکستان کی قرارداد کے حق میں ووٹ دیا جبکہ امریکہ،فرانس اور برطانیہ سمیت چھ ارکان نے مخالفت کی۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ امریکہ اس وقت افغانستان، یمن اور صومالیہ میں ڈرون حملے کر رہا ہے جبکہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں اس نے کچھ ماہ سے یہ سلسلہ روکا ہوا ہے۔ امریکی نائب معاون وزیر کا کہنا ہے کہ امریکہ کی پالیسی رہی ہے کہ اس کی قومی سلامتی کی ضروریات کے پس منظر میں تمام اقدامات جن میں ڈرون کا استعمال بھی شامل ہے، ملکی اور عالمی قوانین کے تحت اٹھائے جائیں جائیں اور ان میں جس حد تک ہو سکے شفافیت ہو۔ حقوق انسانی کی کونسل نے تمام ممالک پر زور دیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ اگر دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے بشمول ڈرون، ان کی طرف سے اختیار کردہ تمام اقدامات عالمی قوانین کے تحت ہوں۔ رپورٹ کے خصوصی تفتیش کار بین ایمرسن کی حالیہ رپورٹ کی روشنی میں ڈرون حملوں میں عام لوگوں کی ہلاکتوں پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ قرارداد میں عالمی ادارے کے حقوق انسانی کی سربراہ نوی پلے سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ مسلح ڈرون کے استعمال پر تفصیلی مباحثے کا اہتمام کریں اور ستمبرمیں اقوام متحدہ کو اس کی تفصیلات سے آگاہ کریں۔ قرارداد کی مخالفت کرنے والے ممالک میں برطانیہ، فرانس اور امریکہ نے کہا کہ اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کی کونسل کے ایجنڈے پر ہتھیاروں کے نظام جیسے معاملات نہیں ہونے چاہئیں۔ووٹنگ کے دوران 14 ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق قرارداد میں اس مسئلہ کے حوالے سے قانونی سوالات پر ماہرین کے باہمی پینل مباحثہ منعقد کرنے پر بھی زور دیا گیا ہے جیسا کہ دہشت گردی کا انسداد کرتے ہوئے انسانی حقوق کے فروغ اور تحفظ کے بارے میں اقوام متحدہ خصوصی رابطہ کار بین ایمرسن کی رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے۔ پینل مباحثہ ستمبر 2014ءمیں جنیوا میں منعقد ہونے والے انسانی حقوق کونسل کے 27 ویں اجلاس میں ہو گا۔ یہ قرارداد اقوام متحدہ میں اس اہم قانونی معاملہ پر بین الاقوامی برادری کو احساس دلانے کے لئے ہمارے مشن کے ہم خیال ریاستوں کے ساتھ قریبی رابطہ کا نتیجہ ہے۔ اس قرارداد کی منظوری بین الاقوامی قوانین کے خلاف مسلح ڈرونز کے استعمال کے بارے میں پاکستان کے اصولی موقف کے لئے بین الاقوامی حمایت کے حصول کے ضمن میں اس کی سفارتی کامیابی کو اجاگر کرتی ہے۔ اس سے ڈرونز کے مسئلہ کو حل کرنے کے لئے پاکستان کی کوششوں کو مزید تقویت حاصل ہو گی۔