ماں کے پاﺅں تلے جنت مگر عورت کے حقوق پر مجرمانہ خاموشی
موجودہ دور میں عورت اور مرد کو گاڑی کے دو پہیوں سے تشبیہ دی گئی ہے ایک کے بغیر یہ گاڑی چلتی نہیں۔ یہی نہیں دنیا کی تاریخ میں نظر دوڑائیں تو اس حقیقت کا اعتراف سب نے کیا ہے کہ وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ۔ قبل از اسلام زمانہ جاہلیت میں قبائل اپنی جھوٹی انا کی تسکین کیلئے بچی پیدا ہوتے ہی اس کو زندہ گاڑ دیتے تھے وہ یہ عام فہم سی منطق سمجھنے سے قاصر تھے کہ اگر عورت نہ رہی تو مرد کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا مگر اللہ رب العزت نے جب نبی کریم کو آخری نبی بنا کر بھیجا تو آپ نے زمانے کے جاہلوں کو بتایا کہ عورت کے بھی وہی حقوق ہیں جو مرد کو حاصل ہیں۔ مگر کیا کیجئے کہ ہماری ساڑھے چودہ سو سالہ اسلامی تاریخ ان واقعات سے بھری پڑی ہے کہ جس میں نام نہاد علمائے دین نے مذہب کے نام پر دنیا کی آبادی کے آدھے سے زیادہ حصے کو عضوِ معطل بنا کر رکھ دیا ہے اس وقت دنیا کی آبادی 8 ارب کے لگ بھگ ہے جس میں 53 فیصد خواتین اور 47 فیصد مرد ہیں۔ ہم نے یورپ میں دیکھا ہے کہ جب بے روزگاری کا حساب لگایا جاتا ہے تو کہا جاتا ہے فلاں ملک یا صوبے میں 4 فیصد بے روزگاری ہے تو تعداد مرد و عورت دونوں کو شامل کر کے بتائی جاتی ہے جبکہ پاکستان اور کئی اسلامی ممالک میں جہاں خواتین کی تعداد کل آبادی کا 51 فیصد سے زیادہ ہے وہاں بے روزگاری کی شرح 20 فیصد بتائی جائے۔ تو یقیناً وہ 20 فیصد شرح نہیں ہوتی بلکہ وہ بے روزگاری کی شرح 71 فیصد ہوتی ہے۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اگر مردوں پر اسلامی فرائض کا اطلاق ہوتا ہے تو عورتوں پر بھی نماز، روزہ ، حج زکوة اور کلمہ اسی طرح واجب ہے۔ اسلام کے شعائر میں کہیں بھی عورت کے آدھے حقوق سلب نہیں کئے گئے بلکہ ہمارے دین میں بزرگوں، بچوں اور خواتین کو اولیت دی گئی ہے۔ تاریخ اسلام گواہ ہے کہ خواتین نے جنگیں تک لڑیں اور جنگوں میں نرسوں کی خدمات سرانجام دیں۔
ابھی کچھ دن پہلے اسلامی نظریاتی کونسل نے ایک دفعہ پھر ایک ایسی لاحاصل بحث چھیڑ دی ہے کہ جس کی وجہ سے ہماری جگ بھر میں رسوائی ہوئی ہے بلکہ غیر مذاہب کی خواتین جو جوق در جوق حلقہ بگوش اسلام ہو رہی ہیں وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی ہوں گی کیا اس مذہب اسلام میں عورت کا کردار اتنا محدود ہے؟ دنیا چاند پر پہنچ گئی ،مریخ پر انسانوں کو پہچانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔
انٹرنیٹ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وسعت سے یہ دنیا ایک گلوبل ویلج میں تبدیل ہو چکی ہے۔ مہلک انسانی بیماریوں کے علاج اور ادویات تقریباً دریافت ہو چکی ہیں۔ حتیٰ کہ انسان ترقی کی معراج پر ہے راکٹ سائنس کا دور ہے مگر ہمارے نام نہاد علمائے دین ابھی تک حلال حرام کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں اور پھر ہلاکو کی طرح کوئی آئے گا اور علم و دانش کا گڑھ شہر بغداد جلا کر راکھ کر دے گا۔ نامور اصحاب رسول و دانشوروں کی تصانیف آگ کا ایندھن بن جائیں گی۔1973ءکا متفقہ آئین بنے بھی 60 سال سے زائد ہو گئے مگر جس پر ہر طبقہ ہائے فکر سمیت سیاسی ہی نہیں مذہبی رہنماﺅں کے دستخط بھی موجود ہیں۔ ایک طرف تغیرات زمانہ اپنا پھن کھولے بیٹھا ہے خطے میں جغرافیائی و لسانی بنیادوں پر تبدیلیوں کا عمل جاری ہے ملک میں ہر طرف آگ لگی ہوئی ہے۔ بم دھماکے بارود کی فضا اور اسلامی نظریاتی کونسل کو کم عمر بچوں کی شادی کی فکر کھائے جا رہی ہے۔ جہاں ایک مرد اور عورت کو ایک شادی رچانے کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں وہاں پر ہماری نظریاتی کونسل ملٹی پل شادیوں کی نوید سُنا رہی ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں ”اندھے کو اندھیرے میں بری دور کی سوجھی“ ملک کے 20 کروڑ عوام اب یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں، سینٹ میں اس وقت ایک تہائی خواتین اپنے کوٹے کا حصہ لے کر بیٹھی ہیں اور ان ممبران اسمبلی میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذہبی جماعتوں بشمول جماعت اسلامی، جمعیت العلمائے اسلام و دیگر بھی اپنا اپنا کوٹہ لے کر بیٹھی ہیں۔ ملک کے طول و عرض میں خواتین بینک اور خواتین تھانے بن چکے ہیں۔ پولیس، فوج ، رینجر، پی آئی اے، سکولز، تعلیمی ادارے، ہسپتال سمیت کوئی ایسا ادارہ رہ نہیں گیا جہاں عورتوں کی ایک بری تعداد اپنی ڈیوٹیاں سرانجام دے رہی ہیں۔ حتیٰ کہ اب ہاکی، کرکٹ اور کبڈی کی خواتین ٹیمیں بن چکی ہیں۔ ملک عزیز میں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید دو مرتبہ ملک کی وزیراعظم رہ چکی ہیں۔ خاتون اسپیکر اسمبلی بھی موجود تھیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل وفیڈرل شریعت کورٹ اور رویت ہلال کمیٹی میں عورتوں کو ان کے تناسب کے لحاظ سے نمائندگی کیوں نہیں دی گئی؟ پاکستان کی کل آبادی کا 51 فیصد حصہ عورتیں ہیں اگر عورتوں کو ملکی معاملات سے علیحدہ نہیں رکھا جا سکتا اگر عورتیں پارلیمنٹ میں وفاقی شرعی عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل اور رویت ہلال کمیٹی کی قانون سازی میں حصہ لے سکتی ہیں تو پھر عورتوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے متعلقہ اداروں میں بھی ان کا جائز حق ملنا چاہیے۔ کیا جان بوجھ کر صرف چند شرپسند مذہبی جنونیوں سے ڈرتے ہوئے عورتوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنا ملک کی آدھی آبادی سے ناانصافی نہیں؟ اگر ہمیں زمانے کے ساتھ چلنا ہے اور اپنے مقابل کا مقابلہ کرنا ہے تو ملک کی آدھی شرح آبادی کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ عورت و مرد گاڑی کے دو پہیوں کی مانند ہیں ایک کو پنکچر کرکے گھسیٹا جا سکتا ہے ساتھ چلانے کے لیے ملک کے سبھی حصوں میں عورت کو اس کے جائز حقوق جو کسی طرح بھی مرد سے کم نہیں ان سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ جنت تو مانتے ہیں مگر اس جنت کو جائز حقوق دینے سے خوف کھاتے ہیں۔ دراصل ہمارے معاشرے میں مرد حضرات اپنے اندر خود کو آقا اور عورت کو غلام کے روپ میں لونڈی کے روپ میں دیکھنے کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ بظاہر روشن خیال حضرات بھی عورت کو برابری کے حقوق دینے سے گریزاں ہیں۔