حکومت نے طالبان کے مطالبات کے جائزے کے لئے دو سے تین روز کی مہلت مانگ لی ‘ جنگ بندی ختم نہیں ہو گی : سمیع الحق
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+نوائے وقت رپورٹ+اے ایف پی) وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کی سربراہی میں مذاکراتی کمیٹیوں کا مشترکہ اجلاس ہوا جس میں حکومت نے طالبان کے مطالبات کا جائزہ لینے کےلئے 3 روز کی مہلت مانگ لی ہے۔ وفاقی حکومت دو تین روز میں طالبان کے مطالبات کا جواب دیگی جس کے بعد طالبان کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے کہا ہے کہ حکومت کا واضح موقف سامنے آنے کے بعد طالبان سے دوبارہ ملاقات کےلئے وقت اور جگہ کا تعین کیا، شوریٰ سے دوبارہ ملاقات اور ایجنڈا کو حتمی شکل دی جائیگی۔ مذاکرات میں کوئی ڈیڈلاک نہیں، ہم پیشرفت سے مطمئن ہیں، طالبان کی جانب سے جنگ بندی ختم نہیں ہوگی، قوم مذاکرات کی کامیابی کےلئے دعاﺅں کا سلسلہ جاری رکھے ۔ چودھری نثار علی خان کی سربراہ میں مذاکراتی کمیٹیوں کا مشترکہ اجلاس پنجاب ہاﺅس میں تین گھنٹے سے زائد وقت تک جاری رہا ۔ اجلاس میں حکومتی کمیٹی اور طالبان شوریٰ سے ہونیوالی ملاقات کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔ غیرعسکری قیدیوں کی رہائی، جنگ بندی میں توسیع، مذاکرات کےلئے فری پیس زون کے قیام اور مذاکراتی عمل میں ہونے والی پیشرفت کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں طالبان کے ساتھ اگلی ملاقات کے ایجنڈا اور آئندہ کے لائحہ عمل پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ حکومت اور طالبان کی جانب سے پیش کئے گئے مطالبات کا جائزہ لیا گیا۔ بعدازاں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا سمیع الحق نے کہاکہ اجلاس میں طالبان کیساتھ مذاکرات کا جائزہ لیاگیا طالبان کے ساتھ ہونیوالی ملاقات کو اچھی پیشرفت قرار دیاگیا ہے، تمام امور پر تبادلہ خیال کیاگیا، فریقین کے موقف پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔ حکومتی کمیٹی اور طالبان شوریٰ کی ملاقات پر اطمینان کا اظہار کیاگیا اور اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی ہے کہ اب دونوں اطراف سے عملی اقدامات ہونے چاہئیں تاکہ مذاکراتی عمل میں تیزی آئے۔ چودھری نثار علی خان نے دو تین دن کی مہلت مانگی ہے جس کے بعد حکومت کا موقف سامنے آئیگا۔ دو تین روز بعد طالبان سے دوبارہ ملاقات کےلئے وقت اور جگہ کے تعین کے ساتھ ساتھ آئندہ کا لائحہ عمل اور ایجنڈا طے کیا جائےگا، اسکے بعد دونوں کمیٹیاں ایک بار پھر طالبان شوریٰ سے ملاقات کےلئے جائیں گی۔ امید ہے میڈیا اس عمل میں ہمارا ساتھ دیگا۔ ایسے خدشات، تحفظات اور اندیشوں کا اظہار نہیں کیا جائےگا جس سے مذاکراتی عمل کو نقصان پہنچے۔ ہم امن چاہتے ہیں، ایک انسان کو بچانا پوری انسانیت کی بقا ہے ہمیں امید ہے کہ اللہ ہماری کوششوں کو رائیگاں نہیں جانے دیگا۔ ہم مذاکرات سے پُرامید ہیں حالات سے کوئی مایوسی نہیں، کسی جلدبازی کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔ طالبان کی جانب سے جنگ بندی تاحال برقرار ہے اور انشاءاللہ ختم نہیں ہوگی، اگلے دو تین روز میں تمام معاملات واضح ہوجائیں گے۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں مذاکراتی عمل پر اطمینان کا اظہار کیا گیا۔ اس دوران یہ عزم ظاہر کیا گیا کہ انسانی خون کا ایک قطرہ بھی نہیں بہنا چاہئے۔ اللہ کی مدد اور قوم کی دعا¶ں سے پاکستان کو امن کا گہوارہ بنا دیا جائیگا۔ طالبان نے مطالبہ کیا کہ جو گروپ مذاکرات کا حصہ ہیں انہیں کالعدم تنظیموں کی فہرست سے نکال دیا جائے۔ سمیع الحق نے کہا کہ اجلاس میں طالبان سے ملاقات کا جائزہ لیا گیا۔ طالبان سے براہ راست مذاکرات کا دوسرا مرحلہ جلد ہو گا۔ اگلے دو تین روز میں طالبان سے دوبارہ ملاقات کا ایجنڈا طے کیا جائیگا۔ اے ایف پی کے مطابق سمیع الحق نے کہا کہ انشاءاللہ جنگ بندی اس سوال پر کہ طالبان سے مذاکرات میں قیدیوں کی رہائی پر بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ تمام امور زیرغور آئے۔ دریں اثنا طالبان رابطہ کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم نے کہا ہے کہ حکومتی ٹیم اور طالبان قیادت سے دوسری ملاقات چند روز میں کرائیں گے۔ پہلی ملاقات کے بعد اب تک طالبان قیادت سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ طالبان کے اندرونی معاملات کو زیادہ جاننے کی کوشش نہیں کرتے۔ طالبان شوریٰ اور مذاکراتی کمیٹی کے ساتھ رابطے ہمارے لئے کافی ہیں۔ طالبان اور حکومت کو مشکلات کا سامنا ہوگا، اعتماد بحال ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اندرونی مشکلات کا حل بھی نکل آئیگا۔ طالبان جنگ بندی پر پوری طرح قائم ہیں اسکے اعلان کے بعد انہوں نے ایک گولی بھی چلائی، حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں ڈیڈ لاک کے حوالے سے خبروں میں کوئی صداقت نہیں۔ ایک انٹرویو میں انہوںنے کہا طالبان شوری سے براہ راست مذاکرات کے دوران بھی جنگ بندی پر عملدرآمد کو یقینی بنانے پر بات ہوئی تھی۔ دونوں فریقین کے درمیان بات چیت مثبت انداز میں آگے بڑھ رہی ہے۔ امید ہے دونوں جانب سے قیدیوں کی رہائی کا عمل جلد ہی شروع ہوجائیگا۔ طالبان سے ملاقات کیلئے دونوں کمیٹیاں جلد شمالی وزیرستان جائیں گی۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی وجہ سے ملک میں انسداد پولیو مہم کو شدید نقصان پہنچا، طالبان شوری سے براہ راست مذاکرات کے آئندہ دور میں وزیرستان میں انسداد پولیو مہم کے حوالے سے بات کی جائیگی تاکہ قبائلی علاقوں کے بچوں کو دائمی معذوری سے بچایا جاسکے۔ اجلاس کے دوران طالبان مذاکراتی کمیٹی نے بات چیت کا عمل کامیاب بنانے کیلئے طالبان کی جانب سے ایک ماہ کے سیز فائر میں توسیع کرانے کی یقین دہانی کرا دی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ مشاورتی اجلاس میں طالبا ن شوریٰ کی جانب سے کئے جانیوالے مطالبات کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس کے شرکاءکو بتایا گیا کہ حکومت نے خواتین، بچوں اور دیگر قیدیوں کے حوالے سے سکیورٹی اداروں کے پاس موجود قیدیوں کی بھی جانچ پڑتال شروع کر دی ہے۔ حکومت کی خواہش ہے کہ مذاکراتی عمل کو بلاوجہ طول نہ دیا جائے، اسلئے وہ مذاکراتی عمل میں تیزی سے پیشرفت چاہتی ہے۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ طالبان کمیٹی کی جانب سے حکومت کو یقین دھانی کرائی گئی ہے کہ طالبان کی جانب سے ایک ماہ کی سیزفائز میں مزید توسیع کرائی جائیگی تاکہ اعتما د سازی کی فضا کو بہتر بنایا جا سکے اور حکومت طالبان کے مطالبات کے حوالے سے فیصلے کرسکے۔
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+ ایجنسیاں) وزیراعظم ڈاکٹر محمد وزیر اعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ طالبان سے آئین اور قانون سے باہر کوئی بات نہیں ہوگی، حکومت چاہتی ہے کہ ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ اور مکمل امن قائم ہو تاکہ تمام لوگ سکون سے زندگی گزاریں۔ طالبان سے جاری مذاکراتی عمل پر پیشرفت خوش آئند ہے تاہم حکومت کوئی غیرقانونی مطالبہ تسلیم نہیں کریگی۔ وہ وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان سے ملاقات کے دوران بات چت کررہے تھے ۔ وزیرداخلہ نے بیرونی دورے سے واپسی پر وزیراعظم کو انکی عدم موجودگی میں طالبان سے ہونیوالے پہلے مذاکراتی دور کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ وزیراعظم کو بریفنگ کے بعد وزیر داخلہ نے دونوں مذاکراتی کمیٹیوں سے ملاقات کی۔ وزیر داخلہ نے وزیراعظم کو حکومتی کمیٹی کے طالبان شوریٰ کیساتھ ہونیوالے براہ راست مذاکرات کے دوران طالبان کی طرف سے پیش کردہ اپنے عسکری اور غیرعسکری قیدیوں کی رہائی سمیت دیگر مطالبات سے اعتماد میں لیا، وزیراعظم کو بتایا گیا کہ طالبان کی طرف سے کی جانیوالی ایک ماہ کی فائر بندی کو ختم ہونے میں 3 دن باقی رہ گئے ہیں تاہم طالبان کی طرف سے اس میں مزید توسیع کا یقین دلایا گیا تھا۔ وزیر داخلہ نے وزیراعظم کو بتایا کہ طالبان نے پروفیسر اجمل کی رہائی کےلئے اپنے 3 کمانڈروں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے اور یوسف رضا گیلانی اور سلمان تاثیر کے بیٹوں کو عسکری قیدی قرار دیتے ہوئے رہا کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ وزیراعظم نے طالبان سے ہونیوالی بات چیت کی روشنی میں وزیر داخلہ کوبعض ضروری ہدایات دیں۔ وزیراعظم اور وزیر داخلہ نے مذاکرات میں ہونیوالی پیشرفت پر قدرے اطمینان کا اظہا رکرتے ہوئے بات چیت آگے بڑھانے پر اتفاق کیا تاہم واضح کیا کہ آئین اور قانون کی بالا دستی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا کوئی غیر قانونی مطالبہ تسلیم نہیں کیا جائےگا۔ وزیر داخلہ نے حکومت طالبات براہ راست مذاکراتی عمل پر وزیراعظم کو اعتماد میں لیا۔ آئندہ کی حکمت عملی پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق وزیراعظم ڈاکٹر نوازشریف کو حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے والی بات چیت کی تفصیلات سے آگاہ کر دیا گیا ہے مذاکراتی عمل میں پیشرفت ہوئی اس عمل کو غیر ضروری طور پر طول نہ دینے کا فیصلہ کرلیا گیا۔ حکومتی کمیٹی کو مذاکرات کیلئے قدم آگے بڑھانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کو حکومتی کمیٹی کے سربراہ وفاقی سیکرٹری حبیب اللہ خٹک کی قیادت میں کمیٹی کے ارکان کے دورہ شمالی وزیرستان ایجنسی کی تفصیلات سے آگاہ کر دیا گیا۔ فریقین میں اس امر پر اتفاق ہو گیا کہ مذاکراتی عمل میں تعطل پیدا نہیں ہونے دیں گے۔ اقدامات میں پہلے مرحلے میں جنگ بندی میں توسیع اور غیرعسکری قیدیوں کی رہائی کے معاملات شامل ہیں ۔ دوسرے مرحلے میں قیام امن اور قبائلی عوام کو قومی دھارے میں لانے کے اقدامات کے سلسلے میں باضابطہ طور پر معاہدے پر دستخط کئے جائیں گے۔ ثالثی کمیٹی کے ارکان معاہدے پر دستخط کریں گے حکومتی حلقوں کے مطابق وزیراعظم نے حکومت طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات میں ہونیوالی بات چیت اور سرکاری مطالبات مذاکراتی کمیٹیوں کے مشاورتی اجلاس پر اطمینان کا اظہار کیا۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے چودھری نثار علی خان کو ہدایت کی مذاکرات کے عمل کو تیز کیا جائے اور انکی کامیابی کیلئے ہر ممکن ذریعہ کو استعمال کیا جائے۔ حکومتی کمیٹی کے ذرائع نے کہا ہے کہ سیز فائر میں توسیع کیلئے تین چار روز میں طالبان سے ملاقات ضروری ہے۔ آئندہ مذاکرات کیلئے جنوبی وزیرستان کے علاقے شکتوئی کی تجویز دی گئی ہے۔ طالبان کا م¶قف ہے کہ پہاڑ، دریا اور کچے راستوں سے کئی دن کی مسافت دشوار عمل ہے۔ طالبان نے حکومتی کمیٹی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ سیزفائر ہم نے کیا حکومت نے نہیں۔ وزیرستان میں چھاپوں اور کارروائی پر تشویش ہے۔