مولا خوش رکھے!
کئی سال پہلے ’’میراث اور میراثیت‘‘ کے عنوان سے کالم میں لکھا تھا کہ میراثی کوئی قوم اور ذات نہیں۔ میراثیت ایک کیفیت کا نام ہے جو کسی پر بھی طاری ہو سکتی ہے۔ چونکہ میر عالم برادری پر کچھ زیادہ ہی طاری ہوتی ہے اس لئے انہیں میراثی کہہ دیا جاتا ہے۔ ان کیفیات میں جگت بازی جسے جدید دور میں مزاح کا نام دیا جاتا ہے، اہم ہے۔ گانا بجانا یعنی گلوکاری جگت بازی سے کم اہمیت کی حامل نہیں۔ بجا اور بے جا تعریف و توصیف میراثیت کا سب سے بڑھ کر وصف ہے۔ حاضر جوابی کو میراثیت کے زائد اوصاف میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ میراثیت ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ کیوں؟ ہمارے ایک دوست مزاح نگار کے کالموں سے متاثر ہو کر ایک اجنبی ان سے ملنے چلا آیا۔ دفتر میں داخل ہو کر ان کی میز پر دونوں ہاتھ جمائے اور جھکتے ہوئے پوچھا ’’سرکار!کالموں میں آ پ ہی جگت بازی کرتے ہیں۔‘‘ میزبان بڑی حیرانی سے زیادہ پریشانی سے گویا ہوئے ’’آپ کیا کہہ رہے ہیں! میں مزاح نگار ہوں۔‘‘ ایک ہی بات ہوئی ناں! ’’مزاح نگار یا جگت باز!‘‘ اس کے بعد بڑی آہستگی سے رازدارانہ لہجے میں کہا ’’میں بھی میراثی ہوں‘‘ --- ’’زبان سنبھال کر بات کرو میں سیّد ہوں‘‘ میزبان نے ذرا ترش اور سخت لہجے میں کہا۔ اس پراجنبی نے کہا ’’مولا خوش رکھے! ناراض نہ ہوں، دو تین سال سے ہم بھی قریشی ہو گئے ہیں، آپ ذرا تیز نکلے، ہماری اگلی منزل وہی ہے جس پر آپ پہنچ چکے ہیں‘‘۔ ’’قریشی صاحب‘‘ کی باتوں سے زچ میزبان نے جیب سے پانچ سو کا نوٹ نکالا، اس کی ہتھیلی پر رکھتے ہوئے ہاتھ جوڑے، انکو واپسی کا راستہ یہ کہتے ہوئے دکھایا’’مولا خوش رکھے۔‘‘
تعریف و توصیف کا وصف کم یا زیادہ ہر شعبہ زندگی کے لوگوں میں پایا جاتا ہے۔ سول و ملٹری بیورو کریسی، چھوٹے بڑے افسروں اور اہلکاروں میں خوشامدانہ اوصاف متعدی مرض کی طرح پھیلے ہوئے ہیں۔ جونیئر اپنے سینئر کی تعریف کے قلابے ملا دیتا ہے اور عموماً ترقی و نوازش کے در کھلتے چلے جاتے ہیں۔بلا شبہ خوشامد سے حق غائب ہو جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں میرٹ کی مٹی پلید ہو جاتی ہے۔ ہر حکمران سرکاری مولوی، سرکاری کن ٹُٹا، سرکاری گوَیَّا اور سرکاری خوشامدی رکھتا ہے، آج کے دور کے حکمرانوں نے ایسے کئی رکھے ہوئے ہیں، انہی سے مخالفوں کی ہجوگوئی کا کام بھی لیا جاتا ہے، انہی خدمات کے باعث کئی اُس مقام پر پہنچ گئے جسے وہ اولیٰ سمجھتے ہیں، مولا خوش رکھے! اگر دل کی آواز سُننے کا آلہ ایجاد ہو جائے تو 99 فیصد سیاستدانوں کے دل سے ’’مولا خوش رکھے‘‘ کی صدائیں سُنائی دیں گی۔ پاکستان میں صدر اور وزیراعظم سے بڑا عہدہ کوئی نہیں ہے۔ خدا بہتر جانتا ہے کہ ممنون حسین پر نواز شریف نے کن خدمات کی بنا پر احسان کیا کہ وہ صدر بن کر بھی رطب اللسان رہتے ہیں۔ سعودی عرب حج کیلئے گئے تو وہاں فرمایا پاکستان کی ترقی و خوشحالی کیلئے نواز شریف ناگزیر ہیں۔ کل کہا نواز شریف جیسا وزیر اعظم ملنا ملک کی خوش قسمتی ہے۔ امپورٹڈ گورنر صاحب بھی کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ مولا ۔۔۔
وزیر خزانہ کی یہ کہتے کہتے زبان سوکھ جاتی ہے کہ نواز شریف کی ہدایت پر ہم نے فلاں ہدف حاصل کر لیا، میاں صاحب کی شخصیت کو دیکھ کر ہی سعودی عرب نے ڈیڑھ ارب ڈالر کا تحفہ دیا۔ مولا ۔۔۔ میاں صاحب ’’خوش رکھے‘‘ کہنے والوں کے جھرمٹ میں رہتے ہیں اور ان کو پسند بھی ایسے لوگ ہی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے دور میں ہر وزیر کو زرداری صاحب مدبر سیاستدان، مفاہمت کے دیوتا اور ملکی ترقی و خوشحالی کے ضامن نظر آتے تھے جس کا برملا اظہار بھی کیا جاتا رہا۔ مولا۔۔۔ آج یہی سب کچھ ہر وزیر، مشیر اور چھوٹا موٹا عہدیدار اپنے حکمرانوں کیلئے کہتا ہے حتیٰ کہ خادمِ پنجاب بھی کہتے پاکستان میں جاری ترقی میاں صاحب کے وژن کا نتیجہ ہیں، مولا۔۔۔روزانہ سینکڑوں ڈکیتی، چوری، رہزنی، قتل و غارتگری اور جبری و اجتماعی زیادتی کے کیس ہوتے ہیں ، شاباش ہے ایسے وژن پر۔آج اگر کوئی صنم اپنے تراشنے والوں کے گیت نہیں گاتا تو وہ ایک نجم سیٹھی ہے۔ ایک طرف نجم سیٹھی صاحب ذکاء اشرف کے ارمانوں پر اپنا محل بنا چکے ہیں جس کی تعمیر ’’نواز شاہی‘‘ حکم پر ہوئی، دوسری طرف وہ ٹی وی پروگرام میں حکومت کے حوالے سے کڑواسچ بولتے ہیں۔مگر نجم سیٹھی کے سچ پر بھی حکمرانوں کو قند کا گماں ہوتا ہے۔ شاید 35 پنکچروں کے فسانے میں کچھ حقیقت ہو اور میاں صاحب اس عظیم خدمت پر سیٹھی صاحب سے مل کر کہتے ہوں، مولا۔۔۔ نجم سیٹھی صاحب کو میاں صاحب نے اپنے گزشتہ دور میں پکڑوایا اور پھینٹا لگوایا‘ جن لوگوں نے چھڑوایا‘ ان سے سیٹھی صاحب نے کہا ہوگا مولا۔۔۔ فیصل عرب خصوصی عدالت سے الگ ہونے کا اعلان کیا تو مشرف کے وکلا نے کہا ہو گا۔ مولا۔۔۔ جج صاحب کے تھو کوڑی کہنے پر دوسرے فریق نے بھی ایسا ہی کہا ہوگا۔ آرمی چیف بنانے والوں کو جنرل راحیل نے کہا ہوگا‘ مولا۔۔۔ اب بنانے والے لاپتہ افراد کی بازیابی اور طالبان مذاکرات میں ساتھ دینے پر کہتے ہونگے ‘مولا۔۔۔
کالم نگار خواہ جتنا بھی غیر جانبدار ہو کر لکھے کوئی نہ کوئی طبقہ اسکی تحریر سے مسرور ضرور ہوتا ہے، گویا ہم اس طبقے کو کہہ رہے ہیں ’’مولا۔۔۔‘‘ کالم پسند کرنے والے بھی ایسا کہتے ہیں۔ جناب عطاالحق قاسمی صاحب کا ہر کالم حکمرانوں کے حق یا مخالفین کی ہجو پر مبنی نہیں ہوتا، آپ کے فرزندیاسر پیرزادہ کا کالم عموماً غیر جانبدار ہوتا ہے۔ انہوں نے گزشتہ دنوں کالم ’’مولوی محمد علی جناح‘‘ لکھ کر ان لوگوں کو ’’مولا خوش رکھے‘‘ کہہ دیا جو پاکستان کو سیکولر ریاست اور قائد کو مذہب سے لاتعلق قرار دیتے ہیں۔ قاسمی صاحب نے ’’بزبانِ قاسمی‘‘ پروگرام میں فرمایا کہ وہ امریکہ میں رہتے ہوئے اس لئے بھی شادی شدہ زندگی نہیں گزرانا چاہتے تھے کہ انکے بیٹے کا نام پیرزادہ جیکب قاسمی ہوتا۔ قاسمی صاحب وطن واپس لوٹ آئے ۔ انکے ہاں جو پاکستان میں پیدا ہُوا اسکے نظریات کے حوالے اُس کا نام پیرزادہ ٹنڈولکر نریندر پرکاش قاسمی بھی رکھ دیا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ کالم میں ایک تہمت یہ بھی ہے کہ ’’لنکز اِن میں محمد علی جناح نے داخلہ لیا تاہم بعد ازاں درخواست لکھ کر اپنا نام نام تبدیل کر کے فقط جناح رکھ لیا۔ ہمارے قائد کا پیدائشی نام محمد علی جناح بھائی تھا۔ آپؒ نے اپنے نام سے ’’بھائی‘‘ کا لفظ ہٹانے کی درخواست کی تھی۔ یاسر پیرزادہ مزید لکھتے ہیں :
’’میرے کمرے میں قائداعظم کی جو تصویر آویزاں ہے اس میں قائد کا چہرہ کلین شیو ہے، انہوں نے تھری پیس سوٹ پہنا ہے اور ہاتھ میں سگار ہے، تاہم میرے ایک دوست کی خواہش ہے کہ میں قائد کی تصویر تبدیل کر دوں اور اسکی جگہ شیروانی اور جناح کیپ والی پورٹریٹ آویزاں کروں، یہی نہیں بلکہ ان کے ہاتھ سے سگار بھی ’’چھین‘‘ لوں اور انکے چہرے پر داڑھی بڑھا کر نیچے ’’مولوی محمد علی جناح‘‘ لکھ دوں۔‘‘
ناں ناں ایسا کرنے کی ضرورت نہیں۔ہمارا مشورہ ہے کہ قائد کی تصویر نہ بدلیں۔ اپنے دوست کو خوش کرنا ہی تو مقصود ہے،اس کے لیے اپنے دادا مرحوم حضرت بہاء الحق قاسمی صاحب کی تصویر آویزاں فرما دیں جن کی وضع قطع وہی ہے جو آپ کا دوست دیکھنے کا متمنی ہے۔ ساتھ ہی اس مسجد کی تصویر بھی لگا دیں جس میں وہ امامت فرماتے رہے۔