وقت ہے اہل چمن اب بھی مداوا کر لو
مسجد، مدرستہ، خانقاہ کبھی بھی اپنے کردار سے غافل نہیں رہے اور امت مسلمہ کا ہر دور ان مقدس اداروں کے اثرات سے باہر نظر نہیں آتا۔ امت کے افراد کی انفرادی و اجتماعی تعلیم و تربیت کے لئے صاحبان اقتدار نے بھی اس ضرورت کو فراموش نہیں کیا۔
نیک دل اور خدا ترس حکمرانوں نے ان اداروں کی سرپرستی کرتے ہوئے ان کے لئے بڑی بڑی جائیدادیں وقف کیں اور ان اداروں سے متعلقہ افراد کی دنیا خوشحال کر دی۔ معاشرے میں اداروں اور افراد کی پذیرائی کے سبب اجتماعی ماحول میں دین سے وابستگی کا شعوری اور لاشعوری بیداری نے جنم لیا اور یہی بیداری نسل در نسل دین کی وابستگی کا پیغام لئے ہر مسلمان معاشرے میں منتقل ہوئی اور ایک بڑی حقیقت یہ ہے کہ ان پاک اداروں سے وابستہ افراد کو مسلمان معاشروں میں استحقاق سے بڑھ کر عزت نصیب ہوئی ہے۔ اس لئے خواستہ و نخواستہ لوگ ان نسبتوں سے تعلق کو اظہار عزت جانتے ہیں اور معاشرے سے خراج عقیدت، خراج تعظیم اور خراج خدمات کو حاصل کرنا اپنا حقِ ذات سمجھتے ہیں۔ اسی لئے اخلاص … کا جذبہ ماند پڑ جاتا ہے۔ تمنائے ستائش کا سیلاب عقل و جذبات پر چڑھا جاتا ہے اور حقیقت ثواب تمنائے ستائش و جلب زر کی دبیز چادر میں لپٹ جاتی ہے۔ ثواب و آخرت نہ رہبر کو نظر آتا ہے اور نہ قافلہ کو احساس منزل باقی رہتا ہے۔ فطرت کے تقاضوں کے مطابق معدودے چند افراد باقی رہ جاتے ہیں تو نعمت اخلاص لٹ جانے پر ماتم کناں ہوتے ہیں۔ رہبر نما راہزنوں سے الجھتے ہیں لیکن درماندہ نفس حلقہ کتریراں ان دردمندوں کو بے دردی سے میکدے سے یوں نکال باہر کرتا ہے گویا وہ کوئی حشرات الارض ہیں اور مئے انگبیں ہیں تلخیاں گھول رہے ہیں۔ مخلصین چیخ و پکار کرتے ہیں لیکن ساقی نما صاحبان دستار ضمیر فروشی کا کاروبار کرتے ہیں۔
ایک طویل عرصے سے تقدس کی فضائوں سے معمور ان اداروں میں دشمنانِ مذہب و ملت تفرقہ، نفرت اور تشدد کی ہوائیں بھجواتے ہیں۔ استاد اور طلبہ، مرید اور مرشد، واعظ اور سامع کلام سے لیکر عمل تک تفرقہ کی فضائوں کو ابر بہار سمجھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں اور یہی ماحولِ فسادان کے لئے بھیگا ہوا ہونے کے باوجود اکابر پرستی اور خوشنودی عوام پیش نظر ہوتی ہے اور اپنے ذوقی دھڑے کا استحکام بھی ان کا سرمایہ حیات ہوتا ہے۔ اس لئے کسی بھی سخت علاج کو گوارا کرنے کے لئے ان کا حوصلہ نہیں پڑتا ہے۔حکومت کا اولین فریضہ ہے کہ دیانتداری اور سیاسی اغراض سے بلند ہو کر ہر ملک کے مقتدر، جید علما سے ایک طویل مشاورت کرے اور ان کے احوال کے مطابق اور ملی اجتماعی تقاضوں کے موافق ایک ایسا لائحہ عمل اور نصاب تعلیم تیار کرے جس میں جدید و قدیم کا امتزاج ہو اور شعائر دینیہ کا تحفظ لازمی ہو۔ اور پھر مقتدر جید اکابر مدرسہ و خانقاہ و مسجد کی مشاورت و نگرانی میں ایک وسیع قومی دینی بورڈ تشکیل دے اور اس کو ایک آئینی حیثیت کے تحت مستقل ادارہ بنا کر تمام مساجد، خانقاہ اور مدارس کو قومی تحویل میں لے لے۔ جمعہ کے خطبات ان اکابر علمائ، خانقاہ اور مسجد کے ذمہ دار افراد کی مشاورت و نگرانی میں تیار ہوں۔ قرآن و سنت اور اجماع امت کو پیش نظر رکھتے ہوئے عامتہ المسلمین کی فکری و اخلاقی تربیت کی جائے اور ان اداروں کے مالی معاملات کو بھی کشادہ کیا جائے۔ بیرون ملک سے وصول شدہ رقم حکومت کے خزانہ میں جمع ہو اور مدارس و مساجد و خانقاہ کے امور کی انجام دہی کے لئے ریاست بھرپور مالی تعاون کرے تاکہ غربت کے مارے بچے نفسیاتی دبائو سے آزاد ہو کر متوازن اور معقول تعلیم و تربیت کی نعمت سے بہرہ ور ہوں اور ان کے قبلہ افکار میں درستگی آ جائے۔ مدارس اور یونیورسٹیز کے نصاب دینیات میں ہم آہنگی اور یکسانیت ہونا بہت ضروری ہے۔ ورنہ دین اور دنیا کے جداگانہ تصورات کے باعث ریاست کے اعلیٰ مقاصد عمرانیات بری طرح سے متاثر ہوں گے اور علماء کی محتاجگی فطری انداز میں بڑھتی چلی جائے گی۔ اس سے بڑی خطرناک بات یہ ہے کہ مدارس کے نصاب میں اور تعلیم کے دورانئے میں توازن نہیں ہوتا اور امتحانی نظام کا سلسلہ بھی شکایات کا ایک سلسلہ لئے ہوئے ہے۔ اس کے نتیجے میں فارغ التحصیل علماء کی تعداد میں اضافہ تو ضرور ہوتا ہے لیکن معیار علم میں بہت زیادہ کمی آ جاتی ہے۔
کالجز اور یونیورسٹیز میں اسلامیات کا نصاب اتنا مختصر ہوتا ہے کہ جس سے تصور اسلام ہی مختلف ہو جاتا ہے۔ پھر یونیورسٹیز سے فارغ التحصیل ایم اے، پی ایچ ڈی حضرات بزعم خویش عالم دین ہوتے ہیں بلکہ انہوں نے اپنے احساس کو بلند رکھنے کیلئے اپنا نام سکالر رکھ لیا ہے اور ہمارے ذرائع ابلاغ و نشریات نے بھی ایسے لوگوں کی ایک تقسیم بندی کرتے ہوئے پوری ٹیم تیار کر دی ہے۔ دوسری جانب مدرسہ کے تعلیم و تربیت یافتہ افراد کو ایک علیحدہ تقسیم کے تحت دین پر ثقاہت کا درجہ قرار دیا جاتا ہے پھر ایک منظم سوچ کے تحت اعتقادی اور معاشریت مسائل پر بحث کروائی جاتی ہے جس سے بہت سے امور کو متنازعہ یا ناقابل عمل قرار دے کر دین کی جگ ہنسائی کا سامان کیا جاتا ہے۔یہ ایک واضح صورتحال ہے جس سے دین و ملت دوچار ہے۔ اپنی خلوتوں میں اہل درد صاحبان مدرسہ و مسجد اور خانقاہ اپنی اس ابتری کا جائزہ نہایت دردمندی سے احوال کی کسمپرسی کا جائزہ لیتے ہیں اور حل بھی تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن افتراق کی اس فضائے ناہموار میں زبان پر قفل حفاظت چڑھا لیتے ہیں۔
اور اب مذہب ولامذہبیت کا خفیہ اور علانیہ ٹکرائو جاری رہتا ہے۔ مذہب کا پرستار لامذہب کو جنت میں داخل نہیں ہونے دیتا اور توبہ کے ہر دروازے پر خدائی پہرے دار بٹھا دیتا ہے اور لامذہب مذہب کے حامی کو دنیا میں برداشت ہی نہیں کرتا ہے۔ یہ تو ایک بڑی لڑائی ہے لیکن اکثر قابو میں آ جاتی ہے اور ایک بظاہر چھوٹی مگر حقیقت میں نہایت خطرناک لڑائی بین المذاہب اور ایک دین میں بین المسالک ہے جو دائرہ کفر کو وسیع کرتی ہے اور دائرہ اسلام کو تنگ کرتی ہے۔ یہ دائرہ تنگ سے تنگ ہوا جاتا ہے۔ جب کوئی شخص اپنے ناقص شعور، کم علم اور تنگ اخلاقی روئیے کو طلب دنیا کی زردار گٹھڑی میں باندھ کر اپنا فکری سفر شروع کرتا ہے۔ اصلاح اور اصلاح کا نعرہ اور دعویٰ لیکن چند قدم کے بعد ایک نیا منظر سامنے ہوتا ہے اور ہر گروہ مصلحین نعرہ اصلاح کے بل بوتے پر اپنا مشرب اور مسلک مرتب کرتا ہے اور پھر اس مسلک کے ارتقا و ترویج کیلئے اپنے افکار و ذوق کی چاشنی میں تعلیمات دین کو مرتب کرتا ہے۔ وہ افراد دین اور رجال عمل تیار کرتا ہے لیکن ان کی رہنما تعلیمات ان رجال عمل کو ایک محدود دائرے سے آگے نہیں بڑھنے دیتی ہیں۔
برصغیر میں دینی مزاج کی حامل سیاسی جماعتوں نے قیام پاکستان کے بعد دینی قوتوں کے نام سے اپنا نعرہ انقلابِ اسلامی اپنایا ہے لیکن اس نعرے میں روز بروز کشش کم ہوتی جا رہی ہے اس کے بہت سے اسباب ہیں لیکن ایک اہم سبب نہایت شدید درجے کی فرقہ پرستی ہے۔ دینی مدارس کی تقسیم مسلکی بنیاد پر ہوتی ہے اور حکومت ان کی تقسیم کو پوری طرح سے تسلیم کرتی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل، شرعی عدالت، اور اوقاف میں مناصب علیا سے لے کر نچلی سطح کی ملازمتوں کی تقسیم میں مذکورہ بالا حقیقت واضح نظر آتی ہے۔ اگرچہ اس تقسیم میں ناانصافی کی شکایت بھی مختلف مسالک کی جانب سے جاری رہتی ہے۔