وزیراعظم نواز شریف کی خصوصی توجہ کیلئے
کرامت بخاری علمی‘ ادبی حلقوں میں کرامت جیسا آدمی ہے۔ وہ بے پناہ شاعر ہے۔ میں اپنے محبوب بھائی فرحت عباس شاہ کو بے شمار شاعر کہتا ہوں۔ ڈاکٹر اختر شمار حیران کر دینے والا شاعر ہے۔ میں نے اس کے لئے کہا تھا:
تیری اختر شماریاں نہ گئیں
ستارے کون گن سکتا ہے۔ ایک آدمی نے کہا کہ اتنے ہیں۔ کچھ تعداد بھی بتائی تھی جو لاتعداد تھی۔ کہنے لگا کہ یقین نہیں آتا تو خود گن لو اور مجھے بھی بتائو کہ کتنے ہیں۔ کرامت بخاری کی شاعری پر میں نے لکھا ہے مگر آج اس کے ساتھ ہونے والی قیامت کا ذکر کرنے والا ہوں۔ وہ ہمارے علاقے کا افتخار ہے۔ ایک زمانے میں بھکر میانوالی کی تحصیل تھا۔ وہ ہرنولی کا ہے۔ دور افتادہ اور بہت پسماندہ۔ مٹی کے دیے کی روشنی میں پڑھ کر جوان ہوا۔ ایک جوان رعنا اس بستی کے بے آسرا لوگوں نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ ان کا ایک بیٹا سی ایس ایس کر جائے گا۔ اسے اکائونٹس کا شعبہ ملا۔ بیورو کریسی پر قابض لوگ ایسے نوجوانوں کو اس قابل بھی سمجھ لیں تو سمجھو کہ وہ بہت قابل ہے۔
مختلف دفاتر میں اس نے اپنی قابلیت کی دھاک بٹھا دی۔ اہل آدمی اہل دل بھی ہو تو کمال ہو جاتا ہے۔ اس نے شاعری کو ساتھ ساتھ رکھا۔ اچھے آدمی رفاقتیں نہیں بھولتے۔ وہ اے جی آفس میں تھا تو لکھنے پڑھنے والوں کا جمگھٹا اس کے آس پاس ہوتا مگر وہ کبھی دوسرے ضرورت مندوں کو نظرانداز نہ کرتا۔
ہمارا خیال تھا کہ وہ آڈیٹر جنرل بنے گا۔ وہ لاہور اے جی آفس کا انچارج ہو گا۔ اکائونٹنٹ جنرل۔ وہ ہر طرح مستحق تھا۔ قابل تھا۔ ماہر تھا۔ اور دل و دماغ والا تھا۔ وہ کچھ بھی نہ بن سکا۔ ہمارے محکموں میں وہ لوگ بیٹھے ہیں جن کے پاس نہ دل ہے نہ دماغ۔ نہ درد ہے نہ سوچ۔ اپنے محکمے میں وہ سینئر موسٹ آدمیوں میں سے ہے۔ اس نے کبھی کسی کی ٹانگ نہیں کھینچی۔ کسی کے خلاف سازش نہیں کی۔ کسی کا حق نہیں مارا۔ سینئر کی عزت کی۔ جونیئر کا لحاظ کیا۔ اور اپنے لوگوں میں مقبول ہے۔ پڑھنے لکھنے والوں کو بھی اپنا محکمہ سمجھتا ہے۔
میں نے کسی کی زبان سے اس کی شکایت نہیں سنی۔ کھرا سچا آدمی ہے۔ میں حیران ہوں کہ محکمہ اس کے کیوں خلاف ہے؟ محکمے کے اوپر کے چند لوگ اس کو پسند نہیں کرتے۔ ناپسندیدگی کی کوئی وجہ کبھی نہیں بتائی گئی۔ کچھ بھی محکمے میں محکمے کے سربراہ آڈیٹر جنرل کی مرضی کے خلاف نہیں ہوتا۔ اس کی مرضی کے بغیر بھی کچھ نہیں ہوتا۔ وہ اس گتھی کو سلجھائیں۔ وہ پچھلے نااہل وزیراعظم گیلانی کا لگایا ہوا پودا ہیں۔ وہ خود تو نکال دیے گئے اپنی باقیات کو چھوڑ گئے کہ وہ اچھے لوگوں کو نکال کے دم لیں۔ یہ وہ آڈیٹر جنرل ہیں کہ جن کا حلف لینے سے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے انکار کر دیا تھا۔ وہ یہاں جو کچھ کر رہے ہیں کیا وزیراعظم نواز شریف کے نوٹس میں ہے؟
کرامت بخاری کو صرف اس لئے تنگ کیا جا رہا ہے کہ وہ سچا آدمی ہے۔ محکمے کے ساتھ کمٹڈ ہے۔ رشوت نہ لیتا ہے نہ دیتا ہے۔ بتایا تو جائے کہ اس کا قصور کیا ہے۔ اس کی درخواست جناب وزیراعظم پاکستان نواز شریف کے نام اس کالم کا حصہ ہے۔ میری ان سے ذاتی طور پر استدعا ہے۔ وہ میرے لئے تھوڑا بہت لحاظ بھی رکھتے ہیں۔ ان سے گذارش ہے کہ محبت بھرے دل سے ایک بار یہ باتیں پڑھ لیں۔ ان میں ایک حرف بھی غلط نہیں۔ بے چارہ کرامت بخاری اتنا بیزار ہے کہ 20ویں گریڈ میں ہونے کے باوجود ملازمت چھوڑ کر جانے والا ہے۔ اس سے 19جونیئر آدمی 22گریڈ میںپہنچ گئے ہیں۔ اسے ایسی جگہ بھی محکمے میں نہیں ملتی جہاں وہ سکون سے اور محنت سے کچھ وقت گزار سکے۔
کرامت کے لئے محترم برادرم الطاف حسین قریشی‘ جبار مرزا‘ یوسف عالمگیرین اور مظہر برلاس‘ سرفراز سید نے کالم لکھے ہیں۔ جب کوئی کالم لکھا جاتا ہے ڈاکٹر کرامت بخاری کو نئی چارج شیٹ مل جاتی ہے۔ جس کا سچ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ایک سال میں اس کے سات ٹرانسفارمر کئے گئے ہیں۔ اعلیٰ عدالتوں نے اس کے حق میں فیصلے دیے ہیں۔ ان پر کوئی عملدرآمد نہیں ہوا۔ گیلانی بھی یہی کرتے رہے۔ ایک ٹی وی ٹاک میں شہباز شریف سے کہا گیا کہ آڈیٹر جنرل نے سستی روٹی اور میٹرو بس کے حوالے کرپشن کا ذکر آپ کے ذمے لگایا گیا ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ یہ آڈیٹر جنرل کس قدر کرپٹ ہے۔
اب کرامت بخاری کا مراسلہ ملاحظہ فرمائیے
بخدمت جناب عزت مآب صدر پاکستان صاحب‘ ایوان صدر اسلام آباد
یہ کہ سائل CSS کے 1982ء کے Batch سے تعلق رکھتا ہے اور محکمہ آڈٹ اینڈ اکائونٹس میں 31سال کی بے داغ نوکری کر چکا ہے۔ اس وقت سائل گریڈ 20میں ہے اور پچھلے 10ماہ سے OSD کے طور پر نوکری کر رہا ہے۔ یہ امر واقع ہے کہ میرے ساتھ کے افسر گریڈ 22 میں نوکری کر رہے ہیں جبکہ مجھے پچھلے پانچ سال سے بلاجواز ترقی نہیں دی جا رہی اور نہ ہی کوئی پوسٹنگ دی جا رہی ہے اور پچھلے ایک سال کے دوران سائل کو 7مرتبہ ٹرانسفر کر دیا گیا ہے۔
یہ کہ سائل ان بے انصافیوں کی وجہ سے مجبوراً عدالت گیا اور لاہور ہائی کورٹ ملتان بنچ نے سائل کے لئے ایک سیٹ مخصوص کرنے کا حکم دیا اور محکمہ کو ہدایت کی کہ سائل کا کیس میرٹ پر دیکھا جائے لیکن ان واضح ہدایات کے باوجود موجودہ آڈیٹر جنرل آفس نے نہ تو سائل کو ترقی دی اور نہ ہی اس کے لئے کوئی سیٹ مخصوص کی۔ سائل جناب کے علم میں یہ بات لانا چاہتا ہے کہ ان ناکردہ گناہوں کی سزا میں سائل کی تنخواہ 5 ماہ بند رکھی گئی جس کی وجہ سے سائل نے رمضان المبارک اور عبدالفطر بغیر تنخواہ کے گزاری۔ عدالتوں سے رجوع کرنے کی پاداش میں میرے خلاف بے بنیاد محکمانہ کارروائیوں کا آغاز کر دیا گیا اور سائل کو مختلف طریقوں سے ذہنی اذیتوں میں مبتلا کرنے سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے جو کہ ابھی تک جاری ہے۔
یہ کہ سائل نے کئی دفعہ محکمہ کو درخواست کی کہ اس کو میڈیکل کی بنیاد پر چھٹی دے دی جائے مگر تمام میڈیکل سرٹیفکیٹ حتیٰ کہ میڈیکل بورڈ کی سفارشات کو بھی نظرانداز کر دیا گیا۔
عدالتوں کے واضح احکامات کے باوجود اس سال پھر تیسری دفعہ ترقی روک دی گئی ہے۔ جناب عالی! آپ مملکت خداداد کے آئینی سربراہ ہیں اور اس بات کا اختیار رکھتے ہیں کہ آڈیٹر جنرل کو مناسب احکامات جاری کر سکیں۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ مجھے اس اذیت ناک صورت حال سے نجات دلائیں جس میں نہ عدالتوں کا حکم مانا جا رہا ہے اور نہ ہی انصاف کے تقاضے پورے کئے جا رہے ہیں۔ جناب عالی میرا کوئی قصور نہیں ہے۔ سائل 13 کتابوں کا مصنف ہے اور سائل کے تخلیقی کام پر مختلف یونیورسٹیوں میں ایم اے اور ایم فل کے Thesis ہو چکے ہیں۔ مجھ سے 12جونیئر افسر جن میں نیب زدہ افسر بھی شامل ہیں ان کو ترقی دے دی گئی ہے۔
سائل کرامت حسین بخاری‘ ڈائریکٹر جنرل آڈٹ 268-A, GOR-V فیصل ٹائون‘ لاہور فون نمبر برائے رابطہ 0345-4233652