غداری کیس: مشرف پیش‘ فرد جرم عائد‘ سابق صدر گرفتار ہیں نہ ہم نے روکا‘ ای سی ایل میں نام حکومت نے ڈالا: عدالت‘ بیرون ملک جانے کی درخواستیں نمٹا دیں
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ نوائے وقت رپورٹ+ ایجنسیاں) خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف پر سنگین غداری کے کیس میں فرد جرم عائد کر دی ہے۔ خصوصی عدالت میں جسٹس طاہرہ صفدر نے 5 نکات پر مشتمل فرد جرم پڑھ کر سنائی، پرویز مشرف نے صحت جرم سے انکار کردیا پراسیکیوشن نے واضح کیا ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف ملک سے غداری نہیں بلکہ دستور اور قانون شکنی کا مقدمہ ہے خصوصی عدالت کو پرویز مشرف کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دینے کا اختیار حاصل نہیں۔ نئے وکیل فروغ نسیم نے وکالت نامہ جمع کرانے کے بعد پیروی شروع کر دی۔ پرویز مشرف پر عائد کی گئی فردجرم میں کہا گیا ہے کہ پرویز مشرف نے بطور آرمی چیف 3 نومبر 2007 ء کو ایمرجنسی نافذ کی، بنیادی حقوق معطل کئے، غیرآئینی اور غیرقانونی طور پر پی سی او جاری کیا، آئین کو تہس نہس کر دیا، وہ سنگین غداری کے مرتکب ہوئے۔ غیر آئینی اور غیرقانونی طور پر آئین کو معطل کیا گیا، پرویز مشرف نے غیرآئینی اور غیرقانونی حکم جاری کیا۔ اس طرح آئین کو تہس نہس کر کے سنگین غداری کا ارتکاب کیا گیا، فرد جرم آرڈر کے تحت آئین میں 270 ٹرپل اے کو شامل کیا گیا، آرڈر کے تحت آرٹیکل 175، 186 اے، 198، 218،270 بی،270 سی میں ترمیم کی گئی 20 نومبر2007 ء کو بطور صدر غیرآئینی وغیرقانونی طور پر آئینی ترمیمی آرڈر جاری کیا، پی سی او کے تحت چیف جسٹس سمیت اعلیٰ عدلیہ کے کئی ججز کو برطرف کیا۔ مشرف نے بطور صدر ججوں کے حلف کا غیر آئینی اور غیر قانونی حکم جاری کیا۔ پرویز مشرف نے فرداً فرداً تمام الزامات کی صحت سے انکار کیا۔ پرویز مشرف پر جو الزامات عائد کئے گئے ہیں ان میں 3 نومبر کو ایمرجنسی نافذ کرکے آئین کو معطل کرنا، ججوں کو گرفتار کرنا ججوں کو پی سی او پر حلف اٹھانے پر مجبور کرنا، آئین میں ترمیم کرنا شامل ہیں۔ چارج شیٹ میں کہا گیا ہے کہ پرویز مشرف نے آئین کو تہس نہس کر دیا اور تین نومبر کی ایمرجنسی لگائی۔ عدالت نے فرد جرم میں کہا ہے کہ پرویز مشرف غداری کے مرتکب قرار پائے ہیں انہوں نے آئین توڑا ہے۔ پرویز مشرف نے فرد جرم پر دستخط کئے۔ جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں جسٹس سیدہ طاہرہ صفدر اور جسٹس یاور علی خان پر مشتمل تین رکنی خصوسی عدالت نے پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس کی سماعت نیشنل لائبریری میں کی۔ مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی تو نئے وکیل فروغ نسیم عدالت کے سامنے پیش ہوئے انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف نے گزشتہ رات ہی ان کی خدمات حاصل کی ہیں۔ وہ اس مقدمہ کی حقائق سے مکمل طور پر آگاہ نہیں اس لئے انہوں نے رجسٹرار کے پاس درخواست جمع کرائی ہے جس میں استدعا کی گئی ہے کہ انہیں کیس سے متعلق دستاویزات کی نقول فراہم کی جائیں متفرق درخواست میں پرویز مشرف کو ملک سے باہر جانے کی اجازت طلب کی گئی ہے کیونکہ ان کی والدہ بہت علیل ہیں اس لیے عدالت انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت دے۔ اس موقع پر انہوں نے اے ایف آئی سی کی طرف سے خفیہ رپورٹ بھی پیش کی رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد عدالت کا کہنا تھا کہ ہم نے پرویز مشرف کو حراست میں نہیں لیا وہ کہیں سے بھی علاج کرا سکتے ہیں۔ عدالت کی طرف سے کوئی پابندی نہیں۔ ایڈووکیٹ فروغ نسیم نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کسی بھی ملزم کو سول یا فوجداری مقدمہ میں اس کے بنیادی حقوق سے محروم نہیں رکھا جا سکتا لیکن حکومت اس کیس کی آڑ میں انہیں باہر جانے سے روک رہی ہے حکومت ان کے سفر پر پابندی لگانے کی مجاز نہیں کیونکہ پرویز مشرف کی والدہ صحت کی تشویشناک حالت میں ہیں۔ فروغ نسیم نے احادیث کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی والدہ کی تیمارداری کریں ہماری بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ ان کو سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ وہ والدہ کی خدمت کر سکیں۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ قانون بالکل واضح ہے پرویز مشرف پر فرد جرم آج ہی عائد کی جائے گی۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے بھٹو ٹرائل کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ کیس ہائی کورٹ میں سنا گیا اس کیس میں ہائی کورٹ میں ٹرائل کورٹ کے اختیارات استعمال کئے، پرویز مشرف رضاکارانہ طور پر عدالت آئے ہیں ان کے ریڈ وارنٹ جاری نہیں کئے گئے تھے وہ تین نومبر کے اقدامات کے قصور وار نہیں۔ ہماری طرف سے عدالت کے ساتھ کوئی بدتمیزی والی بات نہیں ہو گی جس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ کچھ وکیلوں کو جج اچھے نہیں لگتے ہم امید کرتے ہیں کہ جیسا رویہ پہلے رکھا گیا ایسا رویہ دیکھنے کو نہیں ملے گا۔ پہلے بھی عدالت کے ساتھ نازیبا رویہ ایک وکیل کا ذاتی فعل تھا۔ فروغ نسیم نے کہا کہ پرویز مشرف کو باہر جانے دیا جائے وہ واپس آ جائیں گے اور اس مقدمہ کا سامنا کریں گے۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ دیگر معاملات دیکھنے سے پہلے اس پر فرد جرم عائد کی جائے گی۔ اس کے بعد اگر آپ اپنے موقف میں کوئی تبدیلی کرنا چاہیں تو ریکارڈ میں درستگی کر سکتے ہیں۔ فروغ نسیم نے کہا کہ مجھے پراسیکیوٹر اکرم شیخ پر اعتماد ہے وہ مشرف کے بیرون ملک جانے پر اعتراض نہیں کریں گے۔ بینچ کے سربراہ نے جسٹس طاہرہ صفدر سے کہا کہ وہ فرد جرم پڑھیں انہوں نے فرد جرم کا پہلا نقطہ پڑھا تو پرویز مشرف نے کہا کہ I Did not did it جب دوسرا نقطہ بنیادی انسانی حقوق معطل کرنے کے بارے میں پڑھا گیا تو پرویز مشرف نے کہا کہ Not guilty تیسرا نقطہ پی سی او کے تحت ججوں کو حلف اٹھانے کا حکم دینے اور ججوں کو نظر بند کرنے کے حوالے سے پڑھا گیا تو پرویز مشرف نے کہا کہ Not guilty دیگر دو نکات آئین میں ترمیم کے حوالے سے پڑھے تو پرویز مشرف نے پھر کہا Not guilty۔ فرد جرم عائد ہونے کے بعد پرویز مشرف نے کہا کہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں تاہم عدالت نے انہیں کہا کہ پہلے وہ چارج شیٹ پر دستخط کریں پھر بعد میں موقع دیا جائے گا۔ پرویز مشرف نے اپنے وکیل کی موجودگی میں چارج شیٹ پر دستخط کیے تو عدالت نے انہیں بولنے کی اجازت دی۔ پرویز مشرف نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ وہ آئین کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں۔ مختلف عدالتوں میں 16 بار پیش ہو چکا ہوں کبھی عدالتوں کے سامنے پیش ہونے سے نہیں گھبرایا، میرے جانے کے بعد ملکی خزانہ لوٹا گیا،خزانہ لوٹنے والے بھی غدار ہیں۔ 9 سال تک فوج کے سپہ سالار رہا اور جوانی کے 44 سال فوج میں خدمات انجام دیں دو جنگیں لڑیں کیا یہ غداری ہے۔ پوچھنا چاہوں گا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا عدل اور انصاف کہاں ہے؟ پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ وہ قانو ن کی حکمرانی پر پختہ یقین رکھتے ہیں وہ عدالتوں کے سامنے پیش ہونے سے کبھی بھی نہیں گھبراتے وہ 16 مرتبہ مختلف عدالتوں کے سامنے پیش ہو چکے ہیں جو کراچی، راولپنڈی اور اسلام آباد کی حدود میں ہیں۔ عدالت میں پیش نہ ہونا انا کا مسئلہ نہیں ہے۔ صرف دو وجوہات تھیں جن کی بناء پر میں عدالت نہیں آ سکا۔ ایک تو سکیورٹی کا ایشو تھا اور میں اپنے تحفظ سے زیادہ اپنے گرد رہنے والے لوگوں کی زندگی کے بارے میں زیادہ سوچتا ہوں۔ دوسرا صحت کا مسئلہ تھا اس حوالے سے اے ایف آئی سی کی رپورٹیں عدالت میں جمع کرائی گیئں میںچاہتا تھا کہ عدالت کے سامنے پیش ہوں لیکن ڈاکٹرز نے اجازت نہ دی آج بھی اپنے رسک پر عدالت پیش ہوا ہوں۔ پرویز مشرف نے عدالت سے اجازت چاہی کہ وہ اردو میں بات کرنا چاہتے ہیں عدالت نے کہا کہ یہ ہماری قومی زبان ہے آپ بات کر سکتے ہیں۔ پرویز مشرف نے کہا کہ عدالت کے سامنے کس طرح بات کرنی ہے اس کے بارے میں زیادہ تو نہیں جانتا آج جو فرد جرم پڑھی گئی اس میں مجھے اس ملک کے ساتھ غداری کا مرتکب ٹھہرایا گیا ہے، 9 سال فوج کا سپہ سالار رہا، 44 سال ملک کی فوج کی خدمت کی کیا یہ غداری میں آتا ہے دو جنگیں لڑیں جن میں خون اور جان دینے کے لیے تیار تھا کیا یہ غداری کے ضمن میں آتا ہے۔ فوجی جوانوں کے ساتھ کرگل کے پہاڑوں میں دن گزارے، اس بہادری کی ستائش دشمن ملک کے جرنیل بھی کرتے ہیں کیا اسے غداری کہتے ہیں۔ مشرف نے کہا کہ ان کے دور میں ملک میں کافی ترقی ہوئی ہے اور انہوں نے ملک کا قرضہ کم کیا اور لوگوں کو خوشحال کیا کیا یہ سنگین غداری میں آتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ وہ دو مرتبہ خصوصی عدالت کے سامنے پیش ہو چکے ہیں، وہ ڈاکٹروں کی مرضی کے خلاف عدالت آئے ہیں ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹروں نے ان سے کہا ہے کہ وہ اپنے رسک پر ہسپتال سے روانہ ہو سکتے ہیں اور اس مقصد کے لئے ایک سرٹیفکیٹ بھی سائن کروایا ہے اس میں لکھا گیا ہے کہ پرویز مشرف اپنے رسک پر ہسپتال سے عدالت کے لئے روانہ ہو رہے ہیں، پرویز مشرف نے کہاکہ جو چارج شیٹ پڑھی گئی ہے اس میں ٹریژن کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو کچھ بہتر لگتا ہے اردو میں جب اس کا ترجمہ کیا جائے تو اس کا ترجمہ غداری آتا ہے ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے 44 سال افواج میں سروس کر کے ملک کی خدمت کی اپنی جوانی فوج کو دی کیا یہی غداری ہے۔ مشرف کا کہنا تھا کہ انہوں نے دو جنگیں لڑیں، ملک کے خون دیئے، جان دینے کے لئے بھی تیار رہے کیا یہ غداری کے زمرے میں آتا ہے، پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ انہیں 1965ء میں ایوارڈ ملا ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے سیاچن اور کرگل کے پہاڑوں پر رات دن گزارے جس کی تعریف بھارتی جرنیل بھی کرتے ہیں تو کیا اسے غداری کہتے ہیں پاکستان کو 1999ء میں ناکام ریاست قرار دیا جانے لگا تھا اس موقع پر انہوں نے ملک میں ترقی کی نئی لہر ڈالی اور لوگوں کو خوشحالی دی اور پاکستان کی عزت دنیا میں بحال کی ان کا کہنا تھا کہ اتنے برسوں میں جو کچھ ہوا اس میں انہوں نے ملک کی خدمت کی ان کا کہنا تھا کہ ان کے جانے کے بعد ملک کو لوٹا گیا ہے اور قومی خزانہ کو لوٹنے والوں سے بھی پوچھ گچھ ہونی چاہئے۔ پرویز مشرف نے کہا کہ قومی خزانہ لوٹنے والے بھی غدار ہیں ۔ مشرف نے کہا کہ انہوں نے جو بھی کیا وہ ملک کے لئے کیا ان کا کہنا تھا کہ ان کا جو نعرہ تھا کہ سب سے پہلے پاکستان اس کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ محب وطن ہیں اور پاکستاں سے غداری کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ مشرف نے کہا کہ میں ملک کو ترقی کے اس مقام پر لے کر آیا کہ پاکستانی سینہ تان کر چل سکتے تھے کیا اس کو غداری کہتے ہیں۔ کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں کیا ملک کے ساتھ وفاداری دکھانے کا یہ صلہ ملتا ہے اگر ایسا نہیں تو غداری کیا ہے؟ میری نظر میں غدار وہ شخص ہے جو ملک کے خفیہ راز دشمن کو بیچے یا دے دے ،غدار وہ شخص ہے جو دشمن کے سامنے ہتھیار ڈال دے میں سپیشل سروسز گروپ سے ہوں جس نے ہمیشہ غازی یا شہید ہونے کو ترجیح دی ہے، ہتھیار ڈالنے کی بجائے میں موت کو ترجیح دیتا ہوں۔ غدار وہ شخص ہے جو ملک و قوم کو لوٹے قومی خزانے کو خالی کرے اور ذاتی خزانہ بھرے۔ عوام کو بد حالی اور ملک کو پسماندگی تباہ اور بربادی کی طرف لے جائے وہ شخص غدار ہے جو ملک کا خون چوسے اور بھرے ہوئے خزانے خالی کرے۔ میں عدالت کے سامنے اﷲ کو حاضروناظر جانتے ہوئے اپنی ماں اور بچوں کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھ پر اس ملک کا ایک پیسہ حرام ہے رشوت لی اور نہ کسی کو یہ جرأت ہوئی کہ مجھے ایک پیسہ کی آفر بھی کر سکے۔ میں ان لوگوں سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ جنہوں نے 2008ء کے بعد حکومت کی۔ 2008ء میں ہم نے 17 ارب ڈالر ملکی خزانے میں چھوڑے جن میں سے 13 ارب ڈالر پاکستان کے اپنے تھے اس وقت صرف 3 ارب ڈالر قومی سٹیٹ بینک کے پاس موجود ہیں۔ صرف گزشتہ سال پانچ سے چھ ارب ڈالر ملک سے باہر چلے گئے میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ یہ پیسے کہاں گئے ، ملک کے ساتھ کیا کیا گیا ، پہلے بھی اسمبلیوں میں صادق اور امین بیٹھے ہوئے تھے اب بھی بیٹھے ہیں صرف میں اکیلا یہاں کیوں کھڑا ہوں ،کہاں ہے اسلامی جمہوری پاکستان کا انصاف آپ عدل و انصاف کے محافظ ہیں لیکن یہ بات واضح رہے کہ میں نے اس ملک کو دیا ہے لیا کچھ نہیں۔ پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ قومی خزانے کو تین سو ملین ڈالر سے 17ارب ڈالر تک لے کر گئے اور ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ قرضہ کم کر کے 40 ارب سے 37 ارب کیا اگر اس وقت یہ اقدامات نہ کئے جاتے تو اب تک قرضے 100 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکے ہوتے۔ ہم نے ڈالر کو 60 روپے تک محدود رکھا ملک کے ہر شعبے کو ترقی اور عوام کو خوشحالی دی جو کہ مجھ سمیت تمام حکومتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ عوام کیا مانگ رہے ہیں۔ غربت دور کرو، آمدن میں اضافہ کرو، تعلیم و صحت کی سہولیات فراہم کرو اور اشیاء خوردونوش کی قیمتیں کم کرو۔ میں ورلڈ بینک کے اعداد و شمار بتا رہا ہوں یہ میرے اعداد وشمار نہیں، ہمیں اندرون و بیرون سطح پر خطرات لاحق ہیں ہمارے دور حکومت میں دفاع کو مضبوط کیا گیا الخالد ٹینک، جے ایف 17تھنڈر طیارے، کمانڈ اینڈ کنٹرول مضبوط کیا ایک ایک میزائل کی ٹیسٹنگ کی گئی یہ ساری ترقی ہمارے 8 سالہ دور کے اندر ہوئی جب ایٹمی دھماکے کئے گئے تب دو غوری میزائل ٹیسٹ ہوئے تھے اور میں جانتا ہوں کہ کیا حالت تھی، ہمارے دور میں تمام عدالتی تقرریاں میرٹ پر کی گئیں۔ سماجی اقتصادی ترقی کے حوالے سے اگر موازنہ کیا جائے تو ہمارے آٹھ سال کے دوران ترقی بھاری ہے انہوں نے بلوچستان کی خاتون جج طاہرہ صفدر کے حوالے سے کہا کہ فاضل جج بلوچستان سے آئی ہیں وہ بہتر جانتی ہیں کہ آٹھ سال میں بلوچستان کو اتنی ترقی دی گئی جتنی گزشتہ ساٹھ سال میں بھی نہیں دی گئی۔ گوادر پورٹ کو مکمل کیا گیا، کئی شاہراہیں مکمل کر کے صوبے کو سندھ اور پنجاب کے ساتھ ملایا گیا۔ میران ڈیم، سبکزئی ڈیم، کھچی کینال نکال کر بلوچستان کی 71 ہزار ایکڑ سے زائد اراضی کو سیراب کیا گیا۔ بلوچستان میں 9 یونیورسٹیاں قائم کی گئیں پھر بھی میرا ٹرائل ہو رہا ہے میرا قصور یہ ہے کہ ملک کو طاقت دی، ترقی دی اور عوام کو خوشحالی دی، میری نظر میں وہ شخص بھی غدار ہے جو معاشرتی اقتصادی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے۔ ایسی صورتحال 2007ء میں پیدا ہو گئی ہم آسمان کی طرف جاتے جاتے زمین پر آ گرے، ایسی صورتحال میں جو بھی اقدامات کیے گئے وہ وزیر اعظم اور دیگر تمام فریقین کی مشاورت سے کئے گئے اس میں کوئی آئین کی خلاف ورزی نہیں کی گئی اور نہ ہی میں نے کوئی غداری کی ہے۔ دوران سماعت عدالت کے ججز نے پرویز مشرف کو بات کرنے سے نہیں روکا اور وہ اپنی بات مکمل کرنے کے بعد عدالت میں اپنی سیٹ پر بیٹھ گئے جس کے بعد اکرم شیخ نے عدالت کے روبرو کھڑے ہوکر کہاکہ آج اس مقدمہ میں ایک غلط فہمی دور ہو گئی کہ پرویز مشرف نے موقف اختیار کیا ہے کہ انہوں نے جو بھی اقدامات کئے وہ کابینہ اور حکومت کی مشاورت سے کئے ہیں تاہم یہ بات واضح کرتا چلوں یہ وطن سے غداری کا مقدمہ نہیں، کوئی آدمی یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ پرویز مشرف نے رشوت لی اگر کوئی اس کیس کی غلط تشریح کرتا ہے تو وہ درست نہیں پراسیکیوشن کی طرف سے پرویز مشرف کی ملک سے وفاداری پر کوئی انگلی نہیں اٹھائی گئی لیکن پرویز مشرف نے فوج کا عہدہ سنبھالتے ہوئے یہ حلف لیا تھا کہ وہ افواج پاکستان کا حصہ ہونے کے باعث سیاست میں حصہ نہیں لیں گے۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ عدالت کے سامنے یہ کیس نہیں ہے۔ اکرم شیخ نے کہا کہ اس نقطے کا کیس سے تعلق بنتا ہے یہ دستور اور قانون شکنی کا مقدمہ ہے غداری کا نہیں۔ اکرم شیخ نے پرویزمشرف کے وکیل فروغ نسیم اور پرویز مشرف کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے عدالت کے ماحول کو سازگار بنایا ہے انہوں نے کہا کہ یہ عدالت پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم نہیں دے سکتی کیونکہ اس عدالت کی طرف سے کوئی ایسا حکم جاری نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے پرویز مشرف کے باہر جانے میں کوئی قانونی رکاوٹ ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ماں کا احترام سب کو کرنا چاہیے۔ مائیں سب کی محترم ہوتیں ہیں۔ سپریم کورٹ کے ایک حکم میں ملزم کے باہر جانے کے حوالے سے کہا گیا ہے اور یہ عدالت انہیں باہر جانے کی اجازت نہیں دے سکتی کیونکہ خصوصی عدالت کے پاس کسی بھی عدالت کے حکم پر نظر ثانی کا اختیار نہیں ہے۔ اس موقع پر بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ جس حکم کا حوالہ اکرم شیخ دے رہے ہیں حتمی حکم میں سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کے بیرون ملک جانے پر کوئی پابندی عائد نہیں کی نہ یہ کہا گیا کہ ان کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے۔ فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ یہ عدالت اگر کسی حکم میں سقم رہ جائے تو اس کو درست کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ فروغ نسیم نے کہا کہ چونکہ انہوں نے کیس کے ریکارڈ کا جائزہ لینا ہے اس لئے انہیں چار ہفتہ کی مہلت دی جائے تاہم عدالت نے استدعا منظور نہ کی، عدالت نے مشرف کو آئندہ دو سماعتوں تک حاضری سے استثنیٰ دیتے ہوئے سماعت 15اپریل تک ملتوی کردی۔ سماعت کے بعد پرویز مشرف اے ایف آئی سی کے لئے سخت سکیورٹی حصار میں چلے گئے۔ یاد رہے کہ عدالت اسلام آباد کے ریڈ زون میں واقع نیشنل لائبریری میں قائم کی گئی تھی جس کے اطراف سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کئے گئے تھے، ہسپتال سے عدالت تک تقریباً دو ہزار سے زائد پولیس اہلکار تعینات کئے گئے تھے۔ خصوصی عدالت کے احکامات کی تعمیل کے لئے پولیس کی خصوصی ٹیم آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پہنچی۔ عدالت کے اطراف رینجرز کی بھاری نفری سکیورٹی فرائض انجام دے رہی تھی۔ ریڈ زون میں غیرمتعلقہ افراد کے داخلے پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ ریڈ زون میں غیرمتعلقہ افراد کے داخلے پر پابندی عائد کردی گئی۔ ہیلی کاپٹروں سے فضائی نگرانی کی گئی۔
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+ ایجنسیاں) خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کی بیرون ملک جانے کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ ''حکومت چاہے تو وہ پرویز مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دے سکتی ہے''۔ پرویز مشرف کو بیرون ملک جانے سے عدالت نے نہیں روکا۔ پرویز مشرف ''گرفتار'' نہیں بلکہ ''آزاد'' ہیں۔ ملزم گرفتار نہ ہو تو اسے بیرون ملک سفر سے نہیں روکا جا سکتا۔ پراسیکیوٹر اکرم شیخ نے پرویز مشرف کی طرف سے ای سی ایل سے نام نکالنے کی درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ خصوصی عدالت کا دائرہ اختیار نہیں کہ ای سی ایل سے نام نکالنے کا حکم دیا جائے۔ خصوصی عدالت نے مشرف کی بیرون ملک جانے کی درخواست نمٹا دی۔ خصوصی عدالت کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت نے سابق صدر پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں ڈالا تھا۔ ای سی ایل سے نام خارج کرنے کا کام عدالت کا نہیں بلکہ حکومت کا ہے۔ فیصلے کے مطابق پرویز مشرف کو عدالت میں حاضری سے استثنیٰ بھی دے دیا گیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ ملزم عدالت کی تحویل میں ہیں نہ عدالت نے ان کا نام ای سی ایل میں شامل کیا وہ چاہیں تو اس کے لئے آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت وزارت داخلہ اور ہائیکورٹ سے رجوع کر سکتے ہیں۔ پرویز مشرف کی طرف سے ان کے وکیل نے دو درخواستیں دی تھیں ایک درخواست میں کہا گیا تھا کہ پرویز مشرف اپنی والدہ کی تیمارداری کیلئے جانا چاہتے ہیں۔ دوسری درخواست میں کہا گیا تھا کہ پرویز مشرف کو دل کا عارضہ ہے انہیں ملک میں ڈاکٹروں پر اعتبار نہیں لہٰذا وہ علاج کیلئے امریکہ جانا چاہتے ہیں۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے استدعا کی تھی کہ درخواستوں پر فیصلہ آج ہی سنا دیا جائے، جسے جسٹس فیصل عرب نے قبول کر لیا تھا۔ عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ خود عدالت نے پرویز مشرف کو ای سی ایل میں نہیں ڈالا، ای سی ایل میں وفاقی حکومت نے ان کا نام ڈالا، ای سی ایل سے نام خارج کرنا عدالت کا کام نہیں، وفاقی حکومت ہی ان کا نام ای سی ایل سے نکال سکتی ہے۔ ای سی ایل سے نام خارج کرنا ہمارا دائرہ اختیار نہیں ملزم متعلقہ فورم سے رجوع کرے۔ ملزم پرویز مشرف زیر حراست نہیں وہ اپنی مرضی سے علاج کرا رہے ہیں۔ سنگین غداری کیس کی سماعت کے دور ان جسٹس فیصل عرب نے سابق صدر پرویز مشرف کے وکیل فروغ نسیم سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ قانونی تقاضا ہے کہ فرد جْرم عائد کرتے وقت ملزم کو اپنی نشست سے کھڑا ہونا پڑتا ہے اس لیے وہ پرویز مشرف سے کہیں کہ وہ کھڑے ہو جائیں۔ پرویز مشرف کے وکیل فروغ نسیم نے اپنے طور پر بہت کوشش کی کہ ان کے موکل پر فرد جْرم عائد نہ ہو تاہم جب عدالت نے اسے تسلیم نہ کیا تو پھر سابق صدر کے وکیل نے موقف پیش کیا کہ بیشک عدالت اْن کے موکل پر فرد جْرم عائد کر دے لیکن چونکہ پرویز مشرف کی والدہ بیمار ہیں اسے لیے اْن کی تیمار داری کے لئے اْنہیں باہر جانے دیں۔ خصوصی عدالت جب پرویز مشرف پر اس مقدمے میں فرد جْرم عائد کرنے لگی تو عدالت نے براہِ راست پرویز مشرف سے نہیں کہا کہ وہ سیٹ پر کھڑے ہو جائیں بلکہ جسٹس فیصل عرب نے ملزم کے وکیل سے کہا کہ چونکہ قانونی تقاضا ہے کہ فرد جْرم عائد کرتے وقت ملزم کو اپنی نشست سے کھڑا ہونا پڑتا ہے اس لئے وہ پرویز مشرف سے کہیں کہ وہ کھڑے ہو جائیں۔ مشرف اپنی نشست پر کھڑے ہوگئے جس کے بعد بینچ میں موجود جج جسٹس طاہرہ صفدر نے فرد جْرم پڑھ کر سْنائی عدالت نے پرویز مشرف سے اس فرد جْرم پر اْن کے دستخط بھی لئے اور اْنہیں اپنے دفاع میں بولنے کی اجازت دے دی۔ چیف پراسیکیوٹر اکرم شیخ نے کہا کہ اْنہیں پرویز مشرف کی وفاداری پر کوئی شک نہیں۔ اْنہوں نے کہاکہ استغاثہ کی طرف سے پرویز مشرف سابق آرمی چیف بھی رہے ہیں، انہیں کبھی غدار نہیں کہا گیا بلکہ ملز م کے وکلا اس کو غداری کا مقدمہ کہہ رہے ہیں۔ اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ عدالت کے سامنے غداری نہیں بلکہ آئین شکنی کا مقدمہ ہے۔ آئی این پی کے مطابق خصوصی عدالت کئی ماہ کی کوششوں کے بعد مشرف کیخلاف 3 نومبر کی ایمرجنسی کے نفاذ، آئین معطل کرنے کے اقدامات پر ان کے خلاف فرد جرم عائد کرنے میں کامیاب رہی۔ گرفتاری کے دو ٹوک احکامات نے مشرف کو پیش ہونے پر مجبور کیا۔