قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی نے تحفظ پاکستان ترمیمی بل منظور کر لیا‘ سینٹ کمیٹی کا انسداد دہشت گردی ترمیمی بل کی منظوری سے انکار
اسلام آباد (خبر نگار خصوصی+ ایجنسیاں+ نوائے وقت رپورٹ) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی داخلہ نے تحفظ پاکستان آرڈیننس کثرت رائے سے منظور کر لیا ہے جبکہ سینٹ کمیٹی داخلہ نے انسداد دہشت گردی ترمیمی بل کی منظوری دینے سے انکار کر دیا ہے۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں تحفظ پاکستان ترمیمی بل 2014ء کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا، مسلم لیگ ن کے ارکان نے بل کی حمایت کی جبکہ پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم، تحریک انصاف اور جے یو آئی (ف) نے مخالفت کی۔ ایم کیو ایم کی جانب سے پیش کی گئی پانچ ترامیم کو مسترد کر دیا گیا۔ اپوزیشن ارکان کا کہنا تھا کہ پہلے سے گرفتار لوگوں پر بل کا اطلاق غیر منصفانہ ہو گا، کسی بھی عدالت سے مقدمہ خصوصی عدالت منتقل کرنے پر اعتراض ہے، کسی شخص کی شہریت کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ حکام وزارت داخلہ کا کہنا تھا کہ پیدائشی شہری کی شہریت ختم نہیں کی جائے گی، جس شخص کو حکومت شہریت دے گی اس شخص کی شہریت واپس لی جا سکے گی۔ اجلاس میں تہمینہ دولتانہ اور ایم کیو ایم کے ارکان میں جھڑپ ہوئی، جے یو آئی (ف) کے ارکان نے کہا کہ جب تک وزیراعظم اس بل کے حوالے سے مولانا فضل الرحمن کو اعتماد میں نہیں لینگے ہم اس کی مخالفت جاری رکھیں گے، تحریک انصاف نے فوج کو شہریوں کو گرفتار کرنے کا اختیار دینے، ایک عدالت میں جاری کیس کو بند کرکے خصوصی عدالت میں منتقل کرنے سمیت دیگر شقوں پر اختلاف کیا ہے جبکہ وزیر مملکت برائے داخلہ بلیغ الرحمان نے کہا کہ آئین میں ہر شہری کو مکمل تحفظ دیا گیا ہے، یہ بل دہشتگردوں کیخلاف کارروائی کیلئے لایا جا رہا ہے، ہر شہری کو آرٹیکل 10 کے تحت تحفظ حاصل ہے آئین میں اگر خفیہ اداروں کی جانب سے کسی کو اٹھانا ہو تو مکمل طریقہ کار دیا گیا ہے کوئی بھی قانون سازی آئین کیخلاف نہیں ہوگی، خدشات بے بنیاد ہیں ہر شہری کو مکمل تحفظ دیا جائے گا۔ تہمینہ دولتانہ اور ایم کیو ایم کے ارکان میں شدید جھڑپ ہوئی مسلم لیگ (ن) کی تہمینہ دولتانہ نے کہا کہ جب بھی تحفظ پاکستان بل لایا جاتا ہے تو ایم کیو ایم فوری اس کی مخالفت کیوں شروع کردیتی ہے جس پر ایم کیو ایم کے ارکان نے کہا کہ جب بھی ایسا کالا قانون لایا گیا ہے وہ ایم کیو ایم کے خلاف ہی استعمال کیا جاتا ہے اس بل میں شہریوں کو تحفظ دینے کی بجائے سکیورٹی اداروں کو یہ رعایت دی جارہی ہے کہ وہ جب چاہیں عام شہری کو غائب کر دیں۔ ادھر سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے انسداد دہشت گردی ترمیمی بل کی منظوری دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی ایسے قانون کی اجازت نہیں دے سکتے جس سے شہریوں کے بنیادی حقوق پامال ہوں، بل کی منظوری اس وقت تک نہیں دی جا سکتی جب تک اس کو سمجھیں گے نہیں، انسداد دہشت گردی ترمیمی بل کا ماضی کے قوانین سے تقابلی جائزہ کرتے ہوئے بریفنگ دی جائے، کمیٹی نے بجلی چوری کی روک تھام کے لئے ترمیمی بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ بجلی چوری میں واپڈا اہلکار ملوث ہیں، قوانین سخت کرنے کی بجائے بجلی چوروں کی روک تھام کا میکانزم بنایا جائے، وزارت داخلہ کی طرف سے کمیٹی کو بتایا کہ گزشتہ دو سالوں کے دوران بجلی چوری کے 23 ہزار مقدمات درج کئے گئے اور صرف 3 ملزمان کو عدالتو ں سے سزائیں ہوئیں، 15 ارب یونٹس کا نقصان ہوا، 19 ارب روپے کا خسارہ ہوا، انسداد دہشت گردی ترمیمی بل کا مقصد ججز اور گواہوں کو تحفظ فراہم کرنا اور پراسیکیوشن کے نظام کو مضبوط کرنا ہے، وزیر مملکت بلیغ الرحمن نے کہا کہ انسداد دہشت گردی کے قوانین سیاسی انتقام کے طور پر استعمال کئے جائیں گے نہ سکیورٹی فورسز کو ماورائے عدالت قتل کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ کمیٹی کے چئیرمین سینیٹر طلحہ محمود نے کہا کہ وزیر داخلہ چودھری نثار انا پرستی کے ذریعے پارلیمنٹ کو نیچا دکھانا چاہتے ہیں جبکہ سیکرٹری داخلہ کمیٹی کے ایک اجلاس میں بھی شریک نہیں ہوا، وزارت داخلہ کمیٹی کو ڈکٹیشن دینے کی کوشش نہ کرے۔ انہوں نے وزیر داخلہ اور سیکرٹری داخلہ کی عدم شرکت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزیر داخلہ سیف سٹی منصوبے میں ہونے والی اربوں روپے کی کرپشن پر پر دہ ڈالنا چاہتے ہیں۔ یہ یاد رکھنا ہو گا کہ وہ ساری زندگی وزیر داخلہ نہیں رہینگے۔ وزیر مملکت بلیغ الرحمن نے کہا کہ جب تک سزائوں کو یقینی نہیں بنایا جاتا اس وقت تک بجلی چوری کی روک تھام مشکل ہے، بجلی چوری میں ملوث سرکاری اہلکاروںکے خلاف کارروائی کی گئی ہے، سینیٹر سردار علی خان نے کہا کہ پشاور کے گرد و نواح میں بڑے پیمانے پر بجلی چوری ہو رہی ہے، کوئی بجلی کا بل نہیں دیتا، کمیٹی کے چیئرمین نے بجلی چوری کی روک تھام سے متعلق بل پر سینیٹر سردار علی خان کی سربراہی میں سب کمیٹی بنا دی۔