پٹرول کی قیمت میں معمولی کمی‘ وزیراعظم کی صوبوں کو مہنگائی کنٹرول کرنے کی ہدایت‘ دالوں کی قیمت میں ہوشربا اضافہ …… حکومت دال روٹی تو غریب عوام کی دسترس میں رہنے دے
وزیر اعظم نواز شریف نے چاروں وزرائے اعلیٰ کو ہدایت کی ہے کہ وہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی منتقلی عوام تک یقینی بنانے پر ذاتی توجہ دیں۔ اس کمی کا فائدہ عوام کو ہونا چاہئے۔ ڈالر کی قیمت میں کمی کے فائدے کو عوام تک منتقل کرنا ضروری ہے۔ وزراء اعلیٰ کے نام خط میں مزید کہا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی پاکستانی روپے کے استحکام کی وجہ سے ہے اور برآمدی قیمتوں کے حوالے سے ڈالر کی قیمت پانچ فیصد کم ہو گئی ہے اس لئے یہ وقت ہے کہ برآمدات کی قیمتوں میں کمی اور ٹرانسپورٹیشن کی مد میں کمی کا فائدہ عوام تک منتقل کیا جائے۔ ڈالر کی قدر میں کمی سے درآمدات سستی ہوئیں۔ پاکستانی عوام ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کمی چاہتے ہیں۔ کرایوں میں کمی بھی یقینی بنائی جائے امید ہے کہ نقل و حرکت کے کم اخراجات کے باعث ضروری اشیاء کی قیمتوں میں کمی آئیگی۔
جمہور کی منتخب کردہ حکومت جمہور کی زندگی آسان بنانے کیلئے کام کرتی ہے‘ اسی کو جمہوریت کہا جاتا ہے۔ مشرف کی آمریت کی کوکھ سے نیم جمہوری حکومت نے جنم لیا‘ اسکے بعد پیپلزپارٹی کی صورت میں مکمل جمہوری حکومت وجود میں آئی‘ اس نے عوام کا عرصہ حیات تنگ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اربوں کھربوں کی کرپشن کے سکینڈل سامنے آئے‘ رشوت کے ریٹ بڑھ گئے‘ ڈالر 62 سے سو روپے تک جا پہنچا‘ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں پیشروئوں کے مقابلے میں دگنا کے قریب اضافہ ہوا۔ ریلوے‘ پی آئی اے‘ سٹیل ملز جیسے ادارے دیوالیہ کی حدود کو چھونے لگے‘ گڈگورننس محض کاغذوں میں نظر آتی تھی‘ دہشت گردی‘ لاقانونیت اور فرقہ واریت اس پر مستزاد تھی۔ ان حالات میں عام انتخابات ہوئے تو فطری طور پر وہی نتیجہ آنا تھا جو آیا۔ عوام نے پیپلزپارٹی کو اسکی عوام کش پالیسیوں کے باعث مسترد کرکے مجموعی طور پر مسلم لیگ (ن) پر اعتماد کا اظہار کیا‘ تحریک انصاف نوازلیگ کے مینڈیٹ کو جعلی قرار دیتی ہے۔ اسے جتنی سیٹوں پر تحفظات ہیں‘ وہ نوازلیگ کی مجموعی نشستوں سے منفی کردی جائیں تو بھی نوازلیگ کو گو کہ پاپڑ بیلنا پڑتے مگر وہ سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کے باعث حکومت بنالیتی۔ عوام کو مسلم لیگ (ن) کی حکومت سے بڑی توقعات تھیں لیکن وہ اس پر پورا نہیں اتر سکی۔ پیپلزپارٹی کی حکومت نے مہنگائی کی جو آگ لگائی تھی‘ (ن) لیگ حکومت نے اس کو مزید ہوا دے دی۔ خزانہ خالی ہونے کا واویلا کرکے حکومت میں آنے کے دوچار روز بعد بجٹ میں مہنگائی کا طوفان اٹھا دیا۔
پیپلزپارٹی کی حکومت نے بیڈ گورننس کے معاملات جہاں چھوڑے تھے‘ اسکی جاں نشیں حکومت نے وہیں سے آگے بڑھائے۔ سب سے زیادہ ستم بجلی کی قیمتیں پانچ سے 18 روپے فی یونٹ تک پہنچا دی گئیں جبکہ بجلی کی کمی کی شدت پر خاطرخواہ قابو بھی نہیں پایا گیا۔اب بھارت سے پانچ سو میگاواٹ بجلی امپورٹ کی جا رہی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں سات آٹھ روپے لٹر کا اضافہ کیا جاتا رہا اور کمی محض پیسوں میں اور کبھی کبھار روپے سوا روپے کی گئی۔ مہنگائی‘ بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ کیخلاف لوگ سڑکوں پر آئے‘ خواتین کو جھولیاں اٹھا کر حکمرانوں کو بددعائیں اور کوسنے دیتے بھی دیکھا گیا۔
سعودی عرب کی طرف سے پاکستان کو ڈیڑھ ارب ڈالر کا تحفہ ملا‘ جس سے ڈالر کی قیمت 110 روپے سے 98 روپے پر آگئی۔ شیخ رشید نے چیلنج کیا تھا کہ ڈالر بقول وزیر خزانہ اسحاق ڈار 98 روپے پر آجائے تو وہ سیاست چھوڑ دینگے‘ وزیر خزانہ نے ڈالر کی قیمت 98 روپے تک گرائی تو یہ بھی کہا کہ انکے سامنے شیخ رشید کا چیلنج بھی تھا۔ بدقسمتی سے ڈالر کی قیمت گرنے کے ثمرات جس طرح عوام تک پہنچنے چاہئیں تھے‘ اس طرح نہیں پہنچے۔ وزیراعظم میاں نوازشریف تیل کی قیمتوں میں کمی کی منتقلی عوام تک یقینی بنانے کی وزرائے اعلیٰ کو ہدایت کی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ڈالر کی قیمت میں کمی کے تناسب سے کم نہیں کی گئیں۔ ڈالر کی قیمت میں دس سے بارہ روپے کمی ہوئی۔ ڈالر اور پٹرول کی قیمت تقریباً برابر تھی۔ اسکے فی لٹر نرخ میں بھی اسی شرح سے کمی کی جانی چاہیے تھی۔ مگر پٹرول کی قیمت میں محض ایک روپے 72 پیسے کمی کی گئی ہے‘ اسے عوام کے ساتھ مذاق ہی قرار دیا جائیگا۔ البتہ لائٹ ڈیزل کی قیمت میں پانچ روپے 16 پیسے کمی سے پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کمی آسکتی ہے۔ ایل پی جی کی قیمت میں 10 روپے کمی سے گھریلو صارفین نے سکھ کا سانس لیا ہو گا۔ وزیراعظم نے صوبوں کو بجا ہدایت کی ہے کہ وہ ڈالر اور پٹرولیم مصنوعات میں کمی کو عوام تک منتقل کریں۔ مرکز کو بھی اس حوالے سے اپنی ذمہ داری پوری کرنا چاہیے۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اسی تناسب سے کمی کی جائے۔ پی آئی اے کے کرائے خصوصی طور پر حج فلائٹس کے کرایوں میں کمی کی جائے۔
ذخیرہ اندوز اور منافع خور اپنے آپ کو قواعد و ضوابط کا پابند نہیں سمجھتے۔ انکی من مانیاں حکومتی کمزوری کی غماز ہیں۔ 27 نومبر 2013 کو ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈراپ) نے ایک اعلامیہ جاری کرتے ہوئے جان بچانے والی ادویہ کے علاوہ دیگر دوائوں کی قیمتوں میں 15 فیصد تک اضافہ کردیا تھا۔ وزیر اعظم نے نوٹس لیتے ہوئے ڈراپ کو اعلامیہ واپس لینے کی ہدایت کی‘ اعلامیہ تو یقیناً واپس ہو گیا ہوگا لیکن منافع خور منہ کو لگا عوامی خون چھوڑنے پر تیار نہیں ہوئے۔ وہ اضافی قیمتیں وصول کرتے رہے جس پر وزیراعظم کو ایکشن لینا پڑا۔ وزیراعظم نے نوٹس لیتے ہوئے وزیر مملکت سائرہ افضل تارڑ کو معاملے کی تحقیقات اور اس پر ایک ہفتے میں رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔وزیر صاحبہ نے روایتی انداز میں دواؤں کی قیمتوں کی مانیٹرنگ کیلئے 3 رکنی کمیٹی قائم کر دی گئی ۔ کمیٹی دواؤں کی قیمتوں کا جائزہ لے کر ذمہ دار کمپنیوں کیخلاف کارروائی کریگی۔ ان کا کہنا ہے کہ غیر قانونی طور پر دواؤں کی قیمتیں بڑھانے پر 18 کمپنیوں کے خلاف کارروائی کی تاہم ان کمپنیوں نے حکومتی کارروائی پر عدالت سے حکم امتناعی لے لیا۔ عدالت میں حکومت نے اپنا کیس پوری تیاری اور اہل وکلاء کے ذریعے پیش کیا ہوتا تو کیسے خارج ہو سکتا تھا۔
وزیراعظم ایک طرف عوام کو ریلیف دینے کا عزم ظاہر کرتے ہیں‘ دوسری طرف انکی ناک کے نیچے یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن نے مختلف اشیاء خورد ونوش کی قیمتوں میں 38 روپے تک اضافہ کر دیا۔ چینی کی فی کلو قیمت میں 1روپیہ، دال چنا کی قیمت میں 14روپے اضافہ کر دیا جس سے دال چنا کی فی کلو قیمت 76 روپے ہو گئی ‘دال ماش کی قیمت میں بھی 14روپے فی کلو اضافہ سے نئی قیمت 110روپے ہو گئی۔ دال مونگ کی قیمت میں 25 روپے کا اضافہ کیا گیا جس کے بعد اسکی قیمت 125روپے فی کلو ہو گئی ہے۔تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان ،پیپلزپارٹی کے سیکرٹری جنرل سردار لطیف خان کھوسہ ، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد ، جے یو آئی ف کے مولانا فضل الرحمن، اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی میاں محمود الرشید اور پیپلزپارٹی کی رکن اسمبلی فائزہ ملک سمیت سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے قائدین نے قیمتوں میں اضافے کو غریب عوام پر مہنگائی کا بم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ خدا کیلئے حکومت غریبوں پر رحم کرے اور عوام پر مزید مہنگائی کے بم برسانے کے بجائے ان کو ریلیف دیا جائے۔اپوزیشن کا مہنگائی پراحتجاج بجا لیکن سوال یہ ہے کہ عمران خان نے اپنے صوبے میں کونسی ترقی کے جھنڈے گاڑے ہیں۔
پاکستان کی اکثریتی آبادی کا تعلق مڈل‘ لوئر مڈل اور غریب طبقے سے ہے دال روٹی پر گزارہ کرتے ہیں‘ دال بھی انکی پہنچ سے دور ہو گئی تو ان کیلئے جسم اور سانس کا رشتہ برقرار رکھنا مزید مشکل ہو جائیگا۔ وزیراعظم صاحب پہلی کوشش کریں کہ دال روٹی عوام کی دسترس میں رہے‘ وہ اسی صورت ممکن ہے کہ یوٹیلٹی سٹورز پر قیمتوں میں کیا گیا اضافہ واپس لیا جائے‘ کرایوں میں کمی کی جائے اور یوٹیلٹی بلز میں آئے روز اضافہ سے گریز کیا جائے‘ تبھی عوام میں موجودہ حکومت کی گڈگورننس کا تاثر قائم ہوگا۔ مہنگائی میں عوام کو ریلیف مرکز اور صوبے مل کر ہی دے سکتے ہیں۔ مرکز اس معاملے میں پہل کرے‘ محض روپے کی قیمت میں استحکام کو ہی صوبوں پر دبائو کیلئے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ آپ مہنگائی یا اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو پہلے اس سطح پر لائیں جس پر اضافہ کرتے کرتے پی پی پی کی حکومت نے چھوڑا تھا۔ اسکے بعد جو بھی کمی ہو گی‘ اسے نواز لیگ کی حکومت کا کریڈیٹ گردانا جائیگا۔