جماعت اسلامی کی نئی قیادت اور جنرل مشرف کی حاضری
جماعت اسلامی عمر کے اعتبار سے پاکستان سے بڑی جماعت ہے اس کا قیام 1941ء میں عمل میں آیا۔ عالمی اور آفاقی شہرت کے حامل دینی سکالر مولانا مودودی جماعت اسلامی کے بانی تھے۔ جماعت اسلامی کا تاسیسی مقصد انسانوں کا تزکیہ ، تربیت اور اصلاح تھا۔ جب مولانا مودودی نے انتخابی سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تو جماعت کے کئی سرگرم اکابرین نے اس فیصلے سے اختلاف کیا اور جماعت سے علیحدہ ہوگئے۔ جماعت اسلامی نے کم و بیش ہر انتخاب میں حصہ لیا مگر اسے خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ جمہوری انتخابی سیاست کا تجربہ بتاتا ہے کہ رائے دہندگان نے کبھی کسی مذہبی شخصیت کو حکومت بنانے کا اختیار نہیں دیا۔ قائداعظم ، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف سیاسی تھے اور مذہبی نہیں تھے۔ پاکستان میں انتخابات کی تاریخ شاہد ہے کہ رائے دہندگان مذہب کو سیاست کی دلدل سے الگ رکھنا چاہتے ہیں اگر سیاست اخلاقیات کی پابند ہوتی تو پھر شاید عوام مذہبی رہنمائوں پر اعتماد کرتے۔ سیاست چونکہ مکروفن کا کھیل بن چکی ہے اس لیے اجتماعی دانش مذہب کو ایسی سیاست سے الگ تھلگ رکھنا چاہتی ہے۔ جماعت اسلامی اگر چند دہائیاں اور عوام کی اصلاح اور تربیت پر توجہ دیتی تو پھر شاید اس کی منزل آسان ہوجاتی۔ جماعت اسلامی کے اراکین خاص کی تعداد تیس ہزار ہے جن کو ووٹ دینے کا استحقاق حاصل ہے۔ یہ اراکین چونکہ باشعور اور تربیت یافتہ ہیں اس لیے انتخابی عمل میں اپنی رائے کا اظہار خوب سوچ سمجھ کرکرتے ہیں۔جماعت اسلامی کے اراکین نے حالیہ جماعتی انتخاب میں نرم انقلاب برپاکردیا ہے۔ جماعت کی تاریخ میں پہلی بار موجودہ امیر کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جماعت اسلامی کی شوریٰ نے امیر کے انتخاب کیلئے تین اُمیدوار سید منور حسن، لیاقت بلوچ اور مولانا سراج الحق کو نامزد کیا تھا۔ اراکین نے خفیہ رائے شماری سے مولانا سراج الحق کو اگلے پانچ سال کیلئے جماعت کا امیر چن لیا ہے۔ سید منور حسن متقی شخصیت ہیں اور کبھی عہدے کے طلبگار نہیں رہے۔ گزشتہ انتخاب میں بھی انکو مرضی کیخلاف امارت کیلئے اُمیدوار نامزد کردیا گیا۔ انتخاب میں کامیابی کے بعد بھی انہوں نے امارت کا حلف اُٹھانے سے انکار کیا اور شوریٰ کو نیا امیر منتخب کرنے کا مشورہ دیا مگر قاضی حسین احمد کے اصرار پر انہوں نے جماعتی ڈسپلن کے آگے سرتسلیم خم کردیا۔ حالیہ انتخاب میں بھی منور حسن نے انتخابی اُمیدوار بننے سے معذرت کی تھی مگر شوریٰ نے انکی مرضی کے برعکس ایک بار پھر ان کو اُمیدوار نامزد کردیا۔ اس رویے کو شوریٰ کی آمریت ہی قراردیا جائیگا۔ سید منور حسن کی ناکامی سے یہ تاثر پھیلا ہے کہ جماعت کے ووٹرز نے ان پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ انکی قیادت میں جماعت اسلامی 2013ء کے انتخاب میں قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں کرسکی تھی۔ سید منور حسن کے پرجوش اور تندوتیز بیانات نے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ پر منفی اثرات مرتب کیے تھے اور اس نے روایت سے ہٹ کر سید منور حسن کیخلاف پریس ریلیز بھی جاری کی تھی۔ جماعت کے ووٹ ڈالنے والے اراکین میں کافی تعداد سابق فوجیوں کی ہے۔ سید منور حسن چونکہ متقی ہیں لہذا اپنے خیالات کا اظہار دوٹوک الفاظ میں کردیتے ہیں۔ قاضی حسین احمد معتدل اور نرم مزاج شخصیت تھے۔ گفتگو کرتے ہوئے متوازن الفاظ کا چنائو کرتے تھے ان کا دائرہ اثر وسیع تھا۔ نظریاتی اختلاف کے باوجود ان کا احترام کیا جاتا تھا۔سید منور حسن نے ڈٹ کر طالبان کی حمایت کی جسے پاکستان کی اکثریت نے پسند نہ کیا۔جماعت اسلامی کے ناظم اعلیٰ عبدالحفیظ احمد نے انتخابی عمل مکمل ہونے کے بعد پریس بریفنگ میں بتایا کہ 31301ووٹرز میں سے 30759ووٹروں کو بیلٹ پیپر جاری کیے گئے جن میں سے 25537 بیلٹ پیپر واپس ملے۔ انتخابی نتائج کے مطابق مولانا سراج الحق کامیاب قرارپائے۔ وہ جماعت اسلامی کے پانچویں امیر ہیں۔ ان سے قبل مولانا مودودی، میاں محمد طفیل، قاضی حسین احمد اور سید منور حسن جماعت کے امیر رہے ہیں۔ مولانا سراج الحق فقیر اور درویش شخصیت ہیں۔ انہوں نے ایک چھوٹے کرایے کے گھر میں زندگی کے شب و روز گزارے آجکل پختونخواہ حکومت میں سینئر وزیر ہیں۔ ان کو اُردو ، انگریزی، فارسی، عربی اور پشتو زبان پر عبور ہے۔ راقم نے حالیہ انتخاب کے سلسلے میں لیاقت بلوچ سے رابطہ کیا۔ وہ جماعت کے قیم ہیں اس لیے گفتگو میں محتاط رہے البتہ جماعت اسلامی لاہور کے امیر امیرالعظیم نے کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیا۔ انکے مطابق جماعت کے اراکین کی خواہش ہے کہ جماعت اسلامی اب نظریاتی اور تنظیمی کام کی بجائے انتخابی سیاست پر توجہ دے اور نوجوانوں کو جماعت میں شامل کرے۔ جماعت بین الاقوامی سرگرمیوں کی بجائے پاکستان میں سرگرمیوں میں اضافہ کرے۔ امیرالعظیم کی رائے میں جماعت کی قیادت نوجوانوں کو منتقل ہورہی ہے۔جماعت اسلامی کی سیاسی تاریخ ہیجان خیز رہی ہے لیکن آج اس کے مثبت پہلوئوں کا ذکر کرتے ہیں۔ جماعت اسلامی پاکستان کی واحد جماعت ہے جو اوپر سے نیچے تک اندرونی انتخابات کراتی ہے۔ یہ جماعت شخصیت پرستی اور خاندانی وراثت میں یقین نہیں رکھتی۔ متوسط طبقے کے پڑھے لکھے افراد اس کے رکن ہیں۔ جماعت کا نظم و نسق اور ڈسپلن مثالی ہے اور یہ فرقہ واریت کی مخالف ہے۔ جماعت اسلامی اب تک انتخابی سیاست پر اربوں روپے خرچ کرچکی ہے۔ کاش جماعت کی نئی قیادت اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرکے عوام کی اصلاح اور تربیت کا آغاز کرے جب تک عوام باشعور اور صالح نہیں ہونگے پاکستان ایک مثالی ریاست نہیں بن سکے گا۔ جنرل پرویز مشرف خصوصی عدالت کے حتمی حکم کے بعد عدالت میں پیش ہوگئے۔ انہوں نے عدالت کو خوش کرنے اور ریلیف حاصل کرنے کیلئے وقتی طور پر اپنا وکیل تبدیل کرلیا۔ نسیم فروغ ایڈوکیٹ نفیس طبع وکیل ہیں انہوں نے عدالت کے احترام اور وقار کا پورا خیال رکھا۔ عدالت نے جنرل مشرف پر فرد جرم عائد کردی جسے ملزم نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ یقینی طور پر یہ ایک تاریخی دن تھا جب پہلی بار سابق آرمی چیف پر فرد جرم عائد کی گئی۔ نسیم فروغ نے جنرل مشرف کی جانب سے تحریری درخواست میں عدالت سے استدعا کی کہ جنرل مشرف کو اپنی بیمار والدہ کی عیادت اور اپنے علاج کیلئے پاکستان سے باہر جانے کی اجازت دی جائے۔ پراسیکیوٹر جنرل شیخ اکرم نے بیان دیا کہ اگر عدالت ملزم کو اجازت دے دے تو حکومت کو اعتراض نہیں ہوگا۔ حکومت کی خواہش یہی ہے کہ عدالت ہی ملزم کو ریلیف دے اور حکومت اپنا دامن بچا لے۔ خصوصی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہاہے کہ جنرل مشرف زیر حراست نہیں ہیں اور ان کی نقل و حرکت پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ ان کا نام حکومت نے ای سی اسیل میں شامل کیا تھا لہذا حکومت ہی انکے نام کو ای سی ایل سے نکال سکتی ہے۔ نسیم فروغ نے سیکریٹری داخلہ کو درخواست دے دی ہے۔ جنرل مشرف کی والدہ کی بیماری چونکہ ایک انسانی مسئلہ ہے۔ خصوصی عدالت کا فیصلہ بھی رکاوٹ نہیں بلکہ معاون ہے اس لیے توقع یہی ہے کہ جنرل مشرف کو پاکستان سے باہر جانے کی اجازت مل جائے گی کیونکہ حکومت کیلئے خصوصی عدلیہ کے سازگار فیصلے کی روشنی میں جنرل مشرف کو روکنا مشکل ہوگا۔ جنرل مشرف کے قریبی ذرائع کیمطابق جنرل مشرف واپس آکر مقدمات کا سامنا کرینگے کیونکہ وہ مفرور بن کر فوج کا وقار مجروح نہیں کرنا چاہتے۔ عدلیہ اگر ان کو سزا دیگی تو صدر پاکستان انکی سزا ختم کردینگے یہی ایک آبرومندانہ راستہ ہے اس طرح آئین اور قانون کی بالادستی قائم ہوگی اور افواج پاکستان کے وقار میں بھی اضافہ ہوگا۔فوج اور سیاست کے درمیان ایک توازن قائم ہوجائیگا اور یہ تاثر بھی ختم ہوجائے گا کہ پاکستان کے جرنیل احتساب سے بالاتر ہیں۔